سندھ ہائیکورٹ سڑکوں اور بند گلیوں سے متعلق رپورٹ طلب
یہ وضاحت بھی کی جائے کہ کونسی سڑک اور گلی مستقل اور کونسی عارضی طور پر بند کی گئی ہے،عدالت عالیہ
سندھ ہائیکورٹ نے پولیس اور دیگر اداروں سے شہر کی بند کی گئی تمام سڑکوں اور گلیوں کی بندش سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ سڑکیں اور گلیاں کس اختیار اور کس کی ہدایت پر بند کی گئی ہیں ، منگل کو سماعت کے موقع پر رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے وہ رپورٹ جمع نہیں کرائی جاسکی جس کا عدالت نے پہلے حکم دیا تھا کہ ہائیکورٹ تک پہنچنے میں ججوں کی مشکلات کے متعلق درخواستیں بھی ریکارڈ پر پیش کی جائیں ، فاضل بینچ نے حکومت کو مزید ہدایت کی ہے کہ مجاز اتھارٹی سڑکوں اور گلیوں کی بندش کے متعلق رپورٹ میں اس امر کی بھی وضاحت کرے کہ کونسی سڑک اور گلی مستقل بند کی گئی اورکونسی عارضی طور پر بند کی گئی۔
فاضل بینچ نے رجسٹرارسندھ ہائیکورٹ کو بھی ہدایت کی کہ وہ سندھ ہائیکورٹ تک رسائی میں دشواری کا سامنا کرنے کے حوالے سے ججوں کی شکایات پر مبنی رپورٹ بھی پیش کی جائے، دورکنی بینچ نے عامرعزیز ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر متفرق درخواست کی سماعت کی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کے سامنے والی سڑک،سندھ سیکریٹریٹ کی سڑک سمیت شہر کی اہم شاہراہیں ٹریفک کی آمد و رفت کیلیے بند کردی گئی ہیں جو کہ غیر قانونی عمل اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 339کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے بیرسٹر رشید اخترقریشی نے بھی آئینی درخواست دائر کی تھی جس پر پریڈی تھانے کے افسر نے مارچ1992میں عدالت کے روبرو اپنے بیان میں یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ اسمبلی اور دیگر شاہراہیں بند نہیں کی جائیں گی اور اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی سڑکیں کھلی رکھنے کے انتظامات کیے جائیں گے، درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ حکومت نے یقین دہانی کے باوجود عدالت عالیہ کے حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا ۔
ان دو سڑکوں کی بندش سے عوام کو انتہائی مشکلات کاسامنا ہے خصوصی طور پر ان لوگوں کو جو ہائیکورٹ پہنچنا چاہتے ہیں، عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ ججز کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں سے متعلق بھی رپورٹ پیش کی جائے،عدالت نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکریٹری کو بھی معاونت کیلیے نوٹس جاری کردیے ہیں، عدالت نے سماعت ملتوی کردی،واضح رہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی سڑکوںکی بندش کو بھی نوگو ایریا کی ایک قسم قراردے چکی ہے۔
چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ سڑکیں اور گلیاں کس اختیار اور کس کی ہدایت پر بند کی گئی ہیں ، منگل کو سماعت کے موقع پر رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے وہ رپورٹ جمع نہیں کرائی جاسکی جس کا عدالت نے پہلے حکم دیا تھا کہ ہائیکورٹ تک پہنچنے میں ججوں کی مشکلات کے متعلق درخواستیں بھی ریکارڈ پر پیش کی جائیں ، فاضل بینچ نے حکومت کو مزید ہدایت کی ہے کہ مجاز اتھارٹی سڑکوں اور گلیوں کی بندش کے متعلق رپورٹ میں اس امر کی بھی وضاحت کرے کہ کونسی سڑک اور گلی مستقل بند کی گئی اورکونسی عارضی طور پر بند کی گئی۔
فاضل بینچ نے رجسٹرارسندھ ہائیکورٹ کو بھی ہدایت کی کہ وہ سندھ ہائیکورٹ تک رسائی میں دشواری کا سامنا کرنے کے حوالے سے ججوں کی شکایات پر مبنی رپورٹ بھی پیش کی جائے، دورکنی بینچ نے عامرعزیز ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر متفرق درخواست کی سماعت کی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کے سامنے والی سڑک،سندھ سیکریٹریٹ کی سڑک سمیت شہر کی اہم شاہراہیں ٹریفک کی آمد و رفت کیلیے بند کردی گئی ہیں جو کہ غیر قانونی عمل اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 339کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے بیرسٹر رشید اخترقریشی نے بھی آئینی درخواست دائر کی تھی جس پر پریڈی تھانے کے افسر نے مارچ1992میں عدالت کے روبرو اپنے بیان میں یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ اسمبلی اور دیگر شاہراہیں بند نہیں کی جائیں گی اور اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی سڑکیں کھلی رکھنے کے انتظامات کیے جائیں گے، درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ حکومت نے یقین دہانی کے باوجود عدالت عالیہ کے حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا ۔
ان دو سڑکوں کی بندش سے عوام کو انتہائی مشکلات کاسامنا ہے خصوصی طور پر ان لوگوں کو جو ہائیکورٹ پہنچنا چاہتے ہیں، عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ ججز کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں سے متعلق بھی رپورٹ پیش کی جائے،عدالت نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکریٹری کو بھی معاونت کیلیے نوٹس جاری کردیے ہیں، عدالت نے سماعت ملتوی کردی،واضح رہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی سڑکوںکی بندش کو بھی نوگو ایریا کی ایک قسم قراردے چکی ہے۔