فروغِ تعلیم میں مریم نواز کی خدمات
مریم نواز صاحبہ کو اپنے ذرایع سے اس کی اطلاع ملی تو وہ لندن میں بیٹھی پریشان ہوگئیں۔
یہ چند ہفتے قبل کی بات ہے۔ ایک اخبار میں شایع ہونے والی دوسری بہت سے خبروں کی طرح یہ چند سطری خبر بھی عام قارئین کے لیے معمولی خبر تھی لیکن لندن میں بیٹھی محترمہ مریم نواز شریف کے لیے یہ محض خبر نہیں تھی۔ بچیوں کو جدید تعلیم سے محروم کرتی ہوئی یہ اطلاع پڑھ کر وہ پریشان ہوگئیں۔
خبر میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد کے جی الیون سیکٹر میں ایک سرکاری گرلز ماڈل اسکول میں نویں، دسویں جماعت کی طالبات کے لیے کمپیوٹر، ریاضی، فزکس اور کیمسٹری کی اساتذہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ بچیاں مہینوں سے مطالبات کرکے تھک ہار چکی تھیں لیکن مطالبات پھر بھی نہ مانے گئے۔ مریم نواز کی ایک معتمد اور قریبی ساتھی، جو رکنِ قومی اسمبلی بھی ہیں، راوی ہیں: ''جس روز یہ خبر شایع ہوئی، اس دن بدھ تھا۔
مریم نواز صاحبہ کو اپنے ذرایع سے اس کی اطلاع ملی تو وہ لندن میں بیٹھی پریشان ہوگئیں۔ انھوں نے بذریعہ فون مجھے اور دیگر متعلقہ افراد سے کہا کہ کل جمعرات تک اس اسکول میں طالبات کے لیے سائنس کے مضامین پڑھانے والی اساتذہ کرام کا ہر صورت بندوبست ہوجانا چاہیے۔'' اسے حکم سمجھ لیجیے یا گزارش یا مثبت آرزو کہ اسلام آباد کے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں دوڑیں لگ گئیں۔ ''کیڈ'' کے سیکریٹری صاحب نے بذاتِ خود مذکورہ اسکول کا دورہ کیا اور خبر کی تصدیق کرتے ہوئے فوری طور پر طالبات کے لیے سائنسی مضامین پڑھانے والی استانیوں کا بندوبست کردیا۔
ثقہ راوی کا کہنا ہے کہ اس سارے پراسیس میں صرف چالیس منٹ لگے۔ مذکورہ اسکول کی طالبات کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ اسکول کی اساتذہ کے ساتھ ساتھ تمام بچیاں بھی اس شاندار اور بے مثل خدمت پر محترمہ مریم نواز شریف کی مشکور ہیں۔ زیرِ تعلیم بچیوں کے والدین کے اطمینان کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
محترمہ مریم نواز، جو جناب محمد نواز شریف کی صاحبزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت میں بروئے کار تمام اسکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانے اور انھیں اپ ٹو ڈیٹ و اَپ گریڈ کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کی مشیرِ خاص بھی ہیں، کا یہ ایک اقدام ابتدائی طور پر سیکڑوں وفاقی اسکولوں کا قبلہ درست کرنے کا باعث بن گیا ہے۔
اسلام آباد کے اسکولوں اور کالجوں کا نک سک اور قبلہ درست کرنے میں مریم نواز کے کامیاب و کامران ہونے کے روشن امکانات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف صاحب خود بھی اس سلسلے میں معاونت کے لیے سامنے آچکے ہیں۔ انھوں نے اگر پشاور میں سولہ دسمبر کو ''یومِ عزمِ تعلیم'' بنانے کا اعلان کیا ہے تو اس سے قبل وہ اسلام آباد میں، اپنی صاحبزادی مریم نواز کی موجودگی میں، یہ بھی اعلان کرچکے ہیں کہ اس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ملک کا ہر بچہ اسکول کالج نہیں چلا جاتا۔ اسلام آباد کے مضافات، پنج گراں، میں وزیراعظم کا یہ خطاب اب تو تاریخی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
شاید ایجوکیشنل ریفارمز پروگرام، جسے مریم نواز ہیڈ کر رہی ہیں، کے یہ ابتدائی قدم وفاقی دارالحکومت میں اٹھائے جارہے ہیں۔ آخر کار ان مستحسن کوششوں کو پورے وطنِ عزیز پر محیط ہو کر امر ہونا ہے۔ اس راہ میں یقینا بعض رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام آباد ہی میں بعض جگہوں پر گھوسٹ اسکولوں کا وجود۔ ممتاز ماہنامہ انگریزی جریدے ''ہیرالڈ'' (شمارہ دسمبر 2015، صفحہ 20) نے اس بارے میں نشاندہی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے ان گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 57ہے۔
جس عزمِ صمیم اور بلند آدرشوں کے تحت محترمہ مریم نواز شریف اسلام آباد کے تمام سرکاری اسکولوں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں، عوامی توقعات یہی ہیں کہ وہ ان گھوسٹ اسکولوں کا سراغ لگا کر ذمے داروں کو نشانِ عبرت بھی بنائیں گی تاکہ چور راستوں کا مکمل طور پر انسداد ہوسکے۔
ان کی کامیابی کے لیے اسلام آباد کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے عوام کی دعائیں بھی انھیں میسر ہیں۔ وطنِ عزیز میں آبادی جس بے محابہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، کہا جارہا ہے کہ اس تناسب سے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اضافہ نہیں ہورہا لیکن وفاقی وزارتِ اطلاعات کے شعبۂ DEMP کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والے تازہ ترین اور نہایت معلومات افزا کتابچے بعنوان BASIC FACTS میں دوسری قیمتی معلومات کے علاوہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کی تعداد کے بارے میں جو حقائق شایع کیے گئے ہیں، وہ اتنے بھی حوصلہ شکن نہیں ہیں۔
''ڈیمپ'' کے سربراہ جناب محمد سلیم بیگ، جنھیں اپنے متعلقہ معاملات میں خاصی دستگاہ بھی حاصل ہے اور وہ اپنے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں، نے گذشتہ دنوں مجھے ''بیسک فیکٹس'' نامی اس کتابچے کے علاوہ دیگر کتابیں بھی تحفتاً عنایت فرمائیں۔ اس سرکاری رنگین پمفلٹ کے مطابق: ''پاکستان کی شرحِ خواندگی 58فیصد ہے۔ وطنِ عزیز میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ ستاون ہزار آٹھ سو پچھترہے۔
سرکاری مڈل اسکول 42796، ہائی اسکول 30452، سیکنڈری ووکیشنل انسٹی ٹیوشنز 3323، آرٹس و سائنس کالج 5157، پروفیشنل کالجز 1086اور ملک بھر میں 161 کی تعداد میں سرکاری یونیورسٹیاں بروئے کار ہیں۔ اگر زیادہ رونا دھونا نہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ پینتالیس لاکھ کی آبادی کے لیے یہ سرکاری تعلیمی ادارے اتنے بھی کم نہیں ہیں۔
ضرورت مگر اس امر کی ہے کہ انھیں جد ید اور مطلوبہ معیار کے مطابق بھی بنایا جائے اور اس راہ میں مزاحم کالی بھیڑوں کا صفایا بھی کیا جانا چاہیے تاکہ ملک بھر کے امیر، متوسط اور زیریں طبقات سے تعلق رکھنے والے تمام خاندانوں کے بچے کسی جھجک اور تحفظات کے بغیر، پورے اعتماد کے ساتھ، ان سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محترمہ مریم نواز شریف جس عزمِ صمیم کے ساتھ اسلام آباد کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بدلنے اور انھیں بلند معیار پر لانے کی کوششیں کررہی ہیں، وہی ملک بھر کے مذکورہ تعلیمی اداروں کی بگڑی صورت بھی سنوار سکتی ہیں۔
محترمہ مریم نواز نے اسلام آباد کے سیکڑوں اسکولوں کو عالمی معیار کے برابر لانے کے لیے جوعملی اقدامات شروع کررکھے ہیں، ان کے ساتھ وہ اپنی بے لچک کمٹمنٹ تو ثابت کرچکی ہیں۔ اس کامیاب تجربے کے پس منظر میں اگر جناب وزیراعظم آگے بڑھ کر ملک بھر کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی نئے سرے سے تقدیر بدلنے کی ذمے داری بھی مریم نواز کو سونپ دیتے ہیں تو یہی امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ وہ عوام الناس کی توقعات پر احسن طریقے سے پوری اتر سکیں گی۔
خبر میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد کے جی الیون سیکٹر میں ایک سرکاری گرلز ماڈل اسکول میں نویں، دسویں جماعت کی طالبات کے لیے کمپیوٹر، ریاضی، فزکس اور کیمسٹری کی اساتذہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ بچیاں مہینوں سے مطالبات کرکے تھک ہار چکی تھیں لیکن مطالبات پھر بھی نہ مانے گئے۔ مریم نواز کی ایک معتمد اور قریبی ساتھی، جو رکنِ قومی اسمبلی بھی ہیں، راوی ہیں: ''جس روز یہ خبر شایع ہوئی، اس دن بدھ تھا۔
مریم نواز صاحبہ کو اپنے ذرایع سے اس کی اطلاع ملی تو وہ لندن میں بیٹھی پریشان ہوگئیں۔ انھوں نے بذریعہ فون مجھے اور دیگر متعلقہ افراد سے کہا کہ کل جمعرات تک اس اسکول میں طالبات کے لیے سائنس کے مضامین پڑھانے والی اساتذہ کرام کا ہر صورت بندوبست ہوجانا چاہیے۔'' اسے حکم سمجھ لیجیے یا گزارش یا مثبت آرزو کہ اسلام آباد کے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں دوڑیں لگ گئیں۔ ''کیڈ'' کے سیکریٹری صاحب نے بذاتِ خود مذکورہ اسکول کا دورہ کیا اور خبر کی تصدیق کرتے ہوئے فوری طور پر طالبات کے لیے سائنسی مضامین پڑھانے والی استانیوں کا بندوبست کردیا۔
ثقہ راوی کا کہنا ہے کہ اس سارے پراسیس میں صرف چالیس منٹ لگے۔ مذکورہ اسکول کی طالبات کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ اسکول کی اساتذہ کے ساتھ ساتھ تمام بچیاں بھی اس شاندار اور بے مثل خدمت پر محترمہ مریم نواز شریف کی مشکور ہیں۔ زیرِ تعلیم بچیوں کے والدین کے اطمینان کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
محترمہ مریم نواز، جو جناب محمد نواز شریف کی صاحبزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت میں بروئے کار تمام اسکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانے اور انھیں اپ ٹو ڈیٹ و اَپ گریڈ کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کی مشیرِ خاص بھی ہیں، کا یہ ایک اقدام ابتدائی طور پر سیکڑوں وفاقی اسکولوں کا قبلہ درست کرنے کا باعث بن گیا ہے۔
اسلام آباد کے اسکولوں اور کالجوں کا نک سک اور قبلہ درست کرنے میں مریم نواز کے کامیاب و کامران ہونے کے روشن امکانات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف صاحب خود بھی اس سلسلے میں معاونت کے لیے سامنے آچکے ہیں۔ انھوں نے اگر پشاور میں سولہ دسمبر کو ''یومِ عزمِ تعلیم'' بنانے کا اعلان کیا ہے تو اس سے قبل وہ اسلام آباد میں، اپنی صاحبزادی مریم نواز کی موجودگی میں، یہ بھی اعلان کرچکے ہیں کہ اس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ملک کا ہر بچہ اسکول کالج نہیں چلا جاتا۔ اسلام آباد کے مضافات، پنج گراں، میں وزیراعظم کا یہ خطاب اب تو تاریخی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
شاید ایجوکیشنل ریفارمز پروگرام، جسے مریم نواز ہیڈ کر رہی ہیں، کے یہ ابتدائی قدم وفاقی دارالحکومت میں اٹھائے جارہے ہیں۔ آخر کار ان مستحسن کوششوں کو پورے وطنِ عزیز پر محیط ہو کر امر ہونا ہے۔ اس راہ میں یقینا بعض رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام آباد ہی میں بعض جگہوں پر گھوسٹ اسکولوں کا وجود۔ ممتاز ماہنامہ انگریزی جریدے ''ہیرالڈ'' (شمارہ دسمبر 2015، صفحہ 20) نے اس بارے میں نشاندہی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے ان گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 57ہے۔
جس عزمِ صمیم اور بلند آدرشوں کے تحت محترمہ مریم نواز شریف اسلام آباد کے تمام سرکاری اسکولوں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں، عوامی توقعات یہی ہیں کہ وہ ان گھوسٹ اسکولوں کا سراغ لگا کر ذمے داروں کو نشانِ عبرت بھی بنائیں گی تاکہ چور راستوں کا مکمل طور پر انسداد ہوسکے۔
ان کی کامیابی کے لیے اسلام آباد کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے عوام کی دعائیں بھی انھیں میسر ہیں۔ وطنِ عزیز میں آبادی جس بے محابہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، کہا جارہا ہے کہ اس تناسب سے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اضافہ نہیں ہورہا لیکن وفاقی وزارتِ اطلاعات کے شعبۂ DEMP کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والے تازہ ترین اور نہایت معلومات افزا کتابچے بعنوان BASIC FACTS میں دوسری قیمتی معلومات کے علاوہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کی تعداد کے بارے میں جو حقائق شایع کیے گئے ہیں، وہ اتنے بھی حوصلہ شکن نہیں ہیں۔
''ڈیمپ'' کے سربراہ جناب محمد سلیم بیگ، جنھیں اپنے متعلقہ معاملات میں خاصی دستگاہ بھی حاصل ہے اور وہ اپنے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں، نے گذشتہ دنوں مجھے ''بیسک فیکٹس'' نامی اس کتابچے کے علاوہ دیگر کتابیں بھی تحفتاً عنایت فرمائیں۔ اس سرکاری رنگین پمفلٹ کے مطابق: ''پاکستان کی شرحِ خواندگی 58فیصد ہے۔ وطنِ عزیز میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ ستاون ہزار آٹھ سو پچھترہے۔
سرکاری مڈل اسکول 42796، ہائی اسکول 30452، سیکنڈری ووکیشنل انسٹی ٹیوشنز 3323، آرٹس و سائنس کالج 5157، پروفیشنل کالجز 1086اور ملک بھر میں 161 کی تعداد میں سرکاری یونیورسٹیاں بروئے کار ہیں۔ اگر زیادہ رونا دھونا نہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ پینتالیس لاکھ کی آبادی کے لیے یہ سرکاری تعلیمی ادارے اتنے بھی کم نہیں ہیں۔
ضرورت مگر اس امر کی ہے کہ انھیں جد ید اور مطلوبہ معیار کے مطابق بھی بنایا جائے اور اس راہ میں مزاحم کالی بھیڑوں کا صفایا بھی کیا جانا چاہیے تاکہ ملک بھر کے امیر، متوسط اور زیریں طبقات سے تعلق رکھنے والے تمام خاندانوں کے بچے کسی جھجک اور تحفظات کے بغیر، پورے اعتماد کے ساتھ، ان سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محترمہ مریم نواز شریف جس عزمِ صمیم کے ساتھ اسلام آباد کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بدلنے اور انھیں بلند معیار پر لانے کی کوششیں کررہی ہیں، وہی ملک بھر کے مذکورہ تعلیمی اداروں کی بگڑی صورت بھی سنوار سکتی ہیں۔
محترمہ مریم نواز نے اسلام آباد کے سیکڑوں اسکولوں کو عالمی معیار کے برابر لانے کے لیے جوعملی اقدامات شروع کررکھے ہیں، ان کے ساتھ وہ اپنی بے لچک کمٹمنٹ تو ثابت کرچکی ہیں۔ اس کامیاب تجربے کے پس منظر میں اگر جناب وزیراعظم آگے بڑھ کر ملک بھر کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی نئے سرے سے تقدیر بدلنے کی ذمے داری بھی مریم نواز کو سونپ دیتے ہیں تو یہی امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ وہ عوام الناس کی توقعات پر احسن طریقے سے پوری اتر سکیں گی۔