قوم کاحافظہ اگر کمزور نہ ہو تو
قوم کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو اُسے یہ یا د ہونا چاہیے کہ 2013ء میں جب اِس ملک میں نئے الیکشن ہو رہے تھے
ISLAMABAD:
قوم کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو اُسے یہ یا د ہونا چاہیے کہ 2013ء میں جب اِس ملک میں نئے الیکشن ہو رہے تھے تو وطنِ عزیز کی مجموعی صورتحال کیسی تھی۔ ہر طرف دہشت گردی کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں کوئی خود کش حملہ یا کوئی بم دھماکا ہمارے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا کرتا تھا۔ ٹارگٹ کلنگ، اغوا، چوری اور ڈکیتی کے واقعات روز کا معمول بن چکے تھے۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیدنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔
مالی بدعنوانی اور کرپشن کے ناسور سے ہر حکومتی ادارہ مضمحل اور مجروح ہو چکا تھا۔ واپڈا، پی آئی اے اور ریلوے تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے۔ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں سفر مشکل اور ناگوار ہوتا جا رہا تھا۔ کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چلتی تھی اور نہ وقت پر پہنچ پاتی تھی۔ انجنوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہو چکی تھی۔ اُنہیں چلانے کے لیے ڈیزل تک میسر نہ تھا، لیکن الحمد للہ آج 2015ء کے اختتام پر صورتحال یکسر مختلف ہے، ہم اگر بے جا تنقید اور غیر ضروری اختلاف کو پسِ پشت ڈال کر غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو احساس ہو گا کہ قوم مایوسی اور نا اُمیدیوں کے اندھیروں سے نکل کر ایک پُر امید اور روشن مستقبل کی جانب سفر کا آغاز کر چکی ہے۔
دہشت گردی کا آسیب ہمارے سروں سے اُٹھ چکا ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں 90 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ کر اچی شہر میں بھی امن و امان کی صورتحال میں نمایا ں بہتری آئی ہے۔ وہاں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں 60 سے70 فیصد تک کمی ہو چکی ہے۔ کر اچی کے باسیوں کو آئے دن کی ہڑتالوں اور احتجاجوں سے نجات مل چکی ہے۔ سارے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ گیس کی کمی کا بھی حل ڈھونڈا جا رہا ہے۔ ترکمانستان کے ساتھ ہونے والے گیس لائن بچھانے کے ایک معاہدے کے تحت ــ'تاپی' کے منصوبے پر کا م شروع ہو چکا ہے۔
حکومتی اداروں میں کرپشن کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کے سبب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ خاص کر پاکستان ریلوے میں تو حیران کن تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ یہ ادارہ جو سابقہ دور کی ناقص حکمتِ عملی اور نااہلی کی وجہ سے تقریباً تباہ و برباد ہو چکا تھا اب ایک منافع بخش ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ٹرینوں کی بہتر صورتحال اور بروقت آمد و روانگی کے باعث اِس پر عوام الناس کا اعتماد ایک بار پھر بڑھنے لگا ہے اور وہ جو اِس میں سفر کرنے سے اجتناب کیا کرتے تھے اب ایک بار پھر اِس میں سفر کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اِسی طرح ملک کے مجموعی معاشی حالات بھی سدھر تے جا رہے ہیں۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم مدت میں ریکارڈ سطح کو چھونے لگے ہیں۔ افراطِ زر میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک بھر میں سڑکوں اور موٹرویز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ جس کے باعث یہاں سرمایہ کاری کے امکانات تیزی کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ خاص کر پاک چائنہ اکنامک کوریڈور نے ملک و قوم کو ایک خوش آیند مستقبل کی نوید سنا دی ہے۔
یہ اِس خطہ میں زبردست انقلابی تبدیلیوں کا حامل پروجیکٹ ہے جس کی اہمیت و فادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ دوست اور دشمن سمیت تمام ممالک اِس کے ذریعے مستقبل میں پڑنے والے اثرات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ کچھ اِس سے خوفزدہ ہو کر اِسے سبوتاژ کرنے کی فکر میں لگ گئے ہیں اور کچھ اِس سے مستفید ہونے کی جستجو کرنے لگے ہیں۔
ہماری وفاقی حکومت نے اب 32 لاکھ غریب خاندانوں کے مفت علاج کی غرض سے قومی صحت کارڈ کے اجراء کا اعلان بھی کر ڈالا ہے۔ جس سے ہمارے ملک کے 23 اضلاع کے غریب اور نادار لوگ جو اپنی مہلک بیماریوں کے علاج سے قاصر تھے اب باآسانی اپنا علاج کروا سکیں گے۔ مفت علاج کی سہولت کا منصوبہ تاریخ میں پہلی بار ترتیب دیا گیا ہے۔
ابھی اِسے صرف دو صوبوں میں شروع کیا گیا ہے لیکن رفتہ رفتہ اِ س کا دائرہ کار دیگر صوبوں تک بڑھا دیا جائے گا۔ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین منصوبوں پر تنقید کرنے والوں کے پاس اب شاید یہ جواز باقی نہیں رہے گا کہ حکومت صرف سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں پر پیسہ خرچ کر رہی ہے جب کہ عوام پینے کے صاف پانی اور علاج کی بہتر سہولتوں سے محروم ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی اور قومی صحت کارڈ کے اجراء تک بے شمار منصوبوں پر قابلِ ذکر پیشرفت کی گئی ہے جسے یقینا سراہنا چاہیے۔
گرچہ ہمارے عوام کو ابھی تک ساری بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں لیکن جس مثبت اور تعمیری سفر کا آغاز ہو چکا ہے اُس سے یہ اُمید کی جانی چاہیے کہ وطنِ عزیز بہت جلد اپنے مصائب اور مشکلات پر قابو پا لے گا اور ایک قلیل مدت میں تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی جو پاکستان دشمنی میں پاگل ہوئے جا رہے تھے اب اچانک اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر ہم سے محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام کامیابیوں کے پیچھے اُس فکر و سوچ کا عمل دخل ہے جو میاں صاحب یکسوئی کے ساتھ 1990ء سے اپنے دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں۔ اُنہیں جب بھی موقعہ ملا اُنہوں نے اپنے اِس ویژن پر کام شروع کر دیا۔ اِس سے قبل جب وہ پہلی بار 1990ء میں وزیرِ اعظم بنے تو موٹر وے جیسے عظیم منصوبے اور پیلی ٹیکسی روزگار اسکیم کا آغاز کر دیا لیکن اُنہیں قبل از وقت اقتدار سے بیدخل کر کے اُسے زائل اور بے ثمر کر دیا گیا۔ پھر 1997ء میں جب دوبارہ موقعہ ملا تو ایک بار پھر موٹر وے کے اپنے ادھورے مشن کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا درجہ دلانے کی جستجو اور کوششوں میں سرخرو ہوئے۔ مگر اِس بار بھی اُنہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔
اور اب جب عوام نے اُنہیں تیسری بار وزیرِ اعظم کے منصب پر بٹھایا ہے تو مختلف حلقوں کی جانب سے ایک بار پھر کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے پانچ سال پورے نہ کر پائیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر منتخب حکومت کو اُسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تا کہ وہ اپنی مکمل کارکردگی کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں عوام کو جوابدہ ہو سکے نہ کہ مظلوم و بے قصور ہو کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے لگے۔ جس طرح ہم نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اُس کے سابقہ دور میں اپنے پانچ سال پورے کرنے دیے اِسی طرح مسلم لیگ (ن) کو بھی اب پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔
وہ اگر اپنی اِس مقررہ مدت میں کوئی کارکردگی نہ دکھا پائی تو عوام خود اُسے مسترد کر دینگے۔ جس طرح زرداری حکومت کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ پاکستان پیپلز پارٹی ابھی تک بھگت رہی ہے اور وہ ابھی تک دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کی پوزیشن میں نہیں آ پا رہی اِسی طرح موجودہ حکومت بھی اگر بقول اُس کے مخالفین کہ وہ انتہائی نااہل اور ناکارہ حکومت ہے تو عوام اُسے بھی اُسی طرح مسترد و غیر مقبول کر دیں گے۔ صحیح جج اور منصف ہمارے عوام ہی ہوتے ہیں۔ اُنہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ صبر اور اطمینان سے مزید دو سال گزار لیے جائیں۔ پھر خالصتاً اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے الیکشن میں خود کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ جس نے بہتر کارکردگی دکھائی ہو گی عوام یقینا اُسے ہی حکمرانی کا حق عطا کرینگے۔ اطمینان رکھیے عوام کا فیصلہ غلط نہیں ہو گا۔
قوم کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو اُسے یہ یا د ہونا چاہیے کہ 2013ء میں جب اِس ملک میں نئے الیکشن ہو رہے تھے تو وطنِ عزیز کی مجموعی صورتحال کیسی تھی۔ ہر طرف دہشت گردی کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں کوئی خود کش حملہ یا کوئی بم دھماکا ہمارے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا کرتا تھا۔ ٹارگٹ کلنگ، اغوا، چوری اور ڈکیتی کے واقعات روز کا معمول بن چکے تھے۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیدنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔
مالی بدعنوانی اور کرپشن کے ناسور سے ہر حکومتی ادارہ مضمحل اور مجروح ہو چکا تھا۔ واپڈا، پی آئی اے اور ریلوے تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے۔ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں سفر مشکل اور ناگوار ہوتا جا رہا تھا۔ کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چلتی تھی اور نہ وقت پر پہنچ پاتی تھی۔ انجنوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہو چکی تھی۔ اُنہیں چلانے کے لیے ڈیزل تک میسر نہ تھا، لیکن الحمد للہ آج 2015ء کے اختتام پر صورتحال یکسر مختلف ہے، ہم اگر بے جا تنقید اور غیر ضروری اختلاف کو پسِ پشت ڈال کر غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو احساس ہو گا کہ قوم مایوسی اور نا اُمیدیوں کے اندھیروں سے نکل کر ایک پُر امید اور روشن مستقبل کی جانب سفر کا آغاز کر چکی ہے۔
دہشت گردی کا آسیب ہمارے سروں سے اُٹھ چکا ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں 90 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ کر اچی شہر میں بھی امن و امان کی صورتحال میں نمایا ں بہتری آئی ہے۔ وہاں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں 60 سے70 فیصد تک کمی ہو چکی ہے۔ کر اچی کے باسیوں کو آئے دن کی ہڑتالوں اور احتجاجوں سے نجات مل چکی ہے۔ سارے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ گیس کی کمی کا بھی حل ڈھونڈا جا رہا ہے۔ ترکمانستان کے ساتھ ہونے والے گیس لائن بچھانے کے ایک معاہدے کے تحت ــ'تاپی' کے منصوبے پر کا م شروع ہو چکا ہے۔
حکومتی اداروں میں کرپشن کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کے سبب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ خاص کر پاکستان ریلوے میں تو حیران کن تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ یہ ادارہ جو سابقہ دور کی ناقص حکمتِ عملی اور نااہلی کی وجہ سے تقریباً تباہ و برباد ہو چکا تھا اب ایک منافع بخش ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ٹرینوں کی بہتر صورتحال اور بروقت آمد و روانگی کے باعث اِس پر عوام الناس کا اعتماد ایک بار پھر بڑھنے لگا ہے اور وہ جو اِس میں سفر کرنے سے اجتناب کیا کرتے تھے اب ایک بار پھر اِس میں سفر کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اِسی طرح ملک کے مجموعی معاشی حالات بھی سدھر تے جا رہے ہیں۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم مدت میں ریکارڈ سطح کو چھونے لگے ہیں۔ افراطِ زر میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک بھر میں سڑکوں اور موٹرویز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ جس کے باعث یہاں سرمایہ کاری کے امکانات تیزی کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ خاص کر پاک چائنہ اکنامک کوریڈور نے ملک و قوم کو ایک خوش آیند مستقبل کی نوید سنا دی ہے۔
یہ اِس خطہ میں زبردست انقلابی تبدیلیوں کا حامل پروجیکٹ ہے جس کی اہمیت و فادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ دوست اور دشمن سمیت تمام ممالک اِس کے ذریعے مستقبل میں پڑنے والے اثرات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ کچھ اِس سے خوفزدہ ہو کر اِسے سبوتاژ کرنے کی فکر میں لگ گئے ہیں اور کچھ اِس سے مستفید ہونے کی جستجو کرنے لگے ہیں۔
ہماری وفاقی حکومت نے اب 32 لاکھ غریب خاندانوں کے مفت علاج کی غرض سے قومی صحت کارڈ کے اجراء کا اعلان بھی کر ڈالا ہے۔ جس سے ہمارے ملک کے 23 اضلاع کے غریب اور نادار لوگ جو اپنی مہلک بیماریوں کے علاج سے قاصر تھے اب باآسانی اپنا علاج کروا سکیں گے۔ مفت علاج کی سہولت کا منصوبہ تاریخ میں پہلی بار ترتیب دیا گیا ہے۔
ابھی اِسے صرف دو صوبوں میں شروع کیا گیا ہے لیکن رفتہ رفتہ اِ س کا دائرہ کار دیگر صوبوں تک بڑھا دیا جائے گا۔ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین منصوبوں پر تنقید کرنے والوں کے پاس اب شاید یہ جواز باقی نہیں رہے گا کہ حکومت صرف سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں پر پیسہ خرچ کر رہی ہے جب کہ عوام پینے کے صاف پانی اور علاج کی بہتر سہولتوں سے محروم ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی اور قومی صحت کارڈ کے اجراء تک بے شمار منصوبوں پر قابلِ ذکر پیشرفت کی گئی ہے جسے یقینا سراہنا چاہیے۔
گرچہ ہمارے عوام کو ابھی تک ساری بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں لیکن جس مثبت اور تعمیری سفر کا آغاز ہو چکا ہے اُس سے یہ اُمید کی جانی چاہیے کہ وطنِ عزیز بہت جلد اپنے مصائب اور مشکلات پر قابو پا لے گا اور ایک قلیل مدت میں تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی جو پاکستان دشمنی میں پاگل ہوئے جا رہے تھے اب اچانک اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر ہم سے محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام کامیابیوں کے پیچھے اُس فکر و سوچ کا عمل دخل ہے جو میاں صاحب یکسوئی کے ساتھ 1990ء سے اپنے دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں۔ اُنہیں جب بھی موقعہ ملا اُنہوں نے اپنے اِس ویژن پر کام شروع کر دیا۔ اِس سے قبل جب وہ پہلی بار 1990ء میں وزیرِ اعظم بنے تو موٹر وے جیسے عظیم منصوبے اور پیلی ٹیکسی روزگار اسکیم کا آغاز کر دیا لیکن اُنہیں قبل از وقت اقتدار سے بیدخل کر کے اُسے زائل اور بے ثمر کر دیا گیا۔ پھر 1997ء میں جب دوبارہ موقعہ ملا تو ایک بار پھر موٹر وے کے اپنے ادھورے مشن کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا درجہ دلانے کی جستجو اور کوششوں میں سرخرو ہوئے۔ مگر اِس بار بھی اُنہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔
اور اب جب عوام نے اُنہیں تیسری بار وزیرِ اعظم کے منصب پر بٹھایا ہے تو مختلف حلقوں کی جانب سے ایک بار پھر کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے پانچ سال پورے نہ کر پائیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر منتخب حکومت کو اُسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تا کہ وہ اپنی مکمل کارکردگی کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں عوام کو جوابدہ ہو سکے نہ کہ مظلوم و بے قصور ہو کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے لگے۔ جس طرح ہم نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اُس کے سابقہ دور میں اپنے پانچ سال پورے کرنے دیے اِسی طرح مسلم لیگ (ن) کو بھی اب پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔
وہ اگر اپنی اِس مقررہ مدت میں کوئی کارکردگی نہ دکھا پائی تو عوام خود اُسے مسترد کر دینگے۔ جس طرح زرداری حکومت کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ پاکستان پیپلز پارٹی ابھی تک بھگت رہی ہے اور وہ ابھی تک دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کی پوزیشن میں نہیں آ پا رہی اِسی طرح موجودہ حکومت بھی اگر بقول اُس کے مخالفین کہ وہ انتہائی نااہل اور ناکارہ حکومت ہے تو عوام اُسے بھی اُسی طرح مسترد و غیر مقبول کر دیں گے۔ صحیح جج اور منصف ہمارے عوام ہی ہوتے ہیں۔ اُنہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ صبر اور اطمینان سے مزید دو سال گزار لیے جائیں۔ پھر خالصتاً اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے الیکشن میں خود کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ جس نے بہتر کارکردگی دکھائی ہو گی عوام یقینا اُسے ہی حکمرانی کا حق عطا کرینگے۔ اطمینان رکھیے عوام کا فیصلہ غلط نہیں ہو گا۔