بچوں کی زندگیاں بڑوں کے ہاتھوں میں
تقریباً روزانہ ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی نہ کوئی ایسا المناک واقعہ یا حادثہ ضرور رونما ہوتا ہے
وفاقی حکومت نے ملک میں بچوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا نوٹس بھی لیا ہے اور ان پر سخت دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا ہے اور ایسے اقدامات کا بیڑا اٹھایا ہے جن کے ذریعے ایسی افسوسناک ہلاکتوں کی تعداد کم کی جا سکتی ہے۔
تقریباً روزانہ ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی نہ کوئی ایسا المناک واقعہ یا حادثہ ضرور رونما ہوتا ہے جس میں مرنے والوں میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی شامل ہوتے ہیں، یوں تو بڑوں کا مرنا بھی اتنا ہی دکھ اور افسوس کا باعث ہوتا ہے مگر بچوں کا موت سے ہمکنار ہونا، اس لیے اور زیادہ افسوسناک ہوتا ہے کہ انھوں نے ابھی زندگی کی ابتدا ہی کی ہوتی ہے اور انھیں ابھی زندگی کا خاصا طویل سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ پھر دوسری اہم بات یہ کہ بچوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانا بڑوں کی ذمے داری ہے، اکثر بچے خود اپنی جان کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اس ذمے داری کے لیے بجا طور پر اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر حال ہی میں جو خبریں اخبارات میں شایع ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ لاہور کے قریب آوارہ کتوں نے دو سالہ بچے کو بھنبھوڑ کر مار ڈالا۔ اب اس بچے کی حفاظت کی بنیادی ذمے داری بھی ماں کی تھی جس نے اپنے چھوٹے سے بچے کو گلی میں کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ مغربی ممالک میں عام طور پر کتوں کو بچوں کی حفاظت کرتے دیکھا گیا ہے مگر ہمارے حصے میں انسان تو انسان بدقسمتی سے کتے بھی انتہائی وحشی اور آوارہ منش ہیں جو بچوں کو اپنی غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ایک دوسرا واقعہ راولپنڈی کے ایک گھر میں پیش آیا جہاں ماں باپ اور ان کے بچے سخت سردی میں گیس کا سلنڈر لیک کر جانے کے باعث ہلاک ہو گئے ۔ اس واقعے میں بھی مرنے والے بچوں کی حفاظت کی ذمے داری بنیادی طور پر ماں باپ کی تھی جو بدقسمتی سے خود بھی اس حادثے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کے علاوہ بھی تقریباً روزانہ ملک کے طول و عرض میں ٹریفک کے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی خبروں میں جب مرنے والوں کی تعداد کا تذکرہ ہوتا ہے تو ''عورتوں اور بچوں سمیت'' کا لفظ ضرور لکھا جاتا ہے۔ وہ عورتیں بچے جن کی سلامتی مردوں کے فرائض میں داخل ہے۔
اب اس بات کا خیر مقدم ہی کیا جانا چاہیے کہ بالآخر حکومت کو بچوں کی اس طرح جانیں ضایع جانے کا خیال آ گیا ہے اور اس مقصد سے ایک چلڈرن پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جیسا کہ پتہ چلا ہے کہ یہ محکمہ سب سے پہلے تو ان وجوہات کی تحقیقات اور تعین کرے گا جن کے باعث بچوں کی اموات واقع ہوتی ہیں پھر ان کو ہی سامنے رکھتے ہوئے یہ ادارہ اپنی ایک جامع حکمت عملی طے کرے گا اور پالیسی وضع کرے گا اور اسی پالیسی کے تحت سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے ایک بڑی بھرپور مہم چلائی جائے گی۔ جس کے ذریعے عوام کو بچوں کی جانوں کی قدر و قیمت کا احساس دلایا جائے گا اور ماں باپ کو بچوں کے سلسلے میں ان کی ذمے داریاں یاد دلائی جائیں گی۔
قدرتی طور پر اس مہم میں پہلا ٹارگٹ مائیں بلکہ سیدھی سادی ناخواندہ مائیں ہوں گی چنانچہ اس ڈپارٹمنٹ کی ٹیمیں ایسی ماؤں سے رابطے کے لیے گھر گھر جائیں گی خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بچے پیدا کر کے گلیوں میں چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ماؤں کو تلقین کی جائے گی کہ وہ پیدائش کے بعد اپنے ننھے منے بچوں اور بچیوں کو مستقل اپنی نظر کے سامنے اور نگرانی میں رکھیں اور اس مقصد سے ایک روح سی اگر ان کے تن بدن میں حلول کر جائے جو انھیں بچوں کی بہبود کے بارے میں مستقل بے چین رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ایک اور طبقہ جس پر کام کیا جائے گا وہ ڈرائیوروں کا ہے جو اندرون و بیرون شہر شاہراہوں اور ہائی ویز پر گاڑیاں دوڑاتا ہے ایسے ڈرائیوروں کو خصوصی کورس کرایا جائے گا اور ایک خاص سطح کی تعلیم شعور اور تربیت سے بہرہ ور کرنے کے بعد ہی انھیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان کو احساس دلایا جائے گا کہ بہت سی قیمتی جانیں ان کے رحم و کرم پر ہیں خاص طور پر ان بچوں کی جن میں سے کچھ ان کی بسوں، ٹیکسیوں اور کاروں میں بیٹھے ہیں اور کچھ گھروں پر ان کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس بات کی بھی کوشش کی جائے گی کہ متعلقہ قانون میں تبدیلی لائی جائے اور اپنی وحشیانہ ڈرائیونگ سے مسافروں یا راہگیروں کو مارنے والے ڈرائیوروں پر بھی قتل کے مقدمے چلائے جائیں۔
چلڈرن پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اپنی مہم کے دوران خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سردی سے بچنے کے لیے گیس سلنڈرز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اپنے فنی ماہرین کے ذریعے وہاں کے گھروں میں نصب گیس نیٹ ورک کا سروے اور چیک اپ کروائے گا اور ایسے گھروں میں جہاں کہیں بھی بچے رہتے ہوں گے وہاں کے ناقص گیس سسٹم کی مرمت سرکاری خرچے پر کروائے گا تا کہ گیس لیکیج کے حادثے رونما نہ ہوں۔ وہاں رہنے والے والدین کو ایسے حادثوں سے بچانے کے لیے ضروری فنی مشورے بھی دیے جائیں گے۔
بچوں کی سلامتی کا شعبہ اس سلسلے میں نرسری اور پرائمری اسکولوں کے دوروں کا بھی ارادہ رکھتا ہے جہاں بچوں کو ان کی زندگیوں کی قدر و قیمت کا احساس دلایا جائے گا اور خاص طور پر سمجھدار بچوں کو تلقین کی جائے گی کہ وہ محض بڑوں پر انحصار نہ کریں اطراف کے لوگوں سے خبردار رہیں بلکہ ان کی حرکتوں اعمال و افعال پر نظر رکھیں جن کے ہاتھوں میں ان کی زندگیاں ہیں۔ اگر وہ محسوس کریں کہ کوئی شخص مثلاً ڈرائیور ان کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے تو وہ بے شک ایسے موقعوں پر شور مچا سکتے ہیں۔
بچے اپنی زندگیاں کیسے بچا سکتے ہیں اس موضوع پر بچوں کے لیے تربیتی ورکشاپس اور دیگر پروگرام بھی منعقد کیے جا سکتے ہیں۔
چلڈرن پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کو باقاعدہ قانون بنا کر اس بات کی بھی آزادی دی جائے گی کہ وہ جس بچے کو بھی اسکول اور گھر سے ہٹ کر کسی اور جگہ گلی محلے میں آوارہ گردی کرتے دیکھیں تو وہ اسے بلا وارنٹ اٹھا سکتے ہیں اور ماں باپ کو بعد میں اس کی اطلاع دے سکتے ہیں اگر بچوں کو بھکاری بنانے کے لیے اغوا کیا جا سکتا ہے تو انھیں کسی بہتر تعمیری مقصد کے لیے بھی عارضی طور پر غائب کیا جا سکتا ہے۔
لوٹ کے بات پھر بڑوں پر آ جاتی ہے جن کو بہرحال اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ جہاں چھوٹوں کی زندگیاں ان کے ہاتھوں میں ہیں یہ ان کے لیے زندگی کی سب سے بڑی ذمے داری بھی ہے جسے ان کو پورے عقل و شعور کے ساتھ اور ہوش و حواس میں رہتے ہوئے پورا کرنا ہے۔