کوسنا ہے تو خود کو کوسیئے نظام کو نہیں
قوموں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ ان کے افراد کا انفرادی کردار کیا کرتا ہے۔
KARACHI:
ہمارے ہاں آئے روز نامی گرامی ''دان۔ شور'' ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے نظام کو کوسنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں۔ نہ صرف ٹی وی چینلز پر موجود تجزیہ نگار بلکہ ہم میں سے تقریباََ سب ہی لوگ اس ملک اور اس کے نظام پر معترض دکھائی دیتے ہیں۔ ہر زبان سے یہی شکوہ سنائی دیتا ہے کہ اس ملک نے اور اس دھرتی نے مجھے دیا ہی کیا ہے؟ یہ باتیں اور اس طرح کے گرما گرم تبصرے سننے میں تو بڑا مزا آتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار میرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی یہ نامور تبصرہ نگار اور باقی لوگ اس ملک اور اس کے نظام کے بارے میں سچ کہتے ہیں؟ جب کبھی بھی اس سوال کا جواب تلاشنا چاہا تو علامہ اقبال کا یہ شعرعقل و شعور کی ویران حویلیوں میں گونجنے لگا۔
اور شعور کے دریچوں میں پڑی گرد کچھ دیر کیلئے صاف ہوتے ہی جواب سامنے آجاتا ہے کہ قوموں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ ان کے افراد کا انفرادی کردار کیا کرتا ہے اور اسی انفرادی کردار سے ہی معاشرے کے مجموعی کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر قوم کے افراد بالخصوص نوجوان محنتی، قابل اور پر عزم واقع ہوں تو قوم کا مستقبل تابناک اور اگر مایوس، نکمے اور غافل تو تاریکی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ ملت کی خرابی کی وجہ در حقیقت افراد کی خرابی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں افراد ملت کو قصور وار گردانتے ہیں۔
آج ایک بھٹہ مزدور سے لے کر ارب پتی صنعتکار تک اس دھرتی کو کوسنے میں لگا رہتا ہے۔ اسکول کے چپڑاسی سے لے کر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تک ہر فرد اس ملک کے نظامِ تعلیم کو فضول قرار دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ ایک ڈسپنسر سے لے کر میڈیکل کالج کے پرنسپل تک ہر ڈاکٹر اس ملک کے شعبہ صحت کو ناکام محکمہ تصور کرتا نظر آتا ہے۔ کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پولیس تک ہر سپاہی اس ملک کے امن و امان پر تنقید کے نشتر چلاتا نظر آتا ہے۔ ایک اکاؤٹنٹ سے لیکر اسٹیٹ بینک کے گورنر تک ہر بینکر اس ملک کے معاشی نظام سے نالاں رہتا ہے اور آٹھویں جماعت کے بچے سے لیکر پی ایچ ڈی اسکالر تک ہر طالبعلم اس ملک میں سائنسی و علمی تحقیق کے فقدان پر شکوہ کناں دکھائی دیتا ہے۔ الغرض مجھ سمیت تقریباََ ہر شخص بس اس ملک اور اس کے نظام کو دوش دینے میں مگن ہے۔
ان سب لوگوں کے شکوے کسی حد تک بجا بھی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض شکایتیں کرنے اور پاکستان کو بُرا بھلا کہنے کے سوا ہم نے ان شکایتوں کے ازالے کیلئے کیا کردار ادا کیا ہے؟ ہم میں سے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر ملک اور اس کے نظام پر تنقید تو کرتا ہے لیکن یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی اسی نظام کا ہی ایک جزو ہے۔ ہم لوگ نظام کے باقی حصوں کا احتساب اور ان کی کارکردگی میں قابلِ ستائش بہتری کے طلب گار تو ہیں لیکن اپنے کردار کے احتساب اور اس میں بہتری کی زحمت کرنا کسی کو گوارا نہیں۔
حالت تو یہ ہے کہ سرکاری اسپتال میں ڈیوٹی کے اوقات میں جو ڈاکٹر اپنا نجی کلینک چلاتا ہے وہی ڈاکٹر ملک میں کرپشن کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ جو انجنیئر چند لاکھ روپے لے کر بلڈنگ کا غیر معیاری نقشہ منظور کر رہا ہوتا ہے وہی ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر تبصرے کرتا نظر آتا ہے۔ جو استاد سارا دن اسکول میں بیٹھا گپیں لگاتا رہتا ہے وہی استاد ملک کے بگڑتے ہوئے تعلیمی معیار پر حکومت کو گالیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔ جو جج رشوت لے کر با اثر ملزموں کے حق میں فیصلے سناتا ہے۔ وہی اس ملک کے نظامِ عدل پرعدمِ اعتماد کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔ دودھ میں گندا پانی ملا کر بیچنے والا گوالا بھی حکمرانوں کی کرپشن پر سراپہ احتجاج بنا پھرتا ہے۔ جعلی ادویات بنانے والا بچوں کا قاتل بھی ملک میں ظلم و ستم کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ آئینے میں اپنی مکروہ شکل دیکھنے کے بجائے ہم دوسروں پر تنقید کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔
آج پاکستان کے مخدوش حالات پر تنقید کرنے اور اِس ملک کو چھوڑ دینے کی باتیں کرنے سے پہلے کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کرنے کی زحمت کی کہ آج تک ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ کیا ہم نے اس دھرتی سے کیا جانے والا عہد نبھایا؟ ہر طرف کانٹوں کا ذکر کرنے سے پہلے کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم نے اس وطن کی راہ میں کتنے گلاب کِھلائے ہیں؟ میں نے یا آپ نے کبھی خود پر عائد ذمہ داریوں کی بجا آوری کی فکر کی؟ نہیں! ہم نے کبھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی فکر نہیں کی۔ ہم نے ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرنا آسان جانا۔ کیونکہ دوسروں پر تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین اور اپنا احتساب کرنا شاید دشوار ترین کام ہے۔ آج تقریر کے کسی بھی اسٹیج پر کھڑے ہو کر مجھے سب سے آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا معلوم ہوتا ہے اور یقیناََ میرے بارے میں دوسروں کی بھی یہی کیفیت ہوگی۔
آپ میں سے شاید کوئی بھی میری اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ اگر ہم ان سولات پر اپنا احتساب کرلیں تو ہمارے پاس اپنے وطن اور زمانے سے شکووں کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لیکن، لیکن ہمارے لیے ایسا کرنا انتہائی دشوار مرحلہ ثابت ہوگا۔ کیوںکہ ہم بس کسی میز کے گرد بیٹھ کر یا کسی ٹی وی چینل کے اے سی روم میں بیٹھ کر تبصرے کرنے اور دوسروں پر تنقید کرنے میں ماہر ہیں۔ خود احتسابی ہمیں گوارا ہی نہیں۔ یاد رکھیئے جب تک ہم خود احتسابی کے کٹھن مرحلے سے گزر کر اپنے ذاتی کردار اور خود پرعائد معاشرتی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا نہیں کرتے تب تک حالات میں بہتری کی امید لگانا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں! کیونکہ جیسے ہمارے افراد ہوں گے ویسی ہماری قوم ہوگی اور جیسی ہماری قوم ہوگی ویسے ہی ہمارا نظام ہوگا۔ تو پھر اگر کوسنا ہے تو خود کو کوسیئے نظام کو نہیں۔
[poll id="872"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ہمارے ہاں آئے روز نامی گرامی ''دان۔ شور'' ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے نظام کو کوسنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں۔ نہ صرف ٹی وی چینلز پر موجود تجزیہ نگار بلکہ ہم میں سے تقریباََ سب ہی لوگ اس ملک اور اس کے نظام پر معترض دکھائی دیتے ہیں۔ ہر زبان سے یہی شکوہ سنائی دیتا ہے کہ اس ملک نے اور اس دھرتی نے مجھے دیا ہی کیا ہے؟ یہ باتیں اور اس طرح کے گرما گرم تبصرے سننے میں تو بڑا مزا آتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار میرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی یہ نامور تبصرہ نگار اور باقی لوگ اس ملک اور اس کے نظام کے بارے میں سچ کہتے ہیں؟ جب کبھی بھی اس سوال کا جواب تلاشنا چاہا تو علامہ اقبال کا یہ شعرعقل و شعور کی ویران حویلیوں میں گونجنے لگا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدرکا ستارہ
اور شعور کے دریچوں میں پڑی گرد کچھ دیر کیلئے صاف ہوتے ہی جواب سامنے آجاتا ہے کہ قوموں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ ان کے افراد کا انفرادی کردار کیا کرتا ہے اور اسی انفرادی کردار سے ہی معاشرے کے مجموعی کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر قوم کے افراد بالخصوص نوجوان محنتی، قابل اور پر عزم واقع ہوں تو قوم کا مستقبل تابناک اور اگر مایوس، نکمے اور غافل تو تاریکی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ ملت کی خرابی کی وجہ در حقیقت افراد کی خرابی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں افراد ملت کو قصور وار گردانتے ہیں۔
آج ایک بھٹہ مزدور سے لے کر ارب پتی صنعتکار تک اس دھرتی کو کوسنے میں لگا رہتا ہے۔ اسکول کے چپڑاسی سے لے کر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تک ہر فرد اس ملک کے نظامِ تعلیم کو فضول قرار دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ ایک ڈسپنسر سے لے کر میڈیکل کالج کے پرنسپل تک ہر ڈاکٹر اس ملک کے شعبہ صحت کو ناکام محکمہ تصور کرتا نظر آتا ہے۔ کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پولیس تک ہر سپاہی اس ملک کے امن و امان پر تنقید کے نشتر چلاتا نظر آتا ہے۔ ایک اکاؤٹنٹ سے لیکر اسٹیٹ بینک کے گورنر تک ہر بینکر اس ملک کے معاشی نظام سے نالاں رہتا ہے اور آٹھویں جماعت کے بچے سے لیکر پی ایچ ڈی اسکالر تک ہر طالبعلم اس ملک میں سائنسی و علمی تحقیق کے فقدان پر شکوہ کناں دکھائی دیتا ہے۔ الغرض مجھ سمیت تقریباََ ہر شخص بس اس ملک اور اس کے نظام کو دوش دینے میں مگن ہے۔
ان سب لوگوں کے شکوے کسی حد تک بجا بھی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض شکایتیں کرنے اور پاکستان کو بُرا بھلا کہنے کے سوا ہم نے ان شکایتوں کے ازالے کیلئے کیا کردار ادا کیا ہے؟ ہم میں سے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر ملک اور اس کے نظام پر تنقید تو کرتا ہے لیکن یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی اسی نظام کا ہی ایک جزو ہے۔ ہم لوگ نظام کے باقی حصوں کا احتساب اور ان کی کارکردگی میں قابلِ ستائش بہتری کے طلب گار تو ہیں لیکن اپنے کردار کے احتساب اور اس میں بہتری کی زحمت کرنا کسی کو گوارا نہیں۔
حالت تو یہ ہے کہ سرکاری اسپتال میں ڈیوٹی کے اوقات میں جو ڈاکٹر اپنا نجی کلینک چلاتا ہے وہی ڈاکٹر ملک میں کرپشن کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ جو انجنیئر چند لاکھ روپے لے کر بلڈنگ کا غیر معیاری نقشہ منظور کر رہا ہوتا ہے وہی ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر تبصرے کرتا نظر آتا ہے۔ جو استاد سارا دن اسکول میں بیٹھا گپیں لگاتا رہتا ہے وہی استاد ملک کے بگڑتے ہوئے تعلیمی معیار پر حکومت کو گالیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔ جو جج رشوت لے کر با اثر ملزموں کے حق میں فیصلے سناتا ہے۔ وہی اس ملک کے نظامِ عدل پرعدمِ اعتماد کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔ دودھ میں گندا پانی ملا کر بیچنے والا گوالا بھی حکمرانوں کی کرپشن پر سراپہ احتجاج بنا پھرتا ہے۔ جعلی ادویات بنانے والا بچوں کا قاتل بھی ملک میں ظلم و ستم کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ آئینے میں اپنی مکروہ شکل دیکھنے کے بجائے ہم دوسروں پر تنقید کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔
آج پاکستان کے مخدوش حالات پر تنقید کرنے اور اِس ملک کو چھوڑ دینے کی باتیں کرنے سے پہلے کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کرنے کی زحمت کی کہ آج تک ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ کیا ہم نے اس دھرتی سے کیا جانے والا عہد نبھایا؟ ہر طرف کانٹوں کا ذکر کرنے سے پہلے کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم نے اس وطن کی راہ میں کتنے گلاب کِھلائے ہیں؟ میں نے یا آپ نے کبھی خود پر عائد ذمہ داریوں کی بجا آوری کی فکر کی؟ نہیں! ہم نے کبھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی فکر نہیں کی۔ ہم نے ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرنا آسان جانا۔ کیونکہ دوسروں پر تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین اور اپنا احتساب کرنا شاید دشوار ترین کام ہے۔ آج تقریر کے کسی بھی اسٹیج پر کھڑے ہو کر مجھے سب سے آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا معلوم ہوتا ہے اور یقیناََ میرے بارے میں دوسروں کی بھی یہی کیفیت ہوگی۔
آپ میں سے شاید کوئی بھی میری اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ اگر ہم ان سولات پر اپنا احتساب کرلیں تو ہمارے پاس اپنے وطن اور زمانے سے شکووں کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لیکن، لیکن ہمارے لیے ایسا کرنا انتہائی دشوار مرحلہ ثابت ہوگا۔ کیوںکہ ہم بس کسی میز کے گرد بیٹھ کر یا کسی ٹی وی چینل کے اے سی روم میں بیٹھ کر تبصرے کرنے اور دوسروں پر تنقید کرنے میں ماہر ہیں۔ خود احتسابی ہمیں گوارا ہی نہیں۔ یاد رکھیئے جب تک ہم خود احتسابی کے کٹھن مرحلے سے گزر کر اپنے ذاتی کردار اور خود پرعائد معاشرتی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا نہیں کرتے تب تک حالات میں بہتری کی امید لگانا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں! کیونکہ جیسے ہمارے افراد ہوں گے ویسی ہماری قوم ہوگی اور جیسی ہماری قوم ہوگی ویسے ہی ہمارا نظام ہوگا۔ تو پھر اگر کوسنا ہے تو خود کو کوسیئے نظام کو نہیں۔
[poll id="872"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔