داعش کا ابھرنا… ایک نیا ریاستی چیلنج

مسلم دنیا کو اگر ہم آج دیکھیں تو اس میں ہمیں بحران اور تنازعات کی سیاست نمایاں نظر آتی ہے


سلمان عابد January 07, 2016
[email protected]

پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی محض ایک انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے سیاسی سماجی، معاشی اور مذہبی محرکات بھی ہیں۔ ہمارے اہل دانش معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے یا تجزیہ کرتے ہوئے بہت سے امور اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو محض سیاسی حوالے سے دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک پوری فکر غالب رہی ہے کہ ہمیں حقایق پر پردہ ڈال کر سنگین اور حساس نوعیت کے معاملات پر ''نظریہ ضرورت'' کے تحت خاموشی اختیارکرنی چاہیے۔ داعش کا ابھرنا اور یہ معاملہ بھی کچھ ایسی ہی نوعیت کا ہے۔ اگر اب تسلیم کیا جا رہا ہے کہ واقعی داعش کا پاکستان میں ابھرنا ایک نیا ریاستی چیلنج ہے تو ماضی میں اس خطرے سے بلاوجہ انکار کر کے ہم خود اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دینے کے کھیل کا حصہ بنے رہے ہیں۔

مسلم دنیا کو اگر ہم آج دیکھیں تو اس میں ہمیں بحران اور تنازعات کی سیاست نمایاں نظر آتی ہے۔ مسلم دنیا میں دو مسائل ہمیشہ سے غالب رہے۔ اول حکمرانوں اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور دوئم امریکا سمیت عالمی طاقتوں کی مسلم دشمنی پر مبنی سیاست یا اقدامات کو فوقیت حاصل رہی ہے ۔

9/11 کے بعد انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکا کی سربراہی میں جو عالمی اتحاد قائم ہوا پاکستان بھی اس کا حصہ بنا۔ پہلے افغان طالبان ،القائدہ، تحریک طالبان پاکستان اور اب ''داعش'' کی تنظیم عالمی دنیا کے لیے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ کچھ دن قبل جنرل راحیل شریف نے قوم کو یہ عندیہ دیا کہ سال 2016ء پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کا سال ہو گا لیکن یہ جو نیا فساد ہمیں داعش کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا علاج کیا ہو گا۔

القائدہ اور داعش میں ایک بنیادی فرق بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ القائدہ کا نشانہ براہ راست امریکا تھا جب کہ داعش نے جہاں امریکا کو چیلنج کیا ہے وہیں اس کا اصل نشانہ خود مسلم دنیا بنی ہوئی ہے۔

داعش نے عراق اور شام میں اپنی خلافت کا اعلان کر کے خود ساختہ نئے نظام کی بنیاد ڈال دی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت دنیا بھر سے لوگوں کو داعش میں شامل کیا جا رہا ہے۔ خود پنجاب کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اعتراف کر چکے ہیں کہ 100 سے زیادہ افراد کو محض پنجاب سے داعش اور اس کی سرگرمیوں کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا کی عراق اور شام میں بلاجواز مداخلت نے داعش جیسی تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا جواز فراہم کیا۔ خود سعودی عرب کی داخلہ اور خارجہ پالیسی نے بھی اس داعش کی نئی قوت کو طاقت دی ہے۔

پاکستان میں بہت سے لوگ جب داعش کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہیں تو اسے ایک محدود فرقہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں داعش اپنے محدود نظریاتی لوگوں کے باعث کبھی کوئی بڑا خطرہ نہیں بن سکے گی۔

ممکن ہے کہ علمی بنیادوں پر اس بات میں وزن ہو لیکن انتظامی اور سیاسی بنیادوں پر مسئلہ محض ایک فرقہ یا فکر کا نہیں۔ مسئلہ مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا ہے جو بہت تیزی سے پھیلی ہے۔ اس انتہاپسندی اور شدت پسندی کی فکر اختیار کرنے والوں کی اصل طاقت دنیا بھر میں موجود مروجہ سیاسی جمہوری نظام اور حکمران طبقے کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ گروہ سمجھتا ہے کہ جو دنیا میں اس وقت نظام رائج ہے وہ طاغوتی طاقتوں اور مسلم دشمنی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ طبقہ براہ راست مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی چیلنج کرتا ہے جو بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن کر مسلم دنیا اور عوام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ داعش کیا ہے یہ تنظیم کیسے وجود میں آئی کب اور کہاں اس کی تشکیل ہوئی۔ یہ کیسے عراق اور شام میں اپنی حیثیت منوا رہی ہے۔ اس پر ہر طبقہ فکر کی اپنی رائے، سوچ اور خیال ہے۔ اس سوچ اور خیال سے اتفاق کرنے والے بھی موجود ہیں اور عدم اتفاق کرنے والے بھی لیکن یہاں مقصد اس گہرائی میں جانا نہیں بلکہ پاکستان کے تناظر میں جو داعش کے خطرہ کو پیش کیا جارہا ہے ۔

اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ جب کوئی بھی عالمی گروہ اپنی فکر کو قانون کے دائر ے کار میں نافذ کرنے کے بجائے اس میں طاقت اور مسلح جدوجہد کو اپنی طاقت بناتا ہے تو خرابی کا آغاز بھی اسی نقطہ سے ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ طالبان کی فکر سے متاثر ہوئے ان کا بھی خیال تھا کہ ہمیں جو نیا نظام لانا ہے وہ موجودہ مروجہ طور طریقوں سے ممکن نہیں، یہ عمل مسلح جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ طالبان کا ظہور بھی افغانستان سے ہوا تھا، اس کے بعد اس نے پاکستان میں اپنی جڑیں بنائیں ۔

اس لیے آج اگر داعش کی طاقت کا مرکز عراق یا شام ہے تو کوئی بعید نہیں اس کی حمایت کرنے والوں کا اثر و نفوذ پاکستان میں بھی بڑھ جائے کیونکہ جو لوگ بھی مسلح جدوجہد کو اپنی طاقت بناتے ہیں ان کو کوئی تو ایسا گروہ درکار ہے جس کی مدد کے ساتھ وہ اپنے ایجنڈے کو تقویت دے سکیں۔ اس لیے ہمیں پاکستان کے تناظر میں آنکھیں بند کرکے یا خوابوں کی دنیا میں رہنے کے بجائے کچھ تلخ حقایق کو قبول کرکے مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے ۔یقیناً پاکستان میں داعش کا مسئلہ ابھی ابتدائی نوعیت کا ہو گا لیکن آج کی سوشل میڈیا اور ابلاغ کی طاقت نے بہت سے معاملات میں بہت تیزی پیدا کردی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمیں داعش جیسی تنظیموں پر گفتگو, ان کے ویڈیو کلپس سمیت نظریاتی فکر غالب نظر آتی ہے۔ایک بنیادی نقطہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی وہیں پروان چڑھتی ہے جہاںاس کے محرکات موجود ہوں گے۔ اس تناظر میں دو سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول پاکستان کے داخلی محاذ پر ہماری ریاست اور حکومت کو اپنے نظام حکمرانی کا قبلہ درست کرنا ہوگا کیونکہ لوگوں میں جو محرومی، غصہ اور نفرت کی سیاست ہے اس کا خاتمہ جمہوری سیاست میں کارکردگی کی بنیاد پر تلاش کرنا ہوگا۔ یہ جو لوگوں میں ہمارے جمہوری نظام کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں ۔

اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنے کی پالیسی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ ہمارا بالادست طبقہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ انتظامی طاقت سے حل ہوجائے گا، یہ کارگر حکمت عملی نہیں ہوگی ۔

محض جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت سماجی اور معاشی انصاف کے نعرے لگا کر اس انتہا پسندی سے نہیں بچا جا سکے گا۔یہ سمجھنا ہوگا کہ کیوں محرومی اور نفرت کی سیاست بغاوت کی صورت میں سامنے آتی ہے اور یہ انتہا پسند عناصر یا دہشت گردوں کا موثر ہتھیار ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی جذباتی کیفیت کو اجاگر کرکے ان کو باور کروائیں کہ ان کا اصل دشمن ان کی اپنی ریاست اور حکمران طبقہ ہے۔ اتنہا پسندی کا خاتمہ وہیں ممکن ہوگا جہاں ریاست اور حکومت ذمے داری سے اپنا فرض ادا کرے۔ سمجھنا ہوگا جو طرز حکمرانی، قانون اور انصاف کا نظام ہم چلارہے ہیں وہ لوگوں کو ساتھ رکھنے یا جوڑنے کے بجائے ان میں تقسیم اور بغاوت کو پیدا کرتا ہے۔

دوئم عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کو اپنی سیاسی پالیسیوں میں اس بنیادی نقطہ پر توجہ دینی ہوگی کہ لوگ کیونکر یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکا اور عالمی طاقتیں مسلم دشمنی کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ یہ تاثر دینا ہوگا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کسی بھی صورت میں بلاوجہ مسلمانوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے ۔ کیونکہ مسلم دنیا میں ردعمل کی سیاست غالب ہوتی ہے اور جو کچھ بڑی طاقتیں اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے تحت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس کا ردعمل موجود ہے اور اس کا فائدہ داعش اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔

اس لیے پاکستان کو جہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عسکری اور انتظامی طاقت کی مدد سے یہ جنگ جیتنی ہے وہیں ہمیں فکری بنیادوں پر ریاست اور معاشرے کا بیانیہ بھی تبدیل کرنا ہے۔ مسلح جدوجہد اور طاقت کی بنیاد پر اپنی فکر کو دوسروں پر مسلط کرنے اور پرتشدد راستہ اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی ہر سطح پر کی جانی چاہیے۔ ریاست کا بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ یہ کام سیاسی جماعتوں کی قیادت، دانشور طبقے، علمائے کرام، میڈیا، تعلیمیاداروں اور مدارس کے لوگوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، لیکن کیا اس کے لیے ہم واقعی تیار ہیں اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں