الیکٹرانک میڈیا اور اس کی ترجیحات
پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے محکمہ انفارمیشن کی طرف سے پریس ایڈوائس کا سسٹم نافذ تھا
SWAT:
نیوز اور ویوز کی عوام تک رسائی میڈیا کی بنیادی ذمے داری ہے جب تک ہمارے ملک میں میڈیا حکومتوں کے کنٹرول میں تھا عوام تک صرف حکمرانوں کی نیوز حکمرانوں کی ویوز ہی پہنچتی تھیں اور یہ سلسلہ جمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہا اورغیر جمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہا۔
پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے محکمہ انفارمیشن کی طرف سے پریس ایڈوائس کا سسٹم نافذ تھا جس کی سربراہی یا نگرانی وزیر اطلاعات کی ذمے داری تھی الیکٹرانک میڈیا چونکہ سرکاری ٹی وی پر ہی منحصر تھا سو عوام تک اس یک طرفہ ٹریفک کے ذریعے سرکاری نیوز اور سرکار کی ویوز ہی پہنچتی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے اس حوالے سے سابقہ تمام روایتوں کو توڑتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کو سرکاری تحویل سے نکال کر چینلوں کے لیے لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کو ویوز کی بھی مکمل آزادی دے دی اس پالیسی کے نتیجے میں چینلوں کی بھرمار ہوگئی اور ٹاک شوز چینلوں میں ویوز کی نمایندگی کرنے لگے۔ میڈیا کی اس آزادی کی وجہ الیکٹرانک میڈیا کی گھر گھر تک رسائی آسان ہوگئی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے ناخواندہ اور سیاست سے نابلد لوگ بھی نہ صرف ملکی سیاست کو سمجھنے لگے بلکہ میڈیا عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا وسیلہ بن گیا۔ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اس قدر طاقتور بن گیا کہ حکمران اس سے خوفزدہ رہنے لگے۔
میڈیا آزاد بھی ہوا اور گھر گھر تک اس کی رسائی بھی ممکن ہوگئی لیکن سیاست کے حوالے سے میڈیا کے ٹاک شوز سیاستدانوں کی لڑائیوں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر الزامات جوابی الزامات کے ساتھ ساتھ سیاسی گندگی دھونے کے دھوبی گھاٹ بن کر رہ گئے، پرانے اور بددیانت سیاستدانوں کی الزام تراشیاں اور جوابی الزام تراشیاں الیکٹرانک میڈیا کی کارکردگی کا محور بن گئیں اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ عوام کو سیاست کی گندگی اور سیاستدانوں کی ''اعلیٰ کارکردگی'' سے واقفیت حاصل ہوگئی۔
اب اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ عوام سیاستدانوں کی ناقص اور بد دیانتانہ سرگرمیوں سے واقف بھی ہو رہے ہیں اور متنفر بھی ہو رہے ہیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا حکمرانوں اور اپوزیشن کی کوتاہیوں کو دھڑلے سے منظر عام پر لانے لگا۔ لیکن میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا بے ایمانی کا متبادل ایمانداری کو آگے لانے سے بوجوہ قاصر رہا ۔بلاشبہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام سیاست جاریہ سے متنفر بھی ہیں اور بیزار بھی۔
وہ اس گندگی اور سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی سیاست کا ایک بہتر متبادل چاہتے ہیں اور بہتر متبادل چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں موجود ہے لیکن ہمارے میڈیا کی اس طرف نظر نہیں جاتی ہمارا میڈیا ملالہ، ایان علی کو تو عوام میں بھرپور طریقے سے متعارف کرا رہا ہے لیکن اس ملک کے مخلص ایماندار اور اہل لوگوں کو ہمارا میڈیا گوشہ گمنامی سے باہر نہیں نکال سکا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ذرے کو دیکھتے دیکھتے آفتاب بنا دیتا ہے لیکن ہمارے ملک میں جو آفتاب 68 سالوں سے ذرے بنے ہوئے ہیں انھیں میڈیا عوام میں متعارف نہ کراسکا۔
ہماری سیاست 68 سالوں سے اس طرح اشرافیہ کی گرفت میں ہے کہ عوام اس کے ایک بہتر اور منطقی متبادل سے محروم ہیں ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ ہے، کسان ہماری دیہی اور زرعی معیشت سے جڑی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہیں ان کے علاوہ مختلف پیشوں سے منسلک طبقات کروڑوں کی تعداد میں ہیں اس 90-80 فیصد آبادی میں ایسے ہزاروں ایماندار، مخلص، اہل لوگ موجود ہیں جو ملکی گندی سیاست کا متبادل بن سکتے ہیں ہمارے ملک میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن کی قیادت اہل اور ایماندار لوگوں پر مشتمل ہے میں ذاتی طور پر بہت سارے ایماندار اہل اور مخلص سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو وسائل کی کمی اور میڈیا کی غفلت سے گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں اگر میڈیا توجہ دے تو یہ گوہر نایاب سیاست میں انقلاب لاسکتے ہیں۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اشرافیائی سیاست کے کرداروں کو عوام کے سامنے جرأت کے ساتھ بے نقاب کر رہا ہے اور عوام ان بددیانت سیاستدانوں سے نجات بھی چاہتے ہیں لیکن جب تک ان کے بہتر متبادل عوام کے سامنے نہیں لائے جائیں گے ہماری سیاست میں ایک خلا باقی رہے گا۔ ہماری نفسیات کا عالم یہ ہے کہ ہم بہتر متبادل بھی اسی بدتر اشرافیہ ہی میں تلاش کرتے ہیں جب کہ ہمارے ملک کے چار کروڑ سے زیادہ مزدوروں کی قیادت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایماندار بھی ہیں مخلص بھی ہیں اور اہل بھی، اسی طرح کسانوں، ہاریوں کی تنظیموں میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو قومی اور بین الاقوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور انھیں حل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ ہماری وکلا برادری میں بے شمار ایماندار مخلص اور عوام کا درد رکھنے والے موجود ہیں۔
کیا ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے انھیں ڈھونڈنے انھیں منظر عام پر لانے کی کوشش کی؟ ہماری ڈاکٹر برادری میں بے شمار ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جو قوم کی رہنمائی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کیا ہمارا میڈیا انھیں عوام میں متعارف کراسکا؟ ہمارے صحافیوں میں ایسے بے شمار صحافی موجود ہیں جو ہماری بددیانت اشرافیہ کا ایک بہتر متبادل بن سکتے ہیں کیا ہمارا میڈیا ان سے واقف نہیں؟ ہمارے ادیبوں شاعروں دانشوروں میں سیکڑوں اہل اور ایماندار لوگ موجود ہیں جو گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں کیا ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا کوئی راستہ میڈیا نے ڈھونڈنے کی کوشش کی؟
بلاشبہ یہ سارے لوگ غیر سیاسی ہیں اور ملک کو چلانے کی ذمے داری سیاستدانوں کی ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سیاستدانوں کو اشرافیہ اور سیاسی خاندانوں ہی میں تلاش کرتے ہیں کسی بھی طبقے کسی بھی پیشے سے منسلک لوگوں پر سیاست میں آنے کی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہماری نفسیات کا عالم یہ ہے کہ ہم سیاست کی کچرہ کنڈیوں ہی میں سیاستدانوں کو تلاش کرتے ہیں جب کہ 20 کروڑ کی آبادی میں ہزاروں ہیرے چھپے ہوئے ہیں۔
نیوز اور ویوز کی عوام تک رسائی میڈیا کی بنیادی ذمے داری ہے جب تک ہمارے ملک میں میڈیا حکومتوں کے کنٹرول میں تھا عوام تک صرف حکمرانوں کی نیوز حکمرانوں کی ویوز ہی پہنچتی تھیں اور یہ سلسلہ جمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہا اورغیر جمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی جاری رہا۔
پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے محکمہ انفارمیشن کی طرف سے پریس ایڈوائس کا سسٹم نافذ تھا جس کی سربراہی یا نگرانی وزیر اطلاعات کی ذمے داری تھی الیکٹرانک میڈیا چونکہ سرکاری ٹی وی پر ہی منحصر تھا سو عوام تک اس یک طرفہ ٹریفک کے ذریعے سرکاری نیوز اور سرکار کی ویوز ہی پہنچتی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے اس حوالے سے سابقہ تمام روایتوں کو توڑتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کو سرکاری تحویل سے نکال کر چینلوں کے لیے لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کو ویوز کی بھی مکمل آزادی دے دی اس پالیسی کے نتیجے میں چینلوں کی بھرمار ہوگئی اور ٹاک شوز چینلوں میں ویوز کی نمایندگی کرنے لگے۔ میڈیا کی اس آزادی کی وجہ الیکٹرانک میڈیا کی گھر گھر تک رسائی آسان ہوگئی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے ناخواندہ اور سیاست سے نابلد لوگ بھی نہ صرف ملکی سیاست کو سمجھنے لگے بلکہ میڈیا عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا وسیلہ بن گیا۔ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اس قدر طاقتور بن گیا کہ حکمران اس سے خوفزدہ رہنے لگے۔
میڈیا آزاد بھی ہوا اور گھر گھر تک اس کی رسائی بھی ممکن ہوگئی لیکن سیاست کے حوالے سے میڈیا کے ٹاک شوز سیاستدانوں کی لڑائیوں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر الزامات جوابی الزامات کے ساتھ ساتھ سیاسی گندگی دھونے کے دھوبی گھاٹ بن کر رہ گئے، پرانے اور بددیانت سیاستدانوں کی الزام تراشیاں اور جوابی الزام تراشیاں الیکٹرانک میڈیا کی کارکردگی کا محور بن گئیں اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ عوام کو سیاست کی گندگی اور سیاستدانوں کی ''اعلیٰ کارکردگی'' سے واقفیت حاصل ہوگئی۔
اب اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ عوام سیاستدانوں کی ناقص اور بد دیانتانہ سرگرمیوں سے واقف بھی ہو رہے ہیں اور متنفر بھی ہو رہے ہیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا حکمرانوں اور اپوزیشن کی کوتاہیوں کو دھڑلے سے منظر عام پر لانے لگا۔ لیکن میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا بے ایمانی کا متبادل ایمانداری کو آگے لانے سے بوجوہ قاصر رہا ۔بلاشبہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام سیاست جاریہ سے متنفر بھی ہیں اور بیزار بھی۔
وہ اس گندگی اور سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی سیاست کا ایک بہتر متبادل چاہتے ہیں اور بہتر متبادل چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں موجود ہے لیکن ہمارے میڈیا کی اس طرف نظر نہیں جاتی ہمارا میڈیا ملالہ، ایان علی کو تو عوام میں بھرپور طریقے سے متعارف کرا رہا ہے لیکن اس ملک کے مخلص ایماندار اور اہل لوگوں کو ہمارا میڈیا گوشہ گمنامی سے باہر نہیں نکال سکا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ذرے کو دیکھتے دیکھتے آفتاب بنا دیتا ہے لیکن ہمارے ملک میں جو آفتاب 68 سالوں سے ذرے بنے ہوئے ہیں انھیں میڈیا عوام میں متعارف نہ کراسکا۔
ہماری سیاست 68 سالوں سے اس طرح اشرافیہ کی گرفت میں ہے کہ عوام اس کے ایک بہتر اور منطقی متبادل سے محروم ہیں ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ ہے، کسان ہماری دیہی اور زرعی معیشت سے جڑی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہیں ان کے علاوہ مختلف پیشوں سے منسلک طبقات کروڑوں کی تعداد میں ہیں اس 90-80 فیصد آبادی میں ایسے ہزاروں ایماندار، مخلص، اہل لوگ موجود ہیں جو ملکی گندی سیاست کا متبادل بن سکتے ہیں ہمارے ملک میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن کی قیادت اہل اور ایماندار لوگوں پر مشتمل ہے میں ذاتی طور پر بہت سارے ایماندار اہل اور مخلص سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو وسائل کی کمی اور میڈیا کی غفلت سے گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں اگر میڈیا توجہ دے تو یہ گوہر نایاب سیاست میں انقلاب لاسکتے ہیں۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اشرافیائی سیاست کے کرداروں کو عوام کے سامنے جرأت کے ساتھ بے نقاب کر رہا ہے اور عوام ان بددیانت سیاستدانوں سے نجات بھی چاہتے ہیں لیکن جب تک ان کے بہتر متبادل عوام کے سامنے نہیں لائے جائیں گے ہماری سیاست میں ایک خلا باقی رہے گا۔ ہماری نفسیات کا عالم یہ ہے کہ ہم بہتر متبادل بھی اسی بدتر اشرافیہ ہی میں تلاش کرتے ہیں جب کہ ہمارے ملک کے چار کروڑ سے زیادہ مزدوروں کی قیادت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایماندار بھی ہیں مخلص بھی ہیں اور اہل بھی، اسی طرح کسانوں، ہاریوں کی تنظیموں میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو قومی اور بین الاقوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور انھیں حل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ ہماری وکلا برادری میں بے شمار ایماندار مخلص اور عوام کا درد رکھنے والے موجود ہیں۔
کیا ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے انھیں ڈھونڈنے انھیں منظر عام پر لانے کی کوشش کی؟ ہماری ڈاکٹر برادری میں بے شمار ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جو قوم کی رہنمائی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کیا ہمارا میڈیا انھیں عوام میں متعارف کراسکا؟ ہمارے صحافیوں میں ایسے بے شمار صحافی موجود ہیں جو ہماری بددیانت اشرافیہ کا ایک بہتر متبادل بن سکتے ہیں کیا ہمارا میڈیا ان سے واقف نہیں؟ ہمارے ادیبوں شاعروں دانشوروں میں سیکڑوں اہل اور ایماندار لوگ موجود ہیں جو گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں کیا ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا کوئی راستہ میڈیا نے ڈھونڈنے کی کوشش کی؟
بلاشبہ یہ سارے لوگ غیر سیاسی ہیں اور ملک کو چلانے کی ذمے داری سیاستدانوں کی ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سیاستدانوں کو اشرافیہ اور سیاسی خاندانوں ہی میں تلاش کرتے ہیں کسی بھی طبقے کسی بھی پیشے سے منسلک لوگوں پر سیاست میں آنے کی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہماری نفسیات کا عالم یہ ہے کہ ہم سیاست کی کچرہ کنڈیوں ہی میں سیاستدانوں کو تلاش کرتے ہیں جب کہ 20 کروڑ کی آبادی میں ہزاروں ہیرے چھپے ہوئے ہیں۔