وجدانی سوچ کا اثر
انسان کے اندر کی روشنی یا آواز جو اسے صحیح راستہ سجھانے کی کوشش کرتی ہے
PARIS:
انسان کے اندر کی روشنی یا آواز جو اسے صحیح راستہ سجھانے کی کوشش کرتی ہے، intuition (وجدان) کہلاتی ہے۔ یہ ایک ایسا فکر انگیز محور ہے، جو زندگی بھر سچائی اور حقیقت کے قریب تر ہے۔
مگر انسان ہمیشہ سچائی اور حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے زندگی کے پر فریب راستوں پر چلنا زیادہ پرکشش لگتا ہے۔ گمان میں ایک عجیب سحر ہے۔ اس لیے جھوٹ واہموں اور قیاس آرائیوں کی طرف جلدی مائل ہو جاتا ہے۔گمان مکڑی کے جالے جیسا ہے۔
Intuition یا وجدان گمان کے سارے فرضی بت گرا دیتا ہے۔ یہ لاطینی لفظ Intucri سے تشکیل پایا ہے۔ جس کا مطلب دیکھنا اور غور کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں روح سے دیکھنے کے عمل کو وجدان کہتے ہیں۔
یہ ایک طلسماتی لفظ ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ کبھی انسان اندر کی آواز سنتا ہے تو کبھی نظر انداز کر دیتا ہے، لیکن جب بھی وہ باطن کی روشنی سے منہ موڑتا ہے، اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
وجدان کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یورپین مصنفہ اپنی کتاب What is life میں لکھتی ہیں ''جسم میں بیک وقت دو نظام کارفرما ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسرا سماوی ہے جو مادی جسم کے ذرات (Atoms) میں رہتا ہے اور بعد از موت الگ ہو جاتا ہے۔ حقیقی جسم، جسم لطیف ہے جب کہ مادی جسم ایک خول یا سرائے کی مانند ہے جس میں سماوی جسم عارضی طور پر رہائش پذیر ہے۔''
چونکہ طبعی دنیا ہماری سمجھ کے قریب تر ہے، لہٰذا سچ اور حقیقت کو منطقی انداز میں پرکھا جاتا ہے۔ یہ دنیا منتشر، مادیت پرست اور خواہشوں کے جال میں لپٹی ہوئی ہے اور انسان غیر محسوس طریقے سے اس جال میں لپٹتا چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں انسانی حواس خمسہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ عقل، سمجھ اور سوجھ بوجھ کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ اور وہ وجدانی کیفیات اور سمجھ سے دور چلا جاتا ہے۔
وجدان کا مطلب دیکھنا اور غور کرنا ہے۔ جب انسان کی حسیں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتیں تو اس کا مشاہدہ اور تجربہ بھی سطحی اور بے معنی ہو گا۔ صحیح فیصلے کی قوت اور سمت کا انتخاب کرنا تو دور کی بات ہے۔ غور و فکر، مشاہدے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مشاہدے کی اس وقت اہمیت ہوتی ہے جب انسان اسے شعوری طور پر اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
خیال کا بیج برسوں نمو پا کر تناور درخت بنتا ہے۔
لیکن اس سے پہلے ذہن کی زمین کو زرخیز بنانا پڑتا ہے۔
ذہن یا روح کی زرخیزی تک سوچ کا ایک طویل فاصلہ ہے۔
وجدان کے حوالے سے دو رویے اہمیت کے حامل ہیں۔ چیزوں کا ادراک کرنا، انھیں صحیح تناظر میں دیکھنا دوسرا رویہ یہ بتاتا ہے کہ ہم کس طرح تصور قائم کرتے ہیں۔ یعنی مشاہدے سے کس نوعیت کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ لوگ حواس خمسہ کے ذریعے سمجھ اور ادراک کے مرحلے سے نہیں گزرتے، بلکہ وہ ذہن سے محسوس کرتے، سمجھتے اور دیکھتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے عقیدے یا نظریے سے تصور قائم کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے ایسا کرنے سے انسانی سوچ و سمجھ کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا ہے۔
نفسیاتی ماہر Egon Brunswik اس ضمن میں کہتے ہیں کہ جب ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں یا ان کا ادراک کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ان کے بارے میں واضح سوچ پہلے سے موجود ہونی چاہیے۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ Conception Leads Perception یعنی صحیح تصور و سمجھ سے ہم صحیح تناظر تک جاتے ہیں۔ لہٰذا ادراکی سمجھ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس کے لیے باطن کی تیسری آنکھ کو نکھارنا اور سنوارنا بہت ضروری ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیے مگر فقط اپنے ہی ذہن سے دیکھیے۔ اپنے کانوں سے سنیے مگر اس میں دل کی دھڑکنیں بھی شامل ہوں تو مشاہدے میں مزید گہرائی آئے گی۔
ہر انسان میں وجدانی سوچ اور کیفیت موجود ہوتی ہے۔ مگر اسے اس صلاحیت کو سمجھنے اور اسے اجاگر کرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ یہ ہنر سیکھنے کے لیے، شعوری سمجھ کا دائرہ بہت وسیع کرنا پڑتا ہے وسعت، ہمیشہ محدودیت کا دھندلا آئینہ توڑ کے رکھ دیتی ہے۔
شعور کی وسعت، فطری زندگی کے مشاہدے کے بغیر نامکمل ہے۔ جس کے لیے حاضر دماغی اور حال کے لمحوں میں جینے کا سلیقہ اور تحرک چاہیے۔ قدیم قومیں، سب سے پہلے حال میں جینے کا درس دیتی ہیں۔ انسان خیال کی گہرائی، سوچ کی انفرادیت اور ادراکی سمجھ حال کے مشاہدے سے حاصل کرتا ہے۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھئے کتنی چیزیں ہیں، جو آپ کی توجہ سے محروم ہیں اور آپ ان کے مثبت اثر اور افادیت سے محروم ہیں۔ مثال سردیوں کی دھوپ کا لمس جو بند کمروں میں آپ کو میسر نہیں ہے۔
یورپ کے شمن (روحانی ماہر) کہتے ہیں Connect to it Sun سورج سے براہ راست رابطے میں رہیے۔ سورج سے ہم وٹامن ڈی حاصل کرتے ہیں جس کی کمی ذہنی تناؤ، پژمردگی اور تشویش کا باعث بنتی ہے۔ یہی سورج پورا سال ہمارے سروں پر چمکتا رہتا ہے۔ ایک پورا روشن دن خیال کا خزانہ لیے ہمارے دروازے پر روز دستک دیتا ہے۔ جس میں پھول، پودے، درخت اور پرندے ہیں۔ آسمان کے بدلتے رنگ ہیں۔ اور بھی کئی فکر انگیز تصور ہیں، جو ہمیں محسوس ہوئے بنا گزر جاتے ہیں۔
حال میں جینے کے سلیقے سے یکسوئی عطا ہوتی ہے۔
سمجھ اور یکسوئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یکسوئی نہیں تو شعور، تصور کی خوبصورتی اور ادراکی سمجھ بھی غیر موجود ہو جاتے ہیں۔ ناسمجھی، عدم برداشت، انتشار اور منفی رویے وجدانی سوچ کے حریف ہیں۔ لہٰذا سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی قوتیں دم توڑ جاتی ہیں۔
وجدان حاصل کرنے کا پہلا زینہ یکسوئی ہے۔ جس سے خودشناسی اور ذاتی تجزیے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہر وقت اپنا فائدہ اور سہولت یا دکھ سوچنے والا ذہن، زندگی کی تازگی، خالص پن اور معنویت سے دور ہو جاتا ہے۔
وجدانی خواب بھی غیر محسوس طریقے سے ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اکثر ان کہے سوالوں کا جواب ان میں پوشیدہ رہتا ہے۔ ماہر نفسیات ژونگ نے فرائڈ کے خواب کے نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ خواب پوشیدہ خواہشوں کا ردعمل ہیں، جن کا حصول عام زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ ژونگ کے نزدیک خواب ہمارے تصور اور تعمیری سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ ژونگ نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں اپنے کئی خواب قارئین کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ جو ژونگ کی زندگی میں سوچ کی تبدیلی لے کر آئے۔
تخلیقی سوچ و صلاحیت بھی وجدانی احساس کا اظہار ہے۔ وجدانی خواب تخلیقی صلاحیت کو دریافت کرتے ہیں۔ یہ دانش و عقل کا امتزاج ہیں۔ فرائڈ، ژونگ، مصور سلواڈور ڈالی، کولرج، ولیم بلیک، ولیم ورڈز ورتھ، جان کیٹس، شاہ لطیف، رومی، ٹیگور، خلیل جبران و دیگر اعلیٰ پائے کے تخلیق کار سماوی شعور سے جڑے ہوئے تھے۔
یہ سوچ لافانی اور زمان و مکان کی پابندیوں سے مستثنیٰ ہے۔ جو ان ہواؤں کی طرح ہے جو پہاڑوں اور سمندروں سے راستہ بناتے ہوئے مستقل آگے بڑھتی رہتی ہے۔