سامراجی معاشی و اشرافیائی جمہوری غلامی تیسرا حصہ
لیکن جوں ہی کوئی بھی ’’سرمایہ پرستی‘‘ کی راہ اختیار کرتا ہے۔ وہ تمام انسانی معاشرتی اقدار کی نفی شروع کر دیتا ہے۔
لیکن جوں ہی کوئی بھی ''سرمایہ پرستی'' کی راہ اختیار کرتا ہے۔ وہ تمام انسانی معاشرتی اقدار کی نفی شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح جب تمام یورپی ملکوں کی معیشتوں پر ''امریکی مردہ ڈالر'' کے منفی اثرات صنعتی کلچر کی تباہی، بے روزگاری، ملکی اشیا کا امریکی اشیا کے مقابلے میں مہنگا ہوتے جانا۔ امریکی مالیاتی مداخلت کے منفی اثرات کے سامنے ابھرتے گئے اور سب سے بڑھ کر ان ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو ''مردہ ڈالر'' کافی مقدار میں موجود تھے، اگر یہ ممالک ان ڈالرز کو جلا دیتے ردی میں پھینک دیتے تو بھی ان کا نقصان ہوتا۔ امریکا بھانپ چکا تھا کہ یورپ اس کا شدید ردعمل دے گا۔
ایک طرف امریکا نے سونے اور ڈالر کے تعلق توڑنے کا اعلان کیا اور امریکا نے یورپی اشیا کے امریکا میں داخلے پر (امپورٹ) پر 10 فیصد Surtax بھی لگا دیا۔ 16 دسمبر 1971ء کو دس بڑے یورپی ملکوں نے امریکا سے Smithsonian Agreement کیا جس کے نتیجے میں سونے کی قیمت 35 ڈالر اونس سے 38 ڈالر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ڈالر کی قیمت میں یہ کمی 8.57 فیصد تھی۔ اس کے باوجود جو امریکا بھی چاہتا تھا کہ ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ کی طلب و رسد سے آزادانہ جوڑا جائے اور یورپی ممالک اس کی سرپرستی کے ساتھ اسے قبول بھی کریں۔ اس کے نتیجے جنوری 1972ء میں 49.25 ڈالر فی اونس ہو گیا۔
اس کے لیے یورپی ملکوں نے ڈالر کو ہی سہارا دینا مناسب جانا۔ لیکن ساتھ ہی یورپی ملکوں نے اپنی کرنسیوں کی Basket کے ذریعے ڈالر کی قیمت کا تعین کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1971ء کے آخر میں Basket of Currencies کو SDR میں دبیل کر کے .08571 ڈالر کو ایک SDR کے برابر کر کے عالمی سطح پر کاروبار کرنا شروع کیا۔ اس طرح یورپی ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کے فارن ایکسچینج ریزرو ڈالرز کی قیمت کو SDR کی نکیل ڈال دی اور اس طرح ڈالر کو آزادانہ مارکیٹ میں سونے کے مقابلے میں ٹریڈنگ پر چھوڑ دیا۔ یورپی ممالک نے ڈالر کی آڑ میں اپنی اپنی معیشتوں کو بچا لیا۔
یاد رہے اسی دوران فروری 1972ء کو امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کر کے چین کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ کیونکہ بڑی آبادی کا ملک تھا۔ امریکی مردہ ڈالر کو آسانی سے سہارا دے کر کھڑا کر سکتا تھا چین بھی ڈالر کا بھوکا ملک تھا۔ اس نے خوش آمدید کہا۔ اس کے ساتھ امریکا نے مردہ ڈالر کی مفت واپسی کے لیے سعودی بادشاہ کو استعمال کر کے عربوں کو OPEC میں ہوتے ہوئے عربوں کی خاص تنظیم 1967 OAPECء کے دوران بنوائی اس تنظیم میں شیخ احمد ذکی یمنی سعودی آئل منسٹر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ تنظیم جون 1971ء میں جا کر مکمل ہوئی۔
اس دوران عالمی سطح پر ڈالر اور سونے کے درمیان تعلق ٹوٹنے سے ڈالر بحران کی زد میں تھا۔ سونے کے مقابلے میں قیمت کھو رہا تھا۔ عرب ممالک تیل کے بدلے اب بھی ڈالر لے رہے تھے۔ لیکن ان کے لیے ڈالر خطرے کا الارم بن رہا تھا۔ تیل 1950ء میں 1.55 ڈالر فی بیرل تھا۔ 1968-75ء میں 1.30 ڈالر فی بیرل تھا۔ 1971ء میں 1.65 ڈالر فی بیرل ہوا۔ اور سونے کے مقابلے ڈالر کی قیمت گرنے کی وجہ سے 1972ء میں 2.54 ڈالر تیل فی بیرل، 1973ء میں 3.685 ڈالر فی بیرل، (یہ اعداد و شمار کتاب IFS۔ سال 1985ء کے صفحے 141,140 سے لیے گئے ہیں) جب یورپی ملکوں اور امریکا میں ''کرنسی وار'' سے ''عالمی معاشی بحران'' امریکی مردہ ڈالر کے غیر پیداواری بوجھ سے بڑھتا جا رہا تھا۔ امریکا چاروں طرف ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔
ایک طرف چین کی طرف جھک چکا تھا۔ دوسری طرف منصوبے کے تحت عربوں کی تنظیم OAPEC بھی بنوا چکا تھا۔ پوری دنیا کے ملکوں میں موجود فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر 1970ء میں 45465.0 ملین ڈالر، 1971ء میں 80825.63 ملین ڈالر، 1972ء میں 102911.33 ملین ڈالر، 1973ء میں 121573.41 ملین ڈالر، 1974ء میں 153573.06 ملین ڈالر تھے۔ فارن ایکسچینج بڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ امریکا 1949ء کے بعد تمام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کر کے پوری دنیا کی کرنسیوں کا Manipulator بن چکا تھا اور 1970ء کے بعد کا عالمی معاشی ترقی یافتہ ممالک اور صرف امریکا کے درمیان ''کرنسی وار'' کھل کر ہونے لگی تھی۔
امریکا اس دوران خاموش نہیں بیٹھا رہا بلکہ آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے پسماندہ، تیسری دنیا یا ''معاشی غلام'' ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں مسلسل کمی کر کے ان ملکوں کی تجارتوں، بجٹوں، پرائیویٹ اداروں کو خسارے میں دھکیل رہا تھا۔ اور خساروں سے نکلنے کے لیے ان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مسلسل قرضے دے رہا تھا۔ ان ملکوں میں بڑھتی تجارتی ضرورتوں کے لیے ڈالر بطور فارن ایکسچینج ریزرو رکھنا ضروری تھا۔ کیونکہ تمام ممالک اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ''کرنسی وار'' ابھرتے ہوئے سامراج امریکا اور سابقہ سامراجیوں کے درمیان ہو رہی تھی۔
اور جس کی زد میں یورپی ممالک بری طرح پھنس چکے تھے اور اتنا ہی امریکا اس کے تلے دب چکا تھا۔ یاد رکھنے اور توجہ کے قابل یہ بات ہے کہ اسی دوران 6 اکتوبر 1973ء کو مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ اسرائیل نے جون 1967ء کی جنگ کے دوران جن عرب علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ علاقے خالی کیے جائیں۔ اقوام متحدہ نے 22 اکتوبر 1973ء کو فریقین کے درمیان جنگ بندی کرا دی تھی۔ سعودی عرب اور دیگر OAPEC ممالک نے اسی کو جواز بنا کر امریکا اور یورپی ملکوں سے تیل کا بائیکاٹ کر کے تیل کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کرنا شروع کر دیا۔
OAPEC تنظیم کی لیڈرشپ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل نے سنبھال لی تھی۔ وہ یورپی ممالک جن کا انحصار تیل پر تھا وہ تیل کے بائیکاٹ سے پریشانیوں سے دوچار ہو گئے۔ امریکا عرب ملکوں کو سعودی بادشاہ کے ذریعے Petro Dollars کے پلان پر عمل کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ تمام یورپی ممالک جو مردہ ڈالر کے بوجھ تلے دبے اپنی اپنی معیشتوں کا ماتم کر رہے تھے ان کو امریکا نے عرب تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے ذریعے گھیر لیا۔ عربوں نے تیل بائیکاٹ کے دوران قیمتیں بڑھانا شروع کر دی تھیں۔ کتاب IFS جسے آئی ایم ایف نے 1985ء میں شایع کیا تھا۔
اس کے صفحے 141 پر پٹرولیم کی قیمتیں 1972ء اوسطاً 2.54 ڈالر فی بیرل اور 1973ء میں 3.685 ڈالر فی بیرل اور 1974ء میں 11.651 ڈالر فی بیرل ہو گئیں۔ 1970ء میں 1.30 ڈالر فی بیرل تھی اس طرح 1974ء تک عربوں نے تیل کی قیمتوں میں 796 فیصد اضافہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں یورپی ممالک کے پاس موجود مردہ ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو میں تیل کی خریداری پر 1970ء کی نسبت 796 فیصد زیادہ ادائیگی ڈالروں میں کرنی پڑی۔ کیونکہ عرب ممالک امریکا سے اندرون خانہ خفیہ ڈیل کے نتیجے میں تیل خریدنے والے ملکوں سے صرف اور صرف امریکی ڈالر مانگ رہے تھے۔
یہاں پر پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ثبوت پیش کرتا ہوں۔ پاکستانی کرنسی روپے کی قیمت 1970ء میں 4.762 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ 1972ء میں امریکا نے پاکستانی معیشت پر سڈ مڈ CDMED لگا کر 11.031 روپے کا ڈالر کر دیا۔ پاکستان عربوں سے جو تیل 1970ء میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 6.19 روپے کا فی بیرل تیل لے رہا تھا۔ 1972ء میں 11.031 روپے ڈالر کے حساب سے 2.54 ڈالر فی بیرل سے 28.081 روپے کا اور پھر 1974 ء میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بہت بڑھ گئی۔