جدلیات اور اعلیٰ زندگی کا تصور
انگریزی لفظ ’کریٹیسزم‘ (تنقید) کا یونانی متبادل Krinein ہے۔ اس کا مطلب ہے ’الگ‘ کرنا یا ’علیحدہ‘ کرنا۔
NEW DELHI:
انگریزی لفظ 'کریٹیسزم' (تنقید) کا یونانی متبادل Krinein ہے۔ اس کا مطلب ہے 'الگ' کرنا یا 'علیحدہ' کرنا۔ علیحدہ کرنے یا الگ کرنے سے مراد یہ نہیں کہ جو کچھ پہلے ہی الگ یا ایک دوسرے سے علیحدہ دکھائی دے رہا ہے، بس اس کی نشاندہی کر دی جائے۔ یہاں علیحدہ یا الگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی وجود، شے، حقیقت جو کہ بظاہر دکھائی دے رہے ہیں، انھیں ان کے اندر کے ان پہلوؤں سے علیحدہ کر دیا جائے جو سطح پر دکھائی نہیں دے رہے، تبھی ان کے جوہر تک پہنچا جا سکتا ہے۔
یعنی وہ تمام اوصاف جو اس کے اندر موجود ہیں ان کو سامنے لایا جائے۔ وجود، شے، حقیقت کو رسمی منطق کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیونکہ رسمی منطق کے مطابق کسی بھی شے، حقیقت، وجود کے اندر ہی اس کی نفی کا تصور موجود نہیں ہوتا۔ جدلیات بتاتی ہے کہ وجود، شے حقیقت ایک ہے اور اس کے اندر ہی اس کی نفی، اس کا متضاد موجود ہوتا ہے۔ لہذا حقیقت کو بہتر سطح پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت کو جدلیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔
جدلیات کے علاوہ جس طریقہ کار کے تحت وجود، شے حقیقت کی 'تنقید' پیش کی جاتی ہے، وہ 'تنقید' کے یونانی تصور کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ جدلیات وہ تمام اوزار فراہم کرتی ہے جس سے کسی خیال، وجود، شے، حقیقت کی ایسی 'تنقید' پیش کی جا سکتی ہے کہ پیچیدہ قضایا کی بہتر تفہیم ہو سکتی ہے۔ جدلیات کا سب سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر شے، حقیقت، وجود اور یہاں تک کہ آئیڈیالوجی بھی اپنی ہی نفی کرتی ہوئی اپنے تخالف میں بدل جاتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر کچھ اور ہی شے، وجود، حقیقت بن جاتا ہے، بلکہ وہ صرف تفہیم کے عمل کے لیے اس کے اندر سے ہی متضاد وجود کو سامنے لاتی ہے۔
اس مؤقف کو پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی تجریدی تھیوری کا کسی معروض پر زبردستی اطلاق کیا جا رہا ہے، اور کچھ ایسے اوصاف کسی حقیقت یا آئیڈیالوجی میں منتقل کیے جا رہے ہیں جو کہ اس میں موجود نہیں ہیں بلکہ تصدیق تو اس بات کی کرنی ہے کہ کیا کسی معروض کی گہری اور محتاط قرأت جدلیات کے اس اصول کی سچائی کی تصدیق کرتی ہے یا نہیں۔
وہ تمام سماج جو ابھی تک جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر ہیں، یا جہاں سرمایہ دارانہ نظام کسی انقلاب کے تحت جاگیرداری کا قلع قمع نہیں کر سکا، وہاں ابھی تک لوگوں کی اکثریت کے لیے مذہب ایک انتہائی اہم 'ورلڈ ویو' کی حیثیت رکھتا ہے۔ پسماندگی، ذلت و رسوائی، ظلم و استحصال اور ناانصافی کسی بھی عقیدے کے استحکام کا باعث بنتے ہیں اور عقیدے کا استحکام یعنی اخروی زندگی یا جنت کے تصور پر ایمان کی وجہ سے پسماندگی، ذلت و رسوائی، ظلم و استحصال اور ناانصافی کو مستحکم کرتا ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ عبادات میں زندگی بسر کر لوں اور اس کے بعد جو دنیا میں نہیں مل سکا اسے آخر میں حاصل کر لے گا۔
تحمل و برداشت کا یہی خیال دنیا میں ذلت و رسوائی، ظلم و استحصال کو مستحکم کرتا ہے۔ وہ تمام معاشرے جہاں سرمایہ داری اقدار پختہ ہو چکی ہیں، اور وہ کافی حد تک لوگوں کے شعور کا حصہ بن چکی ہیں، وہاں ظلم و استحصال کی سطح وہ نہیں ہے جو پسماندہ معاشروں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں اخروی زندگی پر ایمان حقیقی زندگی پر اس شدت سے اثر انداز نہیں ہوتا۔ 'ترقی یافتہ' معاشروں میں مذہبی اقدار اور مذہب کے بحیثیت ایک آئیڈیالوجی کے متعلقہ ہونے کا سوال اس وقت جنم لیتا ہے جب 'ترقی یافتہ' جمہوری نظام لوگوں کی حقیقی خواہشات کی تکمیل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ بحران کا ابھار عقیدے کو مستحکم کرتا ہے۔
ان کے برعکس غیر ترقی یافتہ معاشروں میں صورتحال خاصی مختلف ہے۔ ان معاشروں میں مذہب کافی حد تک لوگوں کی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ایک مذہب کے اندر ترقی سے متصادم ہونے کے پہلو زیادہ اور کسی دوسرے مذہب میں کم پائے جاتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ معاشرے ابھی تک جاگیرداری یا سرمایہ دارانہ نظام کی ابتدائی مراحل طے کر رہے ہیں۔
جبر و استحصال نے جنت کے تصور کو بھی تقویت عطا کی ہے، کیونکہ اس سے انسانی خواہش کی نکاسی کسی اور جانب ہو جاتی ہے۔ لبرل ازم کے حامی اور مذہبی اقدار کے ناقد اس ساری صورتحال کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور مذہب کے جس کردار کی وہ 'تنقید' کرتے ہیں، اس کا اس تنقید سے کوئی تعلق نہیں جس کے مطابق کسی آئیڈیالوجی کی بحیثیت ایک معروض کے تنقید کرتے ہوئے اس کے اندر سے ہی اس کی نفی اور اثبات کے پہلوؤں کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ ہر وہ سماج جہاں مذہب پر عمل کیا جا رہا ہو، یا جہاں مذہب کو ایک اہم قوت کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہو، وہاں بحیثیت ایک آئیڈیالوجی مذہب کا کردار جدلیاتی ہی ہوتا ہے۔
یعنی ایک طرف مذہب ایک ظالم و جابر سماج کا حصہ ہونے کے ناتے اس سماج کو قبول کرتا ہے، اسے استحکام بخشتا ہے، اس کی پیدا کردہ ذلت و رسوائی میں شراکت دار ہوتا ہے، دنیاوی جبر وتشدد، دہشت و بربریت اور ظلم و استحصال کو برداشت کرنے کا اخروی زندگی کی شکل میں جواز فراہم کرتا ہے، دوسری طرف ظلم و تشدد اور جبر و استحصال سے اٹے سماج کی نفی کرتا ہوا جنت کی شکل میں اس سے کہیں زیادہ اعلیٰ دنیا کے تصور کی تشکیل کرتا ہے۔ انسانی تخیل میں جنت کا تصور اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرتا ہے کہ انسانی تخیل ایک ایسی دنیا کا تصور رکھتا ہے کہ جو اس دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے جہاں انسان زندگی بسر کر رہا ہے۔
جنت کا تصور، حقیقت میں، دنیا کے اس تصور کی نفی ہے، جس میں انسان ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ دنیاوی زندگی کے اس تصور کے خلاف 'احتجاج' ہے جو انسان کو وہ کچھ نہیں دے پایا کہ جسے وہ اپنے تخیل میں جنت کی شکل میں حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ جنت محض حوروں کی آماجگاہ نہیں ہے، یہ انسانی متخیلہ کی تشکیل کردہ ایسی حقیقت ہے جس میں ظلم و جبر، تشدد و وحشت، دہشت و بربریت، استحصال و ناانصافی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ ہر طرح کی آلائشوں، برائیوں سے پاک ایک معاشرے کی تکمیل کی انسانی خواہش ہے۔
انسان جنت کی شکل میں ایک ایسی دنیا کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے جہاں حقیقی انصاف میسر ہے، جہاں امیر و غریب کا فرق مٹ جاتا ہے، جنت کے تصور میں رنگ، نسل، فرقہ پرستی، قوم پرستی جیسی خرافات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جنت کا تصور یہ واضح کرتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر ایک سماجی اکائی ہے، جو دوسرے انسانوں کے ساتھ کسی مخاصمت و عداوت کے جذبے کے تحت نہیں رہنا چاہتا۔ وہ انسانوں کے مابین کسی تفریق کا قائل نہیں ہے۔
جنت کا تصور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں چند طاقتور لوگ جنت کے کچھ حصوں پر قبضہ کر کے اسے اپنی نجی ملکیت میں نہیں لیں گے اور نہ ہی ملکیت کے اس تصور کو اس حد تک توسیع دیتے چلے جائیں گے کہ لوگوں کو جنت سے نکال باہر کریں۔ جنت کے وسائل اور سہولیات پر چند افراد یا خاندانوں کی اجارہ داری نہیں ہو گی، نہ ہی جنت میں چند طاقتور کمزور لوگوں پر ظلم و بربریت مسلط کر کے انھیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کریں گے۔
انسانی تصور میں موجود جنت میں ہر قسم کی نجی ملکیت اور آزاد منڈی اور مقابلے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہاں چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے جبری آئیڈیولاجیکل ادارے مثلاََ فوج، پولیس، پاگل خانے، عدلیہ وغیرہ نہیں ہوں گے، نہ ہی وہاں دوسرے آئیڈیولاجیکل ادارے جیسا کہ جامعات، مسجدیں، چرچ، مندر اور گورودوارے ہوں گے کہ جہاں طبقاتی مفادات کو تحفظ دینے والی آئیڈیالوجی کا احیا ہو سکے۔ مذہب نے جنت کا جو تصور پیش کیا ہے وہاں کسی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہو گا، وہاں تعاون کی فضا قائم ہو گی۔ جنت کا یہ تصور ایک مثالی سوشلسٹ سماج کی تشکیل کا تصور ہے۔ مذہب کا تشکیل کردہ یہی تصور ہے جسے انسان آج تک اس دنیا میں حاصل نہیں کر سکا، جہاں وہ رہتا ہے، لیکن خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے انسان کو ایک اعلیٰ زندگی کی بشارت دے رکھی ہے۔