سمندری چائنا کٹنگ

جس وقت سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی تھی، اس وقت ابراہیم حیدری میں 2 ارب روپے مالیت کی تجاوزات قائم ہو گئیں


قادر خان January 07, 2016
[email protected]

ROME: کراچی کے اس پس ماندہ علاقے ابراہیم حیدری میں غریب سندھی، بلوچ ماہی گیروں سے اربوں روپوں کا ہیر پھیر ہو رہا ہے لیکن ان ماہی گیروں کی حالت پر رحم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

جس وقت سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی تھی، اس وقت ابراہیم حیدری میں 2 ارب روپے مالیت کی تجاوزات قائم ہو گئیں، اس کی خاص وجہ نئے بلدیاتی نظام اور محکموں کے درمیان اختیارات کے تنازعات تھے جس کا فائدہ لینڈ مافیا نے خوب اٹھایا اور سرکاری زمینوں پر تجاوزات قائم کر لیں۔ حالانکہ یہ اراضی کے ایم سی کی ملکیت تھی اور نیلامی کے لیے مختص کی گئی تھی 25 ایکٹر کی زمین تنازعات کا شکار ہو گئی۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں اس با اثر گروہ نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، اس میں ان غریب ماہی گیروں کی محنت کی کمائی جو وہ سمندر میں موت کے منہ میں جا کر کماتے ہیں ایک 'مول' بنا کر غنڈہ گردی سے ہتھیا لیا ہے۔

غیر قانونی جیٹیاں بنا کر سمندری کو کٹنگ کر کے سیکڑوں ایکڑ اراضی پر قبضہ سرکاری سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کل سندھ بھر میں 30 منظور شدہ مول ہیں۔ اسی طرح ایک ایڈیشنل مول صرف ابراہیم حیدری میں بنا کر ماہی گیروں کو اوپن مارکیٹ میں جانے سے روکا جاتا ہے۔ ماہی گیروں کا سب سے اہم مطالبہ حکومت سے یہی ہے کہ ابراہیم حیدری کی غیر قانونی 'مول' کو ختم کر دیا جائے اور فشری میں اوپن مارکیٹ میں انھیں مچھلی کی نیلامی کرنے کی اجازت اور تحفظ فراہم کیا جائے۔

پوری کراچی میں کل چھ جگہیں ایسی ہیں جہاں اربوں روپوں کی مچھلیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان چھ جگہوں میں ابراہیم حیدری، فشری، ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ، شمس پیر اور کاکا ولیج ہے، لیکن سرکاری طور پر 'مول' ایک ہی جگہ ہے۔جیسے ہم فشری کے نام سے جانتے ہیں۔ سرکاری جیٹی کے علاوہ غیر قانونی جیٹیاں میں ابراہیم تیل والا جیٹی، جان عالم جاموٹ جیٹی، احسن قبول جیٹی، میر جاموٹ جیٹی، چارن جیٹی ہیں جس کی مکمل سپورٹ ابراہیم حیدری کا ایک گینگ کرتا ہے، بلوچ اور سندھی برادری کے ساتھ ان کے اپنے شہر کے پس ماندہ علاقے میں اس قدر فرعونیت نے شہر میں ہونے والی چائنا کٹنگ جیسے معاملات اور بھتہ کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو، وڈیرے بن بیٹھے ہیں ان کا ماضی کیا ہے۔

جعلی کرنسی، شراب اور ا سلحہ کا اسمگلر، ایک خاندان کے نوجوان کے قاتلوں (خ) سے زیادتی کے معاملات کو کیوں بھول جاتے ہیں، یہاں سب قصور عوام کا بھی ہوتا ہے کہ اللہ ڈنو شاہ کے مزار پر عرس تو ہر سال مناتے ہیں لیکن اس کی طرح جرأت خود میں پیدا نہیں کرتے۔ اللہ ڈنو شاہ کی قربانی کو رائیگاں تو نہ جانیں دیں۔ ارباب اختیار کم از کم اتنا توکریں ابراہیم حیدری کے ایڈیشنل غیر قانونی مول کو ختم کر کے دیگر پانچ جگہوں کی طرح ابراہیم حیدری کے ماہی گیروں کو بھی فشری میں اپنی محنت کی کمائی کا درست حق حاصل کرنے کا موقع دیں اور اس ابراہیم حیدری کے ایڈیشنل غیر قانونی مول کو بند کریں۔

جب پورے کراچی کے پانچ جگہوں پر مول نہیں ہے اور وہ فشری جاتے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرتے ہیں ہیں تو پھر ابراہیم حیدری کی ماہی گیروں کے ساتھ زیادتی کیوں؟ کراچی میں پانچ اور بھی تو جگہیں ہیں پھر یہاں نا انصافی؟ یہیں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی وجہ ضرور ہے جس کی وجہ سے کراچی میں ماہی گیری کے کاروبار پر کسی کی نظر ہے اور وہ غریب ماہی گیروں کا حصہ کسی بھی طریقے سے کھا جانا چاہتا ہے۔ کراچی میں تقریباََ ساڑھے تین ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود کراچی، اب کراچی نہیں بلکہ 'کراچی کچرا' کہلانے لگا ہے۔

کراچی میں روزانہ ایک اندازے کے مطابق 12 ہزار ٹن سے زائد کچرا پیدا ہو رہا ہے، اور المیہ یہ ہے کہ اس میں سے بمشکل صرف 3 ہزار ٹن کچرا ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اربن ریسورس سینٹر میں منعقدہ سندھ سالڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر روشن علی شیخ نے تسلیم کیا کہ میونسپل ادارے ناکام ہو چکے ہیں اور کراچی دنیا کا گندا ترین شہر کہلانے لگا ہے۔ کراچی کا کچرا اس کے اصل مقام دیہی چاکرو، سرجانی اورگوندھ پاس حب ریور روڈ تک پہنچایا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ کچرا وہاں نہیں پہنچ پاتا۔ اس کچرے کا استعمال ایک نئے انداز میں زمینوں پر قبضے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

گو کہ کراچی کا 27 فیصد کچرا 'ری سائیکل' ہوتا ہے جس سے وابستہ افراد کروڑوں روپے کماتے ہیں لیکن حکومت کو اس سے کوئی آمدنی نہیں ملتی۔ بلدیہ عظمی میں خاکروب کی تعداد 13ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے لیکن اس میں 70 فیصد گھوسٹ ہیں یا پھر عملے کے افسران کے ساتھ مل کر اپنی ڈیوٹی دینے کے بجائے پرائیویٹ ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔

اکہتر کروڑ روپے بلدیاتی ادارے شہر کا کچرا اٹھانے پر روزانہ خرچ کرتے ہیں یعنی سالانہ ساڑھے تین ارب روپے۔ جہاں قومی خزانے کو ڈیزل کی مد میں کروڑوں روپوں، گھوسٹ اور ملی بھگت سے ڈیوٹی سے غیر حاضر ملازمین کی تنخواہوں میں بھاری خسارے کا سامنا ہے وہاں ایک مافیا کراچی کا کچرا ابراہیم حیدری میں سمندر کنارے پھینکتی ہے اور اس کچرے کی مدد سے سمندری جگہ خشک ہو جاتی ہے کچرا جلایا جاتا ہے۔

جس سے متعدد قسم کے امراض اس ڈیڑھ لاکھ کی آبادی کے مکینوں کو لاحق ہو چکے ہیں، لیکن لیاری ندی ، ملیر ندی کی طرح ابراہیم حیدری میں کراچی کا 80 فیصد کچرا مخصوص طریقے سے ڈالا جاتا ہے۔

اس کچرے کو جلانے کے بعد اس پر مٹی اور پتھر ڈال دیے جاتے ہیں اور خود بخود سمندر کی جگہ پر ایک زمین کی سطح بن جاتی ہے جیسے 'جیٹیاں' کہتے ہیں۔ ابراہیم حیدری میں واحد قانونی سرکاری زمین پر60 فٹ چوڑی جیٹی تھی لیکن قبضہ مافیا نے اس پر دکانیں اور تجاوزات بنانے کے علاوہ ایک غیر قانونی مول بھی بنا دیا۔ جس کے ذریعے وہ ماہی گیروں سے دیگر جیٹیوں میں کشتیاں کھڑی کرنے کے سبب سستے داموں فیڈز کے لیے مچھلیاں خریدتے ہیں اور کروڑوں روپے غیر قانونی طور پر روزانہ کی بنیاد پر الگ کما رہے ہیں۔

منصوبے کے مطابق کراچی کے کچرے کو 'ری سائیکل' کر کے بجلی، گیس اور فیول پیدا کرنا تھا جس سے آمدنی میں اضافہ ہوتا لیکن کرپشن کے اس سمندر میں لینڈ مافیا نے کراچی کے کچرے کو بالکل ہی الگ مقصد کے لیے استعمال کیا۔ کروڑوں روپوں کی کرپشن تو سرکاری ادارے کچرے کی مد میں کر ہی رہے تھے لیکن لینڈ مافیا کے ساتھ ملکر ابراہیم حیدری جیسی قیمتی ماہی گیری کے علاقے میں غیر قانونی طور پر جیٹیاں بنانے کا کام شروع کر دیا، اس وقت بھی ان کا یہ کام جاری ہے اور جس طریقے سے یہ لینڈ مافیا سرگرم ہے، لگتا یہی ہے کہ ابراہیم گوٹھ سے ریڑھی گوٹھ تک کی26 کلومیٹر کی سمندری پٹی پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہو جائے گا۔

ابھی تو صرف چھ غیر قانونی جیٹیاں بنی ہیں مستقبل میں سمندری حدود میں کتنی جیٹیاں بنیں گی اور وہ گوٹھ آباد اسکیم کے تحت 99 سالہ لیز پر بھی دے دی جائیں گی، اس سے بھی سب واقف ہیں۔ جیٹیاں بنانے کے لیے اس سے بہترین طریقہ کوئی اور نہیں کہ ایک طرف کراچی کا کچرا سرکار ہی ڈال رہی ہے تو دوسری طرف کروڑوں روپیہ بچا کر سمندر کی قیمتی زمین پر قبضہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان غیر قانونی جیٹیاں بنانے سے جہاں حکومت کو نقصان ہو رہا ہے وہاں اس شعبے سے وابستہ60 ہزار افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن جب کراچی کچرے کے ٹھکانے لگانے کے حوالے سے جواب دینے سے کتراتے تھے، تو ان کا کہنا ہوتا تھا کہ 'میں سپر مین نہیں ہوں جو کراچی کا ٹنوں کچرا ایک ہی ہلے میں صاف کر دونگا۔' شہر کراچی میں پانچ سو ایکڑ کی دو سرکاری اراضیوں پر کچرا ڈالا جانا تھا لیکن ساٹھ فیصد کچرا جہاں شہر میں جذب ہو جاتا ہے باقی ماندہ ہزاروں ٹن کچرا لینڈ مافیا، زمین پر قبضے کے لیے استعمال کر لیتی ہے جس کا زندہ ثبوت ابراہیم حیدری کی غیر قانونی جیٹیاں ہیں جس پر سندھ کے ایک رکن اسمبلی نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور ایک جرائم اور اسمگلنگ کی دنیا بسا رکھی ہے۔

معمولی مفاد کے خاطر ملک و قوم کا عظیم نقصان کیا جاتا ہے۔ ارباب اختیار ابراہیم حیدری کے عوام کو کراچی کے لاکھوں ٹن کچرے کے عذاب سے نجات دلائیں اور کے ایم سی، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن، کنٹونمنٹ بوردذ، ڈیفنس ہاؤسنگ کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مختص 500 ایکڑ پر مشتمل دو لینڈ فل سائیٹس پر منصوبہ بندی کے مطابق کراچی کے کچرے سے فائدہ اٹھائیں بجائے اس کے کہ ابراہیم حیدری کی عوام کو جانی نقصان اور لینڈ مافیا کو سمندر کی سطح کو زمین بنا کر اربوں روپے کی قیمتی زمین پر قبضے کرنے میں مدد کریں۔ ارباب اختیار ان غیر قانونی جیٹیوں کو سرکاری تحویل میں لیں کیونکہ سمندر کو زمین کی حالت میں تبدیل کرنے سے لینڈ مافیا اس جگہ کی مالک نہیں بن سکتی کیونکہ سمندر پر لینڈ مافیا کا نہیں بلکہ وفاق اور ابراہیم حیدری کے غریب ماہی گیروں کا حق ہے۔ غیر قانونی کام دنیا بھر کے ہو رہے ہیں لیکن جہاں ماحولیات کی تباہی کے ساتھ انسانیت کی تباہی بھی درپیش ہو تو اس کے سوا کچھ سمجھ نہیں آتا کہ

سمندر میں ہوں اور کنارا نہیں مل رہا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔