زندہ سیاستدان مردہ عوام
وزیراعظم نواز شریف صاحب نے بھی ٹھیک ہی کہا تھا کہ 2018 تک بجلی نہیں جائے گی۔ کیونکہ بجلی ہوگی تو جائے گی ناں۔
بہت دن ہوئے آپ دکھائی نہیں دے رہے، کہاں غائب ہیں؟ ﷲ کا شکر ہے کہ میں ابھی مسنگ پرسنز (missing persons) میں شامل نہیں ہوا۔ لیکن ہوں تو عوام ہی دکھائی کیسے دوں گا آپ کو؟
مجھے لگا کہ آپ بھی الیکشن جیت گئے ہیں اسی لئے غائب ہیں۔
الیکشن لڑنے والے جیتیں یا ہاریں دونوں صورتوں میں پھر دکھائی نہیں دیتے۔ جیت کر تو سمجھ میں آتا ہے کہ اب کام کرنے ہوں گے اس لیے غائب ہوتے ہیں لیکن ہار کر کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟ وہ اس لیے کہ انہوں نے جو اخراجات کیے ہیں اب وہ کون بھرے گا۔ جیت جاتے تو عوام سے سود سمیت نکلوالیتے لیکن اب ہار کر عوام کو کیا منھ دکھائیں؟
عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ سال الیکشن کا سال ہوگا۔ ابھی تک ملک میں الیکشن کہیں نہ کہیں ہو ہی رہے ہیں۔ وہ ملکی انتخابات کو شفاف نہیں مانتے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن ضرور شفاف کروا ئیں گے۔ اس طرح نواز شریف صاحب نے بھی ٹھیک ہی کہا تھا کہ 2018 تک بجلی نہیں جائے گی۔ کیونکہ بجلی ہوگی تو جائے گی ناں۔ سیاستدان بھی کبھی بھلا غلط کہہ سکتے ہیں۔ غلط تو عوام کہتے ہیں فلاں زندہ ہے، اور فلاں زندہ باد۔
اسی لیے سیاستدان زندہ ہیں اور عوام مردہ ہے۔ سنا ہے آئندہ 3 سال میں 20 لاکھ خاندانوں کو 40 ارب کے بلا سود قرضے دیئے جارہے ہیں۔ سنی سنائی باتوں پر زیادہ کان مت دھرا کرو۔ ملک کو قرضوں پر چلانے والے عوام کو بھی قرضوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ بھلا اس طرح بھی کوئی ترقی کرتا ہے؟
ویسے میں نے آج تک محلہ میں کسی غریب کو قرضہ لے کر ترقی کرتے نہیں دیکھا۔ ترقی ہمیشہ اپنی چادر کے اندر پاؤں رکھ کر ہی ہوتی ہے۔ بہرحال اس طرح ملک میں ترقی ہو نہ ہو لیکن ووٹ میں ترقی ضرور ہوجائے گی۔ قرض سے یاد آیا طاہر القادری صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ شہداء کا خون قرض ہے اور وہ بدلہ لیے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اسی لیے وہ اب آگے نہیں بڑھ رہے کہ بادل نخواستہ دھرنے کی طرح پیچھے نہ ہٹنا پڑجائے۔ ویسے انہیں کہا کس نے تھا کہ وہ قرضہ دیں جب پتا بھی ہے کہ قرضہ واپس کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔
یہی بات تو زرداری صاحب بھی ایک عرصہ سے سمجھا رہے ہیں۔ لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی اسی لیے وہ دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ جب سے یہ غائب ہوئے ہیں ان کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کا عدالتی ریکارڈ بھی غائب ہوگیا ہے۔ لگتا ہے جاتے ہوئے اثاثہ جات لے کر جانے تھے لیکن وہ غلطی سے عدالتی اثاثہ جات کا ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
اسی لیے تو ان کا فرمانا ہے کہ وہ کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ تو پھر کیا طشت میں رکھ کر پیش کریں گے جس طرح انہیں بے نظیر کی شہادت کے بعد ملا ہے۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے اس پر جو بھی آتا ہے قابض ہوجاتا ہے۔ پھر ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
جب عوام جاگے گی لیکن جہاں مرنے والے سیاستدان زندہ ہوجائیں وہاں عوام مردہ ہوجاتی ہے۔
[poll id="876"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
مجھے لگا کہ آپ بھی الیکشن جیت گئے ہیں اسی لئے غائب ہیں۔
الیکشن لڑنے والے جیتیں یا ہاریں دونوں صورتوں میں پھر دکھائی نہیں دیتے۔ جیت کر تو سمجھ میں آتا ہے کہ اب کام کرنے ہوں گے اس لیے غائب ہوتے ہیں لیکن ہار کر کیوں غائب ہوجاتے ہیں؟ وہ اس لیے کہ انہوں نے جو اخراجات کیے ہیں اب وہ کون بھرے گا۔ جیت جاتے تو عوام سے سود سمیت نکلوالیتے لیکن اب ہار کر عوام کو کیا منھ دکھائیں؟
عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ سال الیکشن کا سال ہوگا۔ ابھی تک ملک میں الیکشن کہیں نہ کہیں ہو ہی رہے ہیں۔ وہ ملکی انتخابات کو شفاف نہیں مانتے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن ضرور شفاف کروا ئیں گے۔ اس طرح نواز شریف صاحب نے بھی ٹھیک ہی کہا تھا کہ 2018 تک بجلی نہیں جائے گی۔ کیونکہ بجلی ہوگی تو جائے گی ناں۔ سیاستدان بھی کبھی بھلا غلط کہہ سکتے ہیں۔ غلط تو عوام کہتے ہیں فلاں زندہ ہے، اور فلاں زندہ باد۔
اسی لیے سیاستدان زندہ ہیں اور عوام مردہ ہے۔ سنا ہے آئندہ 3 سال میں 20 لاکھ خاندانوں کو 40 ارب کے بلا سود قرضے دیئے جارہے ہیں۔ سنی سنائی باتوں پر زیادہ کان مت دھرا کرو۔ ملک کو قرضوں پر چلانے والے عوام کو بھی قرضوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ بھلا اس طرح بھی کوئی ترقی کرتا ہے؟
ویسے میں نے آج تک محلہ میں کسی غریب کو قرضہ لے کر ترقی کرتے نہیں دیکھا۔ ترقی ہمیشہ اپنی چادر کے اندر پاؤں رکھ کر ہی ہوتی ہے۔ بہرحال اس طرح ملک میں ترقی ہو نہ ہو لیکن ووٹ میں ترقی ضرور ہوجائے گی۔ قرض سے یاد آیا طاہر القادری صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ شہداء کا خون قرض ہے اور وہ بدلہ لیے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اسی لیے وہ اب آگے نہیں بڑھ رہے کہ بادل نخواستہ دھرنے کی طرح پیچھے نہ ہٹنا پڑجائے۔ ویسے انہیں کہا کس نے تھا کہ وہ قرضہ دیں جب پتا بھی ہے کہ قرضہ واپس کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔
یہی بات تو زرداری صاحب بھی ایک عرصہ سے سمجھا رہے ہیں۔ لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی اسی لیے وہ دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ جب سے یہ غائب ہوئے ہیں ان کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کا عدالتی ریکارڈ بھی غائب ہوگیا ہے۔ لگتا ہے جاتے ہوئے اثاثہ جات لے کر جانے تھے لیکن وہ غلطی سے عدالتی اثاثہ جات کا ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
اسی لیے تو ان کا فرمانا ہے کہ وہ کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ تو پھر کیا طشت میں رکھ کر پیش کریں گے جس طرح انہیں بے نظیر کی شہادت کے بعد ملا ہے۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے اس پر جو بھی آتا ہے قابض ہوجاتا ہے۔ پھر ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
''یہ آخر قبضہ مافیا سے ہماری جان کب چھوٹے گی؟''
جب عوام جاگے گی لیکن جہاں مرنے والے سیاستدان زندہ ہوجائیں وہاں عوام مردہ ہوجاتی ہے۔
[poll id="876"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔