کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایسا فیصلہ دینگے جو سب کو قبول ہوگا لاہور ہائیکورٹ
سندھ اورپختونخوا کے اعتراضات محض بداعتمادی ہیں، مشترکہ مفادات کونسل نے ذمے داری پوری کردی
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عمرعطا بندیال نے قراردیاہے کہ بادی النظرمیں لگتا ہے کہ کالا باغ ڈیم منصوبے کو بلاوجہ نظر اندازکیا جارہاہے۔
گو یہ انتظامی معاملہ ہے لیکن عدالت ایسا فیصلہ کریگی جس کا حشر 2002ء کے فیصلے جیسا نہ ہو بلکہ تمام فریقین اورسیاسی جماعتیں بھی اسے تسلیم کریں۔ عدالت نے پنجاب واٹرکونسل کے فاروق باجوہ کو تکنیکی معاملات پر معاونت کیلیے طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 8نومبرتک ملتوی کردی، فاضل جج نے قرار دیا کہ جب مشترکہ مفادات کونسل نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے فیصلے کو سیاسی نہ بنانے کی منظوری دی تو اس معاملہ کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے،کونسل نے20سال قبل اپنی ذمے داری پوری کردی تھی، اگر اس کے فیصلے کے باوجود ڈیم تعمیرنہیں ہواتویہ وفاقی حکومت کی کوتاہی ہے۔
اگرسندھ طاس معاہدے میں یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنیوالے3دریائوں سندھ، جہلم اور چناب پر بھارت کاکوئی حق نہیں تو پھر دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کس طرح بن رہاہے؟ عالمی قانون کے مطابق اگر دریاکے ٹیل (انڈرائپیرئن)پررہنے والے پانی ضائع کریں تواپر رائپیرئن کو یہ پانی استعمال کرنے کاحق حاصل ہے،1997ء میں ڈیم کی تعمیر کیلیے درخواست دائر کرنے والے عوام دوست پارٹی پاکستان کے چیئرمین انجینئر محمد الیاس بھی پیش ہوئے، انھوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس مولوی انوارالحق انکی درخواست پر2002ء میں کالاباغ ڈیم کی تعمیرکا حکم جاری کرچکے ہیں، اب وہ اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کیلیے توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے۔
درخواست گزاروں کے وکلا نے پلڈاٹ کی رپورٹس پیش کیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بہت اہم رپورٹس ہیں، ان میں دوسرے صوبوں کے خدشات اوراعتراضات شامل ہیں جو صرف بداعتمادی ہے، درخواست گزارکے وکیل اے کے ڈوگر نے کہاکہ1991ء میں مشترکہ مفادات کونسل ڈیم کی تعمیرکی منظوری دے چکی ہے اوراس نے متفقہ قرارداد میں لکھاہے کہ اس فیصلے کوسیاسی نہ بنایا جائے، اس پر چاروں وزرائے اعلیٰ کے دستخط بھی ہیں، عدالت معاملہ وزیراعظم کوحکم دے کہ وہ ڈیم تعمیرکریں، چیف جسٹس نے کہاکہ1991ء میں مشترکہ مفادات کونسل نے منصوبے کی فزیبلٹی بنانے کی ہدایت کی تھی، اس پرچاروں صوبوںنے رضامندی ظاہرکی، اب سندھ اورخیبرپختونخوا کے اعتراضات دورکیے جانا ضروری ہے لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کوسیاسی بنایاجارہاہے۔
مفادعامہ اورانسانی بنیادی حقوق کے فیصلے کوسیاسی نہ بنایا جائے، مشترکہ مفادات کونسل نے21 مارچ1991ء کواپنے فیصلے کومنظوری کیلیے کابینہ ڈویژن کوبھجوادیاتھامگر ابھی تک اس پرعمل نہیں ہوا ،کالاباغ ڈیم کی تعمیر ملکی اور قومی معاملہ ہے ، بادی النظر میں لگتا ہے کہ ابھی تک کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلیے فیزیبلٹی رپورٹ نہیں بنائی جاسکی اور نہ ہی اس پر تکنیکی ا ور معاشی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں،20 سال سے کالاباغ ڈیم منصوبے کو بلاوجہ نظر انداز کیا جارہاہے ،دریں اثنا لاہور ہائیکورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف دائر متفرق درخواست پر وفاقی حکومت اور اوگراکو نوٹس جاری کرتے ہوئے14نومبرتک جواب طلب کر لیا۔
گو یہ انتظامی معاملہ ہے لیکن عدالت ایسا فیصلہ کریگی جس کا حشر 2002ء کے فیصلے جیسا نہ ہو بلکہ تمام فریقین اورسیاسی جماعتیں بھی اسے تسلیم کریں۔ عدالت نے پنجاب واٹرکونسل کے فاروق باجوہ کو تکنیکی معاملات پر معاونت کیلیے طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 8نومبرتک ملتوی کردی، فاضل جج نے قرار دیا کہ جب مشترکہ مفادات کونسل نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے فیصلے کو سیاسی نہ بنانے کی منظوری دی تو اس معاملہ کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے،کونسل نے20سال قبل اپنی ذمے داری پوری کردی تھی، اگر اس کے فیصلے کے باوجود ڈیم تعمیرنہیں ہواتویہ وفاقی حکومت کی کوتاہی ہے۔
اگرسندھ طاس معاہدے میں یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنیوالے3دریائوں سندھ، جہلم اور چناب پر بھارت کاکوئی حق نہیں تو پھر دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کس طرح بن رہاہے؟ عالمی قانون کے مطابق اگر دریاکے ٹیل (انڈرائپیرئن)پررہنے والے پانی ضائع کریں تواپر رائپیرئن کو یہ پانی استعمال کرنے کاحق حاصل ہے،1997ء میں ڈیم کی تعمیر کیلیے درخواست دائر کرنے والے عوام دوست پارٹی پاکستان کے چیئرمین انجینئر محمد الیاس بھی پیش ہوئے، انھوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس مولوی انوارالحق انکی درخواست پر2002ء میں کالاباغ ڈیم کی تعمیرکا حکم جاری کرچکے ہیں، اب وہ اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کیلیے توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے۔
درخواست گزاروں کے وکلا نے پلڈاٹ کی رپورٹس پیش کیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بہت اہم رپورٹس ہیں، ان میں دوسرے صوبوں کے خدشات اوراعتراضات شامل ہیں جو صرف بداعتمادی ہے، درخواست گزارکے وکیل اے کے ڈوگر نے کہاکہ1991ء میں مشترکہ مفادات کونسل ڈیم کی تعمیرکی منظوری دے چکی ہے اوراس نے متفقہ قرارداد میں لکھاہے کہ اس فیصلے کوسیاسی نہ بنایا جائے، اس پر چاروں وزرائے اعلیٰ کے دستخط بھی ہیں، عدالت معاملہ وزیراعظم کوحکم دے کہ وہ ڈیم تعمیرکریں، چیف جسٹس نے کہاکہ1991ء میں مشترکہ مفادات کونسل نے منصوبے کی فزیبلٹی بنانے کی ہدایت کی تھی، اس پرچاروں صوبوںنے رضامندی ظاہرکی، اب سندھ اورخیبرپختونخوا کے اعتراضات دورکیے جانا ضروری ہے لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کوسیاسی بنایاجارہاہے۔
مفادعامہ اورانسانی بنیادی حقوق کے فیصلے کوسیاسی نہ بنایا جائے، مشترکہ مفادات کونسل نے21 مارچ1991ء کواپنے فیصلے کومنظوری کیلیے کابینہ ڈویژن کوبھجوادیاتھامگر ابھی تک اس پرعمل نہیں ہوا ،کالاباغ ڈیم کی تعمیر ملکی اور قومی معاملہ ہے ، بادی النظر میں لگتا ہے کہ ابھی تک کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلیے فیزیبلٹی رپورٹ نہیں بنائی جاسکی اور نہ ہی اس پر تکنیکی ا ور معاشی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں،20 سال سے کالاباغ ڈیم منصوبے کو بلاوجہ نظر انداز کیا جارہاہے ،دریں اثنا لاہور ہائیکورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف دائر متفرق درخواست پر وفاقی حکومت اور اوگراکو نوٹس جاری کرتے ہوئے14نومبرتک جواب طلب کر لیا۔