اقتصادی راہداری منصوبہ اختلافات سے بچا جائے

پاک چین اقتصادی راہداری اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے۔


Editorial January 08, 2016
پاک چین اقتصادی راہداری اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، فوٹو؛ فائل

KARACHI: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر وفاقی حکومت اور صوبہ خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان گورنر ہاؤس پشاور میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بدھ کو گورنر ہاؤس پشاور میں اجلاس کے دوران صوبائی حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو راہداری منصوبے کے سلسلے میں بریفنگ دی تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے وفاقی وزیر کی وضاحت کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گورنر خیبر پی کے نے راہداری منصوبے پر صوبے کے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں وفاق اور صوبے کے نمایندے شامل ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے جس سے نہ صرف پورے ملک بلکہ ہمسایہ ممالک کو بھی فائدہ پہنچے گا مگر وفاقی حکومت اور صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کے درمیان اس سلسلے میں پیدا ہونے والے تنازعات حل نہیں ہو رہے ہیں، وفاقی حکومت ہر ممکن طور پر خیبرپختونخوا حکومت کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر خیبرپختونخوا حکومت مطمئن نہیں ہو رہی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے بدھ کو گورنر ہاؤس پشاور میں اجلاس بھی ہوا مگر یہاں بھی معاملات طے نہ پا سکے اور صوبائی حکومت کے تحفظات اپنی جگہ بدستور موجود رہے۔

وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اجلاس میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ 28 مئی کی اے پی سی میں انھیں یقین دلایا گیا تھا کہ مغربی روٹ پر کام سب سے پہلے شروع کیا جائے اور پہلے مکمل ہو گا جب کہ اس کے برعکس پنجاب میں مشرقی روٹ کے منصوبوں کے ٹینڈر بھی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں یقین دہانی کرائی جائے کہ جو منصوبے مشرقی روٹ پر شروع کیے گئے یا کیے جائیں گے وہ خیبرپختونخوا سے گزرنے والے مغربی روٹ پر شروع کیے جائیں۔ جب سے اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز ہوا ہے صوبہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، وفاقی حکومت کئی بار خیبرپختونخوا حکومت کو مطمئن کرنے کی کوشش کر چکی ہے مگر معاملات ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے اور روز بروز اس مسئلے پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں جو تشویشناک امر ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے کو کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔

اس مسئلے پر جتنی جلد ممکن ہو اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کر لینا چاہیے، مخالفت برائے مخالفت کا رویہ اپنانے سے اس کا نقصان کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہو گا لہٰذا اسے کسی طور بھی سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ اقتصادی راہداری منصوبہ پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے گوادر سے کاشغر تک تقریباً تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کو مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے پاکستان میں اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے اور پاکستانی حکومت کی کوشش ہے کہ اس کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے، اقتصادی راہداری جن علاقوں سے گزرے گی وہاں توانائی کے علاوہ صنعتی منصوبے بھی تشکیل دیے جائیں گے۔

جس سے ان علاقوں میں روز گار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے جس سے وہاں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اگر کسی صوبے کو اس منصوبے پر تحفظات ہیں تو اسے مخالفت برائے مخالفت یا احتجاج کا کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا چاہیے جو ایک بہتر اور آئینی راستہ ہے۔ پاکستانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے غیر آئینی راستے اختیار کیے اور جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی ترقی کے بہت سے منصوبے سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کسی بھی مسئلے پر مذاکرات میں اہم بات فریقین کا لچک دار رویہ ہوتا ہے۔

جس سے مسئلے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے اگر کوئی بھی فریق میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہوئے غیر لچک دار اور مخالفانہ رویہ اختیار کرے تو پھر معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں اور ان کے حل ہونے کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں۔ اس لیے وفاقی حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ آخر تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے اور وہ وفاقی حکومت کے موقف کو تسلیم کرنے سے کیوں انکار کر رہی ہے۔ اس مسئلے کو مل بیٹھ کر جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ قومی ترقی کا یہ منصوبہ بلاتاخیر پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں