اگلا عفریت کون ہو گا
اسی القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔
یہ منظر ایسا تھا کہ آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ پوری دنیا کو آگ اور خون میں مبتلا کر کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس طرح کی رسم اور وہ بھی ان لوگوں کی زیر نگرانی جو اس وقت پوری مسلم دنیا میں مسلکی بنیادوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ لبنان کا ٹیلی ویژن دو دسمبر 2015ء کو اس واقعہ کو براہ راست نشر کر رہا تھا۔
القاعدہ کے سیاہ پرچم، جن پر کلمہ طیبہ درج ہے، لہراتے ہوئے القاعدہ کے جنگجو گاڑیوں میں سوار لبنان کے علاقے بکّہ وادی میں داخل ہوئے جن کا استقبال لبنانی حکومت کے نمایندوں نے کیا۔ لبنان کی حکومت اس وقت ایک نئے اتحاد سے وجود پکڑ رہی ہے جو حزب اللہ اور مستقبل تحریک کے حسن نصراللہ اور سعد حریری کے درمیان ہوا ہے۔ القاعدہ کا یہ گروہ شام میں جبۃ النصرہ کہلاتا ہے۔ یہ گروہ 23 جنوری 2012ء کو شام میں قائم ہوا اور نومبر میں اس پر امریکا نے دہشت گرد گروہ کا الزام لگا کر پابندی لگا دی۔
اسے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل، فرانس، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس، ترکی اور ایران نے بھی دہشت گرد گروہ قرار دے رکھا ہے۔ یہ وہی القاعدہ ہے جس کے خلاف جنگ کا اعلان پوری دنیا نے کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کے بعد شروع کر دیا تھا۔ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا نام خوف اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔
اسامہ بن لادن سوڈان گیا تو اس کا وہاں پیچھا کیا گیا، حملے کیے گئے، سب سے بڑی دوائیوں کی فیکٹری اس بات پر تباہ کر دی گئی کہ اسے القاعدہ نے قائم کیا تھا جس سے عوام بنیادی دوائیوں سے بھی محروم ہو گئے۔ اسامہ افغانستان آیا تو اس کے پیچھے گیارہ ستمبر سے پہلے ہی حملے شروع کر دیے گئے۔ بل کلنٹن کے زمانے کا وہ ناکام حملہ کس کو یاد نہیں جس میں میزائل پاکستان کے علاقے خاران میں آ کر گرے۔ بڑے بڑے عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں نے القاعدہ کے خطرے پر کتابیں لکھیں۔ اخبارات کے صفحات سیاہ کیے۔ اس کے بعد گیارہ ستمبر کا واقعہ آ گیا۔
اسی القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان کا امن غارت ہو گیا اور لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ القاعدہ کے پیچھے پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز ہوا جس میں پہلے حملے میں ڈامہ ڈولہ کے مدرسے کے نوے کے قریب بچے مارے گئے۔ کیا زمانہ تھا کہ پرویز مشرف امریکا کا اس قدر وفادار تھا کہ اس نے اعلان کیا کہ یہ حملہ تو پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کیا۔ قبائلی علاقوں میں کارروائیاں بھی چلتی رہیں اور امریکی دباؤ بھی۔ عراق پر بھی حملہ اس الزام پر کیا گیا کہ وہاں القاعدہ منظم ہو رہی ہے۔
پورے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی جس نے اپنے کسی بھی مخالف کو مارنا تھا بس ایک نام کافی تھا۔ یہ القاعدہ کے لوگ ہیں، یہ القاعدہ کو پناہ دیتے ہیں، سہولت کار ہیں اور اس شہر کی پوری آبادی کو جہنم بنا دیا گیا۔ فلوجہ اس کی بدترین مثال ہے۔ گوانتانامو بے القاعدہ کے دہشت گردوں سے بھر دیا گیا۔ عافیہ صدیقی آج بھی امریکی جیلوں میں سزا بھگت رہی ہے۔ القاعدہ کی سب سے فعال اور مضبوط تنظیم جبۃ النصرہ ہے جو شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے۔
اس گروہ کو سب سے پہلے یعنی 30 جنوری 2012ء کو ایران نے دہشت گرد گروہ قرار دیا جب کہ اس کے قیام کو ابھی سات دن ہی ہوئے تھے۔ حزب اللہ نے اس کے ساتھ لبنان کی بکّہ وادی اور شام میں مقابلے کا آغاز کیا۔ یہ آج سے چار سال قبل کی بات ہے جب شام میں عرب بہار کے اثرات کا آغاز ہوا تھا اور ایران نے بشار حکومت کو بچانے کے لیے پاسداران روانہ کیے تھے اور حزب اللہ کے اپنے دستے بشار مخالف لوگوں سے لڑنے کے لیے شام میں اتارے۔
ٹھیک چار سال بعد لبنان کی بکّہ وادی کا یہ منظر سب کے لیے حیران کن تھا۔ القاعدہ کے پرچم گاڑیوں پر لہرا رہے تھے اور نعروں کی گونج میں لبنان کی فوج نے ان کے 29 ساتھیوں کو القاعدہ کے حوالے کیا اور اپنے 16 فوجیوں اور ایک پولیس والے کو ان سے واپس لے لیا جو ان کی قید میں تھے۔ ان 29 القاعدہ کے ساتھیوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔
ان میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی بیٹی اور سابقہ بیوی بھی تھیں جو سرمئی رنگ کا حجاب پہنے ایک گاڑی میں لائی گئیں اور لبنان ٹی وی ان سے گفتگو براہ راست نشر کرتا رہا۔ جیسے ہی قیدی فوجیوں کو جبۃ النصرہ نے رہا کیا تو وہاں موجود رشتے دار خوشی کے آنسوؤں اور نعروں میں ڈوب گئے۔ یہ وادیٔ حمائد کا ارسل شہر تھا۔ ان فوجیوں کو لینے کے لیے لبنان حکومت میں حزب اللہ کا اہم نمایندہ سیکیورٹی ہیڈ جنرل عباس ابراہیم خود آیا ہوا تھا۔
اس کا یہاں آنا وزیراعظم تمام سلام نے اپنے ساتھ اس لیے لازم قرار دیا کہ کل اس رہائی کا الزام حزب اللہ دوسرے گروہوں پر نہ لگا دے۔ جب یہ قافلہ النبوہ شہر پہنچا تو آزاد ہونے والے فوجیوں کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا جہاں عباس ابراہیم نے اسے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ کی فتح قرار دیا۔ اس لیے کہ حسن نصراللہ نے قیدیوں کے اس تبادلے کے لیے بشارالاسد کو مجبور کیا تھا کہ وہ القاعدہ کی قید میں تین خواتین اور نو بچوں کو رہا کر دے تا کہ لبنانی فوجیوں کو واپس لایا جا سکے۔ قیدیوں کی یہ تبدیلی سولہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد وقوع پذیر ہوئی۔
کیا کوئی یہ یقین کر سکتا تھا کہ آج 25 سال کی طویل جنگ اور دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے، لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد القاعدہ کے خلاف مغربی طاقتوں کا رویہ بھی نرم ہے اور وہ جو مشرق وسطیٰ کو جنگ میں جھونک رہے ہیں، انھیں بھی القاعدہ نرم نظر آ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں القاعدہ نرم مزاج بتائی جاتی ہے اور افغانستان میں طالبان کو امن کا ضامن تصور کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ اب دنیا کو ڈرانے اور جنگ میں جھونکنے کے لیے داعش کا ہوّا دکھایا جا رہا ہے۔
سب سے پہلے اس سے تمام عرب ممالک کو خوفزدہ کیا گیا۔ اس کے نظریات موجودہ قومی ریاستوں کے لیے خطرہ قرار دے کر انھیں امریکی چھتری تلے جمع کیا گیا۔ دوسری جانب بشارالاسد کے خلاف جنگ کا بہانہ لے کر ایران، عراق اور شام کو روس کی چھتری کے نیچے کھڑا کر دیا گیا۔کس قدر بددیانت ہوتے ہیں لوگوں کو مسلکی جنگ میں جھونکنے والے کہ دمشق میں تمام حملے جبۃ النصرہ کرتی رہی اور اس کی ذمے داری بھی قبول کرتی رہی۔ انھی حملوں کو بنیاد بنا کر ایران کے لوگ ، حزب اللہ، افغانستان سے اور پاکستان سے گروہ منظم کر کے وہاں بھیجے گئے۔
قبائلی علاقہ جات اور افغانستان میں موجود القاعدہ کے ارکان سب کے سب تو نہیں لیکن اکثر شام چلے گئے۔ یہ لڑائی چار سال سے چل رہی ہے۔ کم از کم پندرہ مختلف گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے داعش وجود میں آئی، اس نے ریاستی حدود کو توڑ کر رکھ دیا۔ ہر ایک کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ اس کے بعد آپ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی یلغار ملاحظہ کریں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکا نے بنائی، کسی نے کہا ابوبکر البغدادی اسرائیلی ہے، کسی نے اس کوشامی وعراقی حکومت سے انتقام کی سیڑھی قرار دیا۔ یورپ کے 24 ملکوں سے باقاعدہ لوگ داعش کے لیے لڑنے جاتے رہے۔
ان کے سوشل میڈیا پر ان کے چہرے، نام سب موجود تھے، وہ پاسپورٹ پر مہریں لگوا کر ایئرپورٹوں سے رخصت ہوئے۔ آج بھی یورپ کے ملکوں میں داعش کے لیے لڑنے کی اپیلیں انٹرنیٹ پر جاری ہوتی ہیں اور لوگ وہاں جاتے ہیں، لیکن وہاں حکمران صرف والدین سے اپیلیں کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اس آگ سے کھیلنے سے روکیں۔ پیرس حملے کے بعد بھی ایک محدود کارروائی کی گئی اور میڈیا کا رخ اسلامی ممالک کی طرف موڑ دیا گیا تا کہ جنگ کے میدان کو گرم کیا جائے۔ گزشتہ چار سال کے سارے حملے، سارے خون، سب دھماکے داعش کے کھاتے میں ڈال کر اسے ہوا بنایا گیا۔
ادھر علاقائی بالادستی کی جنگ شروع ہوئی۔ ایران اور سعودی عرب میدان میں بھی کودے تو روس اپنی بالادستی کے لیے بشارالاسد کے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ سب سے اہم کردار اسرائیل کا بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے روس کا دورہ کیا اور اپنے گزشتہ موقف کو تبدیل کر دیا اور کہا کہ داعش کے خطرے سے نبٹنے کے لیے بشارالاسد کی حکومت قائم رہنی چاہیے۔ اس موقع پر روس نے اسرائیل سے دس آئی اے ای سرچر اور تین ڈرون طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔
اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھنا ہے تو بشارالاسد ضروری، روس کو تیل کی رسد کے لیے بندرگاہ چاہیے تو بشارالاسد ضروری، ایران، عراق اور حزب اللہ کو اپنی بالا دستی کے لیے بشارالاسد ضروری ہے۔ ادھر سعودی عرب کو 34 دیگر ممالک کو داعش سے بھی لڑایا جا رہا ہے اور بشارالاسد سے بھی۔ ایک خون کی ہولی کھیلی جانے والی ہے۔
لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر، ان دانشوروں پر، ان حکمرانوں پر، جن کے سامنے 25سال تک القاعدہ ایک بدترین عفریت بنائی گئی اور لاکھوں لوگ مروائے گئے۔ اب وہی القاعدہ صلح جو اور نسبتاً معتدل پسند سمجھی جا رہی ہے اور داعش خوفناک عفریت ہے۔ داعش سے لڑنے کے بعد اگلا عفریت، اگلی خوفناک تنظیم، اگلا دہشت گرد کون ہو گا اور وہ مزید کتنا خوفناک ہو گا۔ سوچتا ہوں تو اس امت کے ہر حکمران کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔