یہ پڑھے لکھے لوگ
میں نے جب بھی دنیا کے قوموں کی تاریخ پڑھی ہے، وہ قومیں جنہوں نے اپنے حالات کا تجزیہ کرکے تعلیم میں ہاتھ ڈالا
میں نے جب بھی دنیا کے قوموں کی تاریخ پڑھی ہے، وہ قومیں جنہوں نے اپنے حالات کا تجزیہ کرکے تعلیم میں ہاتھ ڈالا، جس کے نتیجے میں انھیں عام شعور حاصل ہوا کہ کس مسئلے کا ادراک کس طرح کرنا چاہیے، تو ان قوموں نے ترقی کے زینے طے کیے۔ اس سلسلے میں یورپ کی مثال دی جاسکتی ہے، جہاں پہلے چرچ کا اثر و رسوخ حکومت پر چلتا تھا، گلیلیو جیسے سائنسدان کو بھی ملک بدر کردیا گیا۔ لیکن پھر زوال کے بعد یورپ جاگ اٹھا، علم، ادب، آرٹ، سائنس ٹیکنالوجی میں منزلیں طے کرتا گیا۔
آج ہم جیسی قومیں ان کی محتاج بنی ہوئی ہیں اوردوسروں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے ڈگری یافتہ لوگ موجود ہیں۔ جہاں اور جس ادارے پر انگلی رکھو، بیچلرز یا ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ لیکن اگر کوئی ٹی وی چینل یا کوئی اینکر اپنے ''مفادات'' کے تحت کسی بھی مسئلے پر رائے دیتا ہے تو وہ سب کی رائے بن جاتی ہے، بغیرکسی سوچ، سمجھ اور تجزیہ کے اور وہ ہر مسئلے کی جڑ یا حل اسے سمجھتے ہیں، جو کسی اینکر نے فارمولا دیا ہوتا ہے۔ یوں یہ رائے پڑھے لکھے لوگوں سے عام لوگوں تک پہنچ کر ایک '' قومی Narrative بن جاتا ہے۔ یوں یہ ہماری بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ ہم اپنا مستقبل بھی اسی رخ میں طے کرتے ہیں۔
''پینٹڈ برڈ'' ناول کے پولش لکھاری جرزی کوزنسکی کی زبان میں ہم ''ٹی وی بیبیز'' بن جاتے ہیں اور ہمارے دماغ کیپچر ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً اجتمائی سوچ مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ باقی کوتو چھوڑیں، ہمارے شعبہ تعلیم کو لے لیں، جہاں ٹیچرز کا کام کچے ذہنوں کو علم و شعور کی راہ پر لانا ہے، تاکہ مستقبل میں ملک کے اچھے شہری بن سکیں اور ملکی مسائل بہتر طریقے سے حل کرسکیں۔ لیکن تعلیمی اداروں میں جو مناظر نظر آتے ہیں، وہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، علم روٹھ کر ہوا میں اڑ جاتا ہے اور عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔
ایک ٹیچر، جو اسکول، کالج یا یونیورسٹی کا کیوں نہ ہو، اس کے باتوں اور رویوں سے پتہ چلنا چاہیے کہ وہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے۔ جب وہ آپس میں مل کر بیٹھے تو ان کو کتابوں، انسانی مسائل اور علم کی باتیں کرنی چاہیے، انھیں ملکی تاریخ، اقتصادیات، سماجیات وسیاست کا تجزیہ کرکے کوئی مثبت رائے یا حل دینا چاہیے تاکہ وہ سماج میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے یا ملکی مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکے۔ مان لیا کہ ہمارا نظام اتنا بہتر نہیں جو کوئی اس باتوں کے لیے ساز گار حالات پیدا کرسکے، پھر بھی ان کومہذب تو رہنا چاہیے تاکہ اور بھی ان کے نقش قدم پر چل سکیں۔
پچھلے وقتوں میں جب ہمارے معاشرے میں اگر دو چار مل کر ایک دوسرے سے مذاق بھی کرتے تھے تو اس میں طنز کے بجائے لوک دانش باتوں سے جھلکتی تھی۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیچرز حضرات بھی گپ شپ کا موضوع کسی علم و ادب نہ مذہب کو بناتے ہیں، یہاں تو رات کو کسی ٹی وی چینل پر چلنے والے پروگرام کے حوالے دے کر باقی کے سر میں مارے جاتے ہیں، یا قدیم خارج باتوں، نسلی اور قبائلی تضادات، ذاتی عناد، گھسی پٹی غیر مہذب باتیں کی جاتی ہیں، زوردار قہقہے لگائے جاتے ہیں۔ ابھی کوئی یہ بھی بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ فلاں موضوع یا سوال کو کس طرح بچوں کو سمجھایا جاتا ہے۔
اس کا بچے کی روزمرہ کی زندگی سے کیا تعلق بنتا ہے یا کوئی بہتر تکنیکس استعمال کرکے اس کو بہتر طریقے سے بچوں کو ڈلیور کیا جاسکتا ہے، یقیناً تعلیمی ادارے اور ٹیچرز ہمارے معاشرے کے امام ہوتے ہیں جن کا کام قوم کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، جو بہتر معاشرے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ان اداروں کی باتیںسن کر سولہویں صدی کا قبائلی اور جاگیردارانہ ماحول نظر آتا ہے۔
میرے خیال میں اس سے زیادہ بڑی سزا اس ملک کو اور کیا دی جاسکتی ہے۔ یہاں تو جو دانشوری کے دعویدار ہیں یا جو بظاہر لبرل معاشرے اور نظام کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، عملی طور پر وہ اسی جاگیردارانہ اور قبائلی سماج کے پیروکار ہوتے ہیں۔ ایسی انٹلیکچوئل Snobbery کو کیا کہا جائے؟ قوم کو ایسے دانشوروں سے کوئی مثبت توقع رکھنا دن کے خواب دیکھنے کے برابر ہے۔