فطرت اور انسان دوست سواری
خاموش ٹھنڈی رات تھی ، میں ہوا میں معلق کشادہ ،خالی سڑک پر سمندر کی جانب اُڑا چلا جا رہا تھا۔
خاموش ٹھنڈی رات تھی ، میں ہوا میں معلق کشادہ ،خالی سڑک پر سمندر کی جانب اُڑا چلا جا رہا تھا۔ سر پر حدِ نگاہ کھلا آسمان ، اس میں طلوع ہوتا خوبصورت پیلا چاند، دائیں بائیں بنے نئے پرانے بنگلے، ان کے باہر لگے درختوں کی ہوا سے جھولتی شاخیں اورہریالی دھیرے دھیرے مجھ سے پیچھے جا رہے تھے۔ میں مسرورکن کیفیت میں انھیں دیکھتا ہوا بغیر کسی آواز کے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
اگرچہ میں ان مقامات سے گاڑی میں کئی بارگزر چکا تھا مگر اس سے پہلے میں نے ان مناظر کو اتنے قریب اور تفصیل سے کبھی نہ دیکھا تھا۔میں بس وہاں سے تیزی سے گزر جایا کرتا، لیکن اس رات مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میرے اوران کے درمیان فاصلہ کم ہوگیاہو، جیسے ان تمام جزیات اس خالی سڑک، زمین وآسمان، درختوں، راہگیروں اور میرے بیچ سے کوئی رکاوٹ ہٹ گئی ہو، چند لمحوں میں اس چوراہے تک پہنچ گیا جہاں اس سے پہلے کبھی کسی گاڑی اور آواز کے بغیر نہ پہنچا تھا۔
مگراس رات کسی انجن کی آواز تھی نہ ہی میں کسی گاڑی کی چار دیواری میں قید تھا۔ میں کھلی فضاؤں میںفقط اپنی دو باریک ٹائروں والی خاموش سائیکل پر سوار خود کو اُڑتا ہوا محسوس کر رہاتھا۔ ڈھلان کی وجہ سے میری سائیکل ٹھنڈی ہواکے جھونکوں میں خود بہ خود چلی جا رہی تھی، میں خوشگوار احساس کے ساتھ ارد گرد دیکھتا، بھر پورآکسیجن میں سانس لیتا خود کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا جیسا پہلے کسی دوسری سواری میں محسوس نہ کیا تھا۔
بچپن میں سائیکل چلانے کے تقریباً 35 سال بعد میں اب دوبارہ سائیکلنگ کے تجربے سے گزر رہاتھا جو نہایت خوشگوار اور فطرت سے قریب تر ثابت ہوا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے فطرت نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔ چاروں طرف کسی آڑ کے بغیر کھلے نظارے، ہر طرف بکھری نم ہوا ، چاندنی اور سبزے کی مہک۔ میں اطمینان سے جس طرف چاہتا جی بھرکے دیکھتا، کوئی مجھے پیچھے سے ہارن بجا کر گاڑی تیزی سے چلانے پر مجبور نہ کرتا۔
دوبارہ سائیکلنگ شروع کیے مجھے اب تین سال گزرچکے ہیں۔ میں نے دراصل اس کا آغاز صرف صبح ساحل سمندر تک جانے کے لیے کیا تھا جو میرے گھر سے دوکلومیٹر کے فاصلے پر تھا، لیکن آہستہ آہستہ اس کے دیگر فوائد اور دلکشی نے مجھے مزید اس کی جانب مائل کر دیا۔میں حیران ہو گیاکہ فقط چند ہزار روپے کی معمولی سی سواری کے اس قدر مثبت اثرات۔ مجھ پر انکشاف ہوا کہ سائیکلنگ صرف جسم کے لیے ہی نہیں ذہن اور روح کے لیے بھی مفید ہے۔
یہ گاڑی ،موٹر سائیکل کی طرح اعصاب اور جیب پر بوجھ بھی نہیں ڈالتی، انسان کو آزادی و بے فکری عطا کرتی ہے۔جب جہاں چاہیں بغیر کسی رکاوٹ اور خرچے کے بے دھڑک پہنچ جائیں۔ لہٰذا جلد ہی میں اس کا مداح ہو گیااور چھوٹے موٹے کاموںاور فاصلوں کے لیے اسے استعمال کرنے لگا جس کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ تندرست ، چست اور خوش رہنے لگا۔ سائیکلنگ فطرت سے قریب تر ہونے کی وجہ سے روحانیت میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے۔
میں نے بطور ٹرانسپورٹ بھی سائیکل کو بہترین سواری پایا۔ اس کے ذریعے دور تک کا فاصلہ بھی پیدل چلنے کے مقابلے میں چار گنا تیزی سے طے کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک امریکا،برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، جاپان وغیرہ سائیکل کے حوالے سے ان حقائق کا ادراک کئی سال پہلے ہی کر چکے تھے اس لیے وہاں سائیکل کے استعمال میں گزشتہ پندرہ برسوں میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔
لندن میں سائیکل کی افادیت کے پیش ِ نظر وہاں کے پہلے میئر لوونگ اسٹون نے2000 میں آتے ہی شہر میں سائیکل کلچر کے فروغ کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ اس نے 2008 سے 2025 تک لندن میں سائیکلنگ کے استعمال میں 400% تک اضافے کا ٹارگٹ سیٹ کیا اور تیزی سے اس پرکام شروع کر دیا۔اس نے ریلوے اور ٹیوبز پر ہزاروں کی تعداد میں سائیکل پارکنگ سہولیات فراہم کیں، ٹرینوں میں سائیکل ساتھ لے جانے کے لیے بھی ریکس مہیا کیے ۔
فولڈنگ سائیکل متعارف کرائی گئیں، 2010 میں سائیکل کے لیے مخصوص' سائیکل سپر ہائی ویز' بنائے گئے، چھ ہزار سائیکل گھنٹے دوگھنٹے کے مختصر وقت کے لیے بھی کرائے پر دستیاب کردیے گئے، 2013 میں ایک بار پھر لندن میں سائیکلنگ کو مزید محفوظ اور آسان بنانے، ماحولیاتی آلودگی اور شہر میں ٹریفک مسائل میں بہتری لانے کے لیے کثیر بجٹ کا اعلان کیاگیا۔شکاگو میں بھی اسی طرح کی سائیکل دوست پالیسیاں مرتب کرکے تیزی سے وہاں سائیکل کلچر کو فروغ دیا گیا۔
صرف لندن اور شکاگو نہیں دنیا کے کئی ترقی یافتہ شہروں برلن، بیجنگ، ٹوکیو، میونخ، ایمسٹر ڈیم، ٹورنٹو سب جگہ سائیکل دوست ماحول بنانے کے لیے بے پناہ کام کیے اور سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہاں لوگوں کی زندگیوں میں تندرستی وسکون کا گراف بلند اورحادثات وماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔سائیکلنگ کے بے شمار فوائد میں سے چند یہ بھی ہیںکہ سائیکلنگ کرنے والا شخص، نہ کرنے والے کے مقابلے میں لمبی عمر پاتاہے، یہ اچانک موت کے خطرات کو چالیس اوردل کے دورے کے امکان کو پچاس فیصد تک گھٹا دیتی ہے ۔
یہ کینسر، شوگر، ڈپریشن کو کنٹرول کرنے کا بھی بہترین طریقہ ہے، یہ پاکٹ فرینڈلی سواری بھی مشہور ہے کیونکہ یہ آپ کی جیب کو کبھی خالی نہیں ہونے دیتی ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے انسان اپنی عمر سے دس سال چھوٹا اور جوان نظر آتاہے۔ کینیڈا کے پی ایچ ڈی نیورو سائنسدان برین، کرسٹی کہتے ہیں '' میں اپنے جسم اور ذہن سے بہترین کارکردگی حاصل کرنے کے لیے ہر روز صبح سائیکلنگ کرتاہواجم جاتا ہوں ، صبح کے بھرپور نظارے، آکسیجن میرے دماغ کو مکمل چارج کرنے کا سبب بنتے ہیں اور جب تک میں اپنے کام پر پہنچتا ہوں میری جسمانی و ذہنی کارکردگی اپنے نقطہ ِ عروج پر ہوتی ہے۔''
بدقسمتی سے ہمارے یہاں ابھی تک اس بارے میں بالکل آگاہی نہیں ، ہم سائیکل کو صرف مالی،چوکیداروں یا غریب طبقے کی سواری سمجھتے ہیں، اس پر کوئی دھیان نہیں دیتے اور نتیجتاًکئی جسمانی و ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میری حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے میئر حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی لندن اور شکاگو کے میئر کی تقلید کرتے ہوئے اپنے شہروں میں آلودگی، ٹریفک اور شور کی پریشان کن، بگڑتی ہوئی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے سائیکل دوست معاشرہ تشکیل دینے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
ابتدائی طور پر چند کشادہ اہم سڑکوں پر سائیکل لین مخصوص کیے جائیں، بازاروں ، دفاتر اور دیگر پبلک مقامات پر سائیکل پارکنگ اسٹینڈ قائم کر دیے جائیں،سائیکل کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے قانون بنائے جائیں۔ سائیکل دوست شہر بنانے کے لیے اس کی بھر پور تشہیر کی جائے اور بتدریج اسے پورے شہر پھیلا دیا جائے۔ یہ قدم یقینا ہمارے شہروں کو شفاف، پُر سکون بنانے اور ٹریفک اور ڈپریشن سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں لوگ اور حکومتیں سائیکلنگ کی افادیت سے آگاہ ہو رہے ہیں میری طرح لازمی اسے اپنی زندگی کا حصہ بناتے جارہے ہیں۔ یقینا ہمارے لیے بھی سائیکلنگ کرنے کا فیصلہ زندگی کے بہترین فیصلوں میں سے ایک ثابت ہو گا، انشااللہ۔