مریخ پرمل گیا پانی
زمین سے پرے زندگی کی تلاش کا ایک اہم سنگ میل
KARACHI:
بیتے سال وہ دن آہی گیا جس کا جانے کب سے انتظار تھا۔ کائنات میں کسی اور سیارے پر زندگی کی کھوج میں مصروف سائنس دانوں اور اس نوید کے منتظر دنیا کے ہر باسی نے یہ خبر بڑے اشتیاق اور جوش کے ساتھ سُنی کہ مریخ پر پانی مل گیا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ماہرین نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے ہاتھ مریخ پر پانی کی موجودگی کے شواہد لگ گئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مریخ کی سطح پر پانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے تو پھر وہاں زندگی بھی ضرور ہوگی اور اس سرخ سیارے پر انسان رہ بھی سکتا ہے۔ ناسا کے ترجمان کے مطابق یہ نئی دریافت اس بات کے ٹھوس شواہد فراہم کررہی ہے کہ مریخ پر پانی وقفوں وقفوں سے بہتا ہے، یعنی یہاں پانی مسلسل نہیں بہتا، بلکہ رک رک کر بہتا ہے۔
ناسا نے اعلان کیا کہ اس کے ماہرین نے ناسا کے Mars Reconnaissance Orbiter (MRO)کے imaging spectrometer کے ذریعے سرخ سیارے کی ڈھلوانوں پر عجیب اور پراسرار سی لائنوں یا دھاریوں کی تصاویر حاصل کرلی ہیں۔ ان میں تاریک لائنیں مدھم بھی پڑجاتی ہیں اور ان کا بہاؤ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف موسموں میں بدل بھی جاتا ہے۔ ان لائنوں کا بہاؤ نیچے کی طرف بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کا تعلق ماضی میں سیال پانی کے بہاؤ سے ہے۔
ماہرین کافی عرصے سے یہ سوچتے چلے آرہے ہیں کہ کسی زمانے میں مریخ پر پانی بھی موجود تھا جو اب منجمد شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ رپورٹ نیویارک ٹائمز نے شائع کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس نئی اسٹیڈی کے ذریعے ہی ماہرین اور محققین اس نتیجے پر پہنچ سکے ہیں کہ انہوں نے مریخ کے مختلف مقامات پر hydrated salts کی علامات کو شناخت کرلیا اور یہی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ مریخ پر کسی نہ کسی قسم کا سیال پانی موجود ہے۔
ناسا ہیڈکوارٹرز میں پلانیٹری سائنس کے ڈائریکٹر جم گرین نے کہا:''جیسا کہ ہم ماضی میں سمجھتے تھے، مریخ کوئی سخت بنجر اور خشک سیارہ نہیں ہے، بل کہ یہاں خاص قسم کے حالات میں سیال پانی پایا گیا ہے۔ یہاں hydrated salts صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب مختلف موسمی حالات وسیع ہوئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو تاریک لائنوں اور دھاریوں نے بہ ذات خود یا ایک پراسس کے تحت جس کی وجہ سے وہ تشکیل پاتی ہیں، یہی چیز اصل میں hydration کا ذریعہ بنی۔''
اٹلانٹا میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے لیڈ اسٹڈی آتھر Lujendra Ojha کا کہنا ہے کہ صورت حال جو بھی ہو، مریخ کی سطح پر پائی جانے والی ان ڈھلوانوں پر hydrated salts کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پانی نے اس لائنوں اور دھاریوں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
ناسا کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں کسی شک کی بات نہیں کہ مریخ پر پانی موجود ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پانی زیرزمین ہے اور کھلی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا۔ ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ ماضی میں کسی وقت اس سرخ سیارے پر ہماری زمین پر پائے جانے والے بحرمنجمد شمالی و جنوبی سے بھی زیادہ بڑے سمندر موجود تھے۔
مگر اب ماہرین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مریخ پر پانی موجود ہے تو اس تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔ خلاء میں تو ویسے بھی ڈھیروں مہلک قسم کے جراثیم موجود ہیں جو خلائی گاڑیوں کے مریخ پر جانے سے ان سے چمٹ جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا مریخ پر پایا جانے والا پانی انسانوں کے لیے قابل استعمال ہوگا؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب فی الوقت کسی بھی ماہر کے پاس نہیں ہے۔ چناںچہ پہلی بات مریخ کی سطح پر پائے جانے والے زیرزمین پانی تک رسائی ہے اور دوسرا اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس پانی کو قابل استعمال کیسے بنایا جائے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارے کرۂ ارض کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کی کمی کا ہے، جس طرح ہماری دنیا میں پینے کا صاف پانی مسلسل کم ہوتا چلا جارہا ہے، اس کے بعد اہل دنیا سخت تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں اور وہ پینے کے صاف پانی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، تاکہ مستقبل میں اس سیال آب حیات کے نئے ذخائر تلاش کرسکیں اور اپنی ضرورت پوری کرسکیں۔
اسی لیے دنیا بھر کے سائنس داں اور ارضیاتی ماہرین کافی عرصے سے یہ معلوم کرنے کی جستجو میں تھے کہ مریخ پر پانی ہے یا نہیں۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اس سرخ سیارے پر پانی تو موجود ہے، مگر اسے تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال چوں کہ انہیں پوری امید تھی کہ مریخ پر پانی ضرور ملے گا، اس لیے وہ اس کی تلاش میں لگے رہے اور اپنے تجربات کرتے رہے۔
بہرحال پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد ان سبھی کو ایسے ٹھوس شواہد مل گئے جن سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ سیال جو زندگی کا لازمی جزو ہے، مریخ کی سطح پر موجود ہے۔ یہ خبر دنیا والوں کے لیے کسی بہت بڑی خوشی سے کم نہیں ہے، مگر ابھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، اس حوالے سے بہت سارے سوالات ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں اور ماہرین ان کے جواب دینے سے فی الحال تو قاصر ہی دکھائی دے رہے ہیں، مگر مریخ پر پانی کی موجودگی کے مصدقہ شواہد نے ان میں ایک نیا عزم اور نیا ولولہ بیدار کردیا ہے۔
ماضی میں ماہرین نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا تھا کہ ماضی میں کسی دور میں اس کی سطح پر دریا، سمندر اور جھیلیں موجود رہی ہوں گی، بلکہ انہوں نے اس کی پوری سطح کو ڈھک رکھا ہوگا، مگر اس کے بعد یہ مائع پانی کہاں چلا گیا؟ اس کے سطح سے غائب ہونے کی وجہ یا وجوہ کیا تھیں اور یہ کہ اب اس پانی کی کتنی مقدار باقی رہ گئی ہے۔ سرخ سیارے مریخ کا تفصیلی اور سائنسی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اس کی ابتدائی تاریخ میں دریا اور سمندر اس کی سطح پر موجود تھے اور روانی کے ساتھ بہتے تھے۔
ان کا اندازہ ہے کہ اربوں سال پہلے مریخ ایک گرم اور گیلا سیارہ ہوگا، جس کے کچھ حصوں میں microbial life یا جرثومی زندگی پائی جاتی ہوگی، لیکن اس سیارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ سائز میں ہماری زمین سے چھوٹا ہے جس کی کشش ثقل بھی ہماری کشش ثقل سے کم ہے اور اس کا ماحول یا ہوا بھی ہلکی اور پتلی ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مائع پانی بخارات کی صورت اختیار کرکے اڑتا گیا تو اس میں سے زیادہ تر پانی خلا میں پہنچ گیا اور بہت کم واپس مریخ کی سطح پر گرگیا۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پانی کہاں چلا گیا اور آج کہاں موجود ہے؟ اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ سیال پانی کسی ڈھلوان یا گرم ڈھلوان سے نکل کر مریخ کی سطح پر بہا ہوگا۔
ماہرین نے جو تصاویر حاصل کی ہیں ان میں مریخ کے شمالی اور جنوبی قطبین کی چوٹیوں پر پانی کے وسیع ذخائر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر موسم گرما میں جب درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ چوٹیاں اس وقت معمولی سی سکڑتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر کا مواد ٹھوس سے گیس کی شکل اختیار کرکے سیدھا اوپر کی طرف اٹھتا ہے۔ لیکن موسم سرما میں جب درجۂ حرارت بہت کم ہوجاتا ہے تو یہ چوٹیاں 45ڈگری تک متوازی ہوجاتی ہیں یا خط استوا سے نصف ہوجاتی ہیں۔
یہ چوٹیاں لگ بھگ دو کلومیٹر موٹی ہیں اور اگر یہ پوری کی پوری پگھل جائیں تو ان کا لگ بھگ 18 فٹ اونچا پانی پورے مریخ کی سطح کو ڈھک لے گا۔ پھر مریخ کی سطح کے نیچے منجمد پانی بھی موجود ہے۔ سائنس دانوں نے کیلی فورنیا اور ٹیکساس کے مشترکہ سائز کی ایک ٹھوس برف کی سل یا سلیب بھی دریافت کی ہے جو خط استوا اور سرخ سیارے کے قطب شمالی کے درمیانی خطے میں موجود ہے۔
یورپین اسپیس ایجنسی کے مارس ایکسپریس نامی خلائی جہاز نے مریخ کی بلند اور زیریں سطح کی ایسی تصاویر بھی کھینچی ہیں، جن میں سردی میں برف کی چادریں بھی دکھائی دے رہی ہیں اور آتش فشانی دہانے بھی جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مناسب حالات اور موسموں میں یہاں سیال پانی بھی جمع ہوسکتا ہے۔
اس سے کافی پہلے مریخ پر پانی کی موجودگی کے شواہد 2000ء میں بھی منظر عام پر آئے تھے۔ اس کی وجہ ان گہری کھائیوں یا دراڑوں کی موجودگی تھی جو ماہرین نے سطح مریخ پر دیکھیں۔ ان کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہاں کبھی نہ کبھی کوئی سیال چیز موجود تھی جس نے یہ منظر تشکیل دیا تھا۔ بعد میں اس پر زبردست اور گرما گرم بحث و مباحثہ ہوا۔
اب ہم بات کرتے ہیں 1971کی جب پہلی بار میرینر 9نامی خلائی جہاز کسی دوسرے سیارے کے مدار میں پہنچا اور اس نے سرخ سیارے کی تصاویر بھی اتاریں۔ یہ تصویریں خشک دریاؤں کی گزرگاہوں یا راستوں کی بھی تھیں اور کچھ تصویروں میں کٹاؤ دار آبی درے اور گھاٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔
یہ اس بات کی ایک ٹھوس اور واضح شہادت تھی کہ کسی زمانے میں مریخ پر پانی بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ Viking orbiters سے بھیجی جانے والی تصاویر نے بھی نہ صرف اس خیال کو تقویت دی، بل کہ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ مریخ پر بہنے والے پانی نے اس کی سطح کو متعدد شکلوں میں بھی تبدیل کیا تھا۔Viking landers سے ملنے والے ڈیٹا سے اس حقیقت کی نشان دہی بھی ہوئی کہ مریخ کی سطح کے نیچے اس کے ابتدائی زمانے میں پانی موجود تھا، مگر اس کے متوقع نتائج نہ مل سکے۔
90کی دہائی کے اوائل میں مریخ مشن نے ڈھیروں معلومات فراہم کیں۔ اس کے لیے ناسا کے تین مصنوعی سیاروں اور یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک سیٹیلائٹ نے مریخ کا بالائی سطح سے مشاہدہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف سرخ سیارے کی سطح کی نقشہ پیمائی کی بل کہ نیچے دکھائی دینے والی معدنیات کا تجزیہ بھی کیا۔
بعض نے معدنیات کا کھوج بھی لگایا اور یہ بھی بتایا کہ یہاں پانی موجود ہے۔ دیگر ڈیٹا سے ماہرین نے یہ اندازہ بھی لگایا کہ اس سیارے کی سطح کے نیچے دوسری پرت کے نیچے اتنا پانی ہے کہ اس سے جھیل مشی گن کو دو بار بھرا جاسکتا ہے۔
انہوں نے وہ شواہد بھی دیکھے جو یہ بتارہے تھے کہ مریخ کی سطح پر گرم پانی کے چشمے بھی ہیں۔ انہوں نے بعض گہرے دہانوں میں منجمد برف کے کچھ حصے بھی دیکھے۔
اس کے علاوہ ان ماہرین نے اپنے سائنسی اور خلائی آلات کی مدد سے مریخ کی سطح پر موجود چٹانوں کے اندرونی حصوں کا جائزہ بھی لیا جن سے معلوم ہوا کہ ان میں معدنیات موجود ہیں اور جو اس سیارے پر پانی کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔
''کیوروسٹی'' نے بھی ایسے ٹھوس ثبوت حاصل کرلیے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ قدیم مریخ پر کسی دور میں پانی بہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ناسا کے سائنس داں مریخ پر سیال پانی کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملنے پر جشن منارہے ہیں، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے سامنے اب اس سے بھی بڑا چیلینج آنے والا ہے اور وہ ہے، سرخ سیارے پر زندگی کی ممکنہ علامات کا کھوج! یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ اگر اس سیارے پر زندگی کی تلاش کی کوششیں کی گئیں تو اس کے باعث زمین سے آنے والے آلودہ جراثیم اس پورے سیارے کو آلودہ کرکے ایک نئے خطرے سے دوچار کردیں گے۔
ناسا کے ایک ماہر جم گرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر شدید قسم کا تاب کاری کا ماحول ہے، خاص طور سے وہاں کی الٹرا وائلٹ شعاعیں ان تمام جراثیم کو مارسکتی ہیں جو کیوروسٹی زمین سے اپنے ساتھ لے گئی ہوگی۔ چناں چہ مریخ کی سطح بالکل صاف ہوگئی ہوگی۔
بیتے سال وہ دن آہی گیا جس کا جانے کب سے انتظار تھا۔ کائنات میں کسی اور سیارے پر زندگی کی کھوج میں مصروف سائنس دانوں اور اس نوید کے منتظر دنیا کے ہر باسی نے یہ خبر بڑے اشتیاق اور جوش کے ساتھ سُنی کہ مریخ پر پانی مل گیا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ماہرین نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے ہاتھ مریخ پر پانی کی موجودگی کے شواہد لگ گئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مریخ کی سطح پر پانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے تو پھر وہاں زندگی بھی ضرور ہوگی اور اس سرخ سیارے پر انسان رہ بھی سکتا ہے۔ ناسا کے ترجمان کے مطابق یہ نئی دریافت اس بات کے ٹھوس شواہد فراہم کررہی ہے کہ مریخ پر پانی وقفوں وقفوں سے بہتا ہے، یعنی یہاں پانی مسلسل نہیں بہتا، بلکہ رک رک کر بہتا ہے۔
ناسا نے اعلان کیا کہ اس کے ماہرین نے ناسا کے Mars Reconnaissance Orbiter (MRO)کے imaging spectrometer کے ذریعے سرخ سیارے کی ڈھلوانوں پر عجیب اور پراسرار سی لائنوں یا دھاریوں کی تصاویر حاصل کرلی ہیں۔ ان میں تاریک لائنیں مدھم بھی پڑجاتی ہیں اور ان کا بہاؤ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف موسموں میں بدل بھی جاتا ہے۔ ان لائنوں کا بہاؤ نیچے کی طرف بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کا تعلق ماضی میں سیال پانی کے بہاؤ سے ہے۔
ماہرین کافی عرصے سے یہ سوچتے چلے آرہے ہیں کہ کسی زمانے میں مریخ پر پانی بھی موجود تھا جو اب منجمد شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ رپورٹ نیویارک ٹائمز نے شائع کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس نئی اسٹیڈی کے ذریعے ہی ماہرین اور محققین اس نتیجے پر پہنچ سکے ہیں کہ انہوں نے مریخ کے مختلف مقامات پر hydrated salts کی علامات کو شناخت کرلیا اور یہی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ مریخ پر کسی نہ کسی قسم کا سیال پانی موجود ہے۔
ناسا ہیڈکوارٹرز میں پلانیٹری سائنس کے ڈائریکٹر جم گرین نے کہا:''جیسا کہ ہم ماضی میں سمجھتے تھے، مریخ کوئی سخت بنجر اور خشک سیارہ نہیں ہے، بل کہ یہاں خاص قسم کے حالات میں سیال پانی پایا گیا ہے۔ یہاں hydrated salts صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب مختلف موسمی حالات وسیع ہوئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو تاریک لائنوں اور دھاریوں نے بہ ذات خود یا ایک پراسس کے تحت جس کی وجہ سے وہ تشکیل پاتی ہیں، یہی چیز اصل میں hydration کا ذریعہ بنی۔''
اٹلانٹا میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے لیڈ اسٹڈی آتھر Lujendra Ojha کا کہنا ہے کہ صورت حال جو بھی ہو، مریخ کی سطح پر پائی جانے والی ان ڈھلوانوں پر hydrated salts کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پانی نے اس لائنوں اور دھاریوں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
ناسا کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں کسی شک کی بات نہیں کہ مریخ پر پانی موجود ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پانی زیرزمین ہے اور کھلی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا۔ ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ ماضی میں کسی وقت اس سرخ سیارے پر ہماری زمین پر پائے جانے والے بحرمنجمد شمالی و جنوبی سے بھی زیادہ بڑے سمندر موجود تھے۔
مگر اب ماہرین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مریخ پر پانی موجود ہے تو اس تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔ خلاء میں تو ویسے بھی ڈھیروں مہلک قسم کے جراثیم موجود ہیں جو خلائی گاڑیوں کے مریخ پر جانے سے ان سے چمٹ جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا مریخ پر پایا جانے والا پانی انسانوں کے لیے قابل استعمال ہوگا؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب فی الوقت کسی بھی ماہر کے پاس نہیں ہے۔ چناںچہ پہلی بات مریخ کی سطح پر پائے جانے والے زیرزمین پانی تک رسائی ہے اور دوسرا اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس پانی کو قابل استعمال کیسے بنایا جائے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارے کرۂ ارض کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کی کمی کا ہے، جس طرح ہماری دنیا میں پینے کا صاف پانی مسلسل کم ہوتا چلا جارہا ہے، اس کے بعد اہل دنیا سخت تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں اور وہ پینے کے صاف پانی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، تاکہ مستقبل میں اس سیال آب حیات کے نئے ذخائر تلاش کرسکیں اور اپنی ضرورت پوری کرسکیں۔
اسی لیے دنیا بھر کے سائنس داں اور ارضیاتی ماہرین کافی عرصے سے یہ معلوم کرنے کی جستجو میں تھے کہ مریخ پر پانی ہے یا نہیں۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اس سرخ سیارے پر پانی تو موجود ہے، مگر اسے تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال چوں کہ انہیں پوری امید تھی کہ مریخ پر پانی ضرور ملے گا، اس لیے وہ اس کی تلاش میں لگے رہے اور اپنے تجربات کرتے رہے۔
بہرحال پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد ان سبھی کو ایسے ٹھوس شواہد مل گئے جن سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ سیال جو زندگی کا لازمی جزو ہے، مریخ کی سطح پر موجود ہے۔ یہ خبر دنیا والوں کے لیے کسی بہت بڑی خوشی سے کم نہیں ہے، مگر ابھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، اس حوالے سے بہت سارے سوالات ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں اور ماہرین ان کے جواب دینے سے فی الحال تو قاصر ہی دکھائی دے رہے ہیں، مگر مریخ پر پانی کی موجودگی کے مصدقہ شواہد نے ان میں ایک نیا عزم اور نیا ولولہ بیدار کردیا ہے۔
ماضی میں ماہرین نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا تھا کہ ماضی میں کسی دور میں اس کی سطح پر دریا، سمندر اور جھیلیں موجود رہی ہوں گی، بلکہ انہوں نے اس کی پوری سطح کو ڈھک رکھا ہوگا، مگر اس کے بعد یہ مائع پانی کہاں چلا گیا؟ اس کے سطح سے غائب ہونے کی وجہ یا وجوہ کیا تھیں اور یہ کہ اب اس پانی کی کتنی مقدار باقی رہ گئی ہے۔ سرخ سیارے مریخ کا تفصیلی اور سائنسی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اس کی ابتدائی تاریخ میں دریا اور سمندر اس کی سطح پر موجود تھے اور روانی کے ساتھ بہتے تھے۔
ان کا اندازہ ہے کہ اربوں سال پہلے مریخ ایک گرم اور گیلا سیارہ ہوگا، جس کے کچھ حصوں میں microbial life یا جرثومی زندگی پائی جاتی ہوگی، لیکن اس سیارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ سائز میں ہماری زمین سے چھوٹا ہے جس کی کشش ثقل بھی ہماری کشش ثقل سے کم ہے اور اس کا ماحول یا ہوا بھی ہلکی اور پتلی ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مائع پانی بخارات کی صورت اختیار کرکے اڑتا گیا تو اس میں سے زیادہ تر پانی خلا میں پہنچ گیا اور بہت کم واپس مریخ کی سطح پر گرگیا۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پانی کہاں چلا گیا اور آج کہاں موجود ہے؟ اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ سیال پانی کسی ڈھلوان یا گرم ڈھلوان سے نکل کر مریخ کی سطح پر بہا ہوگا۔
ماہرین نے جو تصاویر حاصل کی ہیں ان میں مریخ کے شمالی اور جنوبی قطبین کی چوٹیوں پر پانی کے وسیع ذخائر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر موسم گرما میں جب درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ چوٹیاں اس وقت معمولی سی سکڑتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر کا مواد ٹھوس سے گیس کی شکل اختیار کرکے سیدھا اوپر کی طرف اٹھتا ہے۔ لیکن موسم سرما میں جب درجۂ حرارت بہت کم ہوجاتا ہے تو یہ چوٹیاں 45ڈگری تک متوازی ہوجاتی ہیں یا خط استوا سے نصف ہوجاتی ہیں۔
یہ چوٹیاں لگ بھگ دو کلومیٹر موٹی ہیں اور اگر یہ پوری کی پوری پگھل جائیں تو ان کا لگ بھگ 18 فٹ اونچا پانی پورے مریخ کی سطح کو ڈھک لے گا۔ پھر مریخ کی سطح کے نیچے منجمد پانی بھی موجود ہے۔ سائنس دانوں نے کیلی فورنیا اور ٹیکساس کے مشترکہ سائز کی ایک ٹھوس برف کی سل یا سلیب بھی دریافت کی ہے جو خط استوا اور سرخ سیارے کے قطب شمالی کے درمیانی خطے میں موجود ہے۔
یورپین اسپیس ایجنسی کے مارس ایکسپریس نامی خلائی جہاز نے مریخ کی بلند اور زیریں سطح کی ایسی تصاویر بھی کھینچی ہیں، جن میں سردی میں برف کی چادریں بھی دکھائی دے رہی ہیں اور آتش فشانی دہانے بھی جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مناسب حالات اور موسموں میں یہاں سیال پانی بھی جمع ہوسکتا ہے۔
اس سے کافی پہلے مریخ پر پانی کی موجودگی کے شواہد 2000ء میں بھی منظر عام پر آئے تھے۔ اس کی وجہ ان گہری کھائیوں یا دراڑوں کی موجودگی تھی جو ماہرین نے سطح مریخ پر دیکھیں۔ ان کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہاں کبھی نہ کبھی کوئی سیال چیز موجود تھی جس نے یہ منظر تشکیل دیا تھا۔ بعد میں اس پر زبردست اور گرما گرم بحث و مباحثہ ہوا۔
اب ہم بات کرتے ہیں 1971کی جب پہلی بار میرینر 9نامی خلائی جہاز کسی دوسرے سیارے کے مدار میں پہنچا اور اس نے سرخ سیارے کی تصاویر بھی اتاریں۔ یہ تصویریں خشک دریاؤں کی گزرگاہوں یا راستوں کی بھی تھیں اور کچھ تصویروں میں کٹاؤ دار آبی درے اور گھاٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔
یہ اس بات کی ایک ٹھوس اور واضح شہادت تھی کہ کسی زمانے میں مریخ پر پانی بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ Viking orbiters سے بھیجی جانے والی تصاویر نے بھی نہ صرف اس خیال کو تقویت دی، بل کہ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ مریخ پر بہنے والے پانی نے اس کی سطح کو متعدد شکلوں میں بھی تبدیل کیا تھا۔Viking landers سے ملنے والے ڈیٹا سے اس حقیقت کی نشان دہی بھی ہوئی کہ مریخ کی سطح کے نیچے اس کے ابتدائی زمانے میں پانی موجود تھا، مگر اس کے متوقع نتائج نہ مل سکے۔
90کی دہائی کے اوائل میں مریخ مشن نے ڈھیروں معلومات فراہم کیں۔ اس کے لیے ناسا کے تین مصنوعی سیاروں اور یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک سیٹیلائٹ نے مریخ کا بالائی سطح سے مشاہدہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف سرخ سیارے کی سطح کی نقشہ پیمائی کی بل کہ نیچے دکھائی دینے والی معدنیات کا تجزیہ بھی کیا۔
بعض نے معدنیات کا کھوج بھی لگایا اور یہ بھی بتایا کہ یہاں پانی موجود ہے۔ دیگر ڈیٹا سے ماہرین نے یہ اندازہ بھی لگایا کہ اس سیارے کی سطح کے نیچے دوسری پرت کے نیچے اتنا پانی ہے کہ اس سے جھیل مشی گن کو دو بار بھرا جاسکتا ہے۔
انہوں نے وہ شواہد بھی دیکھے جو یہ بتارہے تھے کہ مریخ کی سطح پر گرم پانی کے چشمے بھی ہیں۔ انہوں نے بعض گہرے دہانوں میں منجمد برف کے کچھ حصے بھی دیکھے۔
اس کے علاوہ ان ماہرین نے اپنے سائنسی اور خلائی آلات کی مدد سے مریخ کی سطح پر موجود چٹانوں کے اندرونی حصوں کا جائزہ بھی لیا جن سے معلوم ہوا کہ ان میں معدنیات موجود ہیں اور جو اس سیارے پر پانی کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔
''کیوروسٹی'' نے بھی ایسے ٹھوس ثبوت حاصل کرلیے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ قدیم مریخ پر کسی دور میں پانی بہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ناسا کے سائنس داں مریخ پر سیال پانی کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملنے پر جشن منارہے ہیں، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے سامنے اب اس سے بھی بڑا چیلینج آنے والا ہے اور وہ ہے، سرخ سیارے پر زندگی کی ممکنہ علامات کا کھوج! یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ اگر اس سیارے پر زندگی کی تلاش کی کوششیں کی گئیں تو اس کے باعث زمین سے آنے والے آلودہ جراثیم اس پورے سیارے کو آلودہ کرکے ایک نئے خطرے سے دوچار کردیں گے۔
ناسا کے ایک ماہر جم گرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر شدید قسم کا تاب کاری کا ماحول ہے، خاص طور سے وہاں کی الٹرا وائلٹ شعاعیں ان تمام جراثیم کو مارسکتی ہیں جو کیوروسٹی زمین سے اپنے ساتھ لے گئی ہوگی۔ چناں چہ مریخ کی سطح بالکل صاف ہوگئی ہوگی۔