2015ء شوبز کیلئے اوسط درجے کا سال رہا
فلم اور سینما میں بہتری آئی‘ میوزک‘ تھیٹر اور رقص کے شعبے مسائل سے دوچار رہے
MIRPUR:
سال 2015ء کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ سال بھی پہلے برسوں کی طرح بہت سی خوشیاں اورتلخ یادیں ہماری زندگی سے وابستہ کرتے ہوئے آخرکار بیت گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرح شوبز سے وابستہ تمام شعبوں کے فنکاروں اور تکنیک کاروں نے اس برس بہت سی کامیابی حاصل کیں اوربہت سی ناکامیوں کے باعث انہیں اپنی غلطیاں سدھارنے اوران سے سیکھنے کا نادرموقع بھی ملا۔ پاکستان میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں فلم، ٹی وی، تھیٹر، فیشن، میوزک ، رقص سمیت دیگرسے وابستہ افراد نے ہمیشہ کی طرح اس برس میں بہت سے ایسے کارنامے انجام دیئے جس پرپوری قوم کوفخر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ واقعات ایسے بھی رونما ہوئے جوبہت تلخ تھے۔ بہت سے فنکاراس دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ بہت سے فنکارحادثہ کا شکارہوئے۔
اسی طرح بہت سے فنکاروں نے فلمی دنیا میں انٹری دی توبہت سے فنکارپروڈکشن کے میدان میں کامیاب رہے۔ بہت سی بھارتی فلمیں پاکستانی سینما گھروں میں فلاپ رہیں جبکہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ناروا سلوک پردنیا بھرمیں تنقید ہوئی۔ بھارتی فنکاروں نے پاکستان میں پرفارم کیا جبکہ پاکستانی فنکاروں کوبھارت میں پرفارم کرنے سے ہی روک دیا گیا۔
فیشن کے رنگ سال بھربکھرتے رہے جبکہ میوزک کی دنیا میں نام بنانے والے فنکاروں نے حالات کی مجبوری کے باعث دیارغیر میں سچے سروں کا پرچارکیا۔ پرائیویٹ پروڈکشن ہاؤسز کے ڈرامے بھارت میں مقبول عام ہوئے جبکہ بہت سے پروڈکشن ہاؤسز نے فلمسازی کے شعبے میں قدم رکھا دیا۔ سٹیج ڈراموں کا کاروبارماضی کے مقابلے میں ایوریج رہا اوراداکارہ نرگس کی تھیٹرپرواپسی سے پروڈیوسروںکوکچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔
اگرمجموعی طورپردیکھا جائے تو سال 2015ء پاکستان فلموں اورسینما انڈسٹری کے لئے کسی حد تک بہت بہتررہا ، اس میں قومی زبان اردو کی 20، پنجابی کی پانچ پشتو کی17اور بولی وڈ کی 32 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ یکم جنوری کو اردو فلم ''گڈمارننگ کراچی'' ریلیز ہوئی جس میںمعروف ماڈل آمنہ الیاس نے مرکزی کردار نبھایا جن کی ''زندہ بھاگ'' کے بعد یہ دوسری فلم تھی۔ ان کے علاوہ فلم کی کاسٹ میں صبا حمید ، سویرا ندیم ، فرحان علی آغا ، آمنہ شیخ شامل تھیں ۔
9جنوری کو بولی وڈ فلم 'تیور '' ، 16جنوری ''الون'' ، 23جنوری کوہدایتکارہ سنگیتا کی '' لاہوریا تے پشاوریا '' سینماؤں کی زینت بنی۔ جس میں اربازخان اور شان نے مرکزی کردار نبھائے تھے۔ اس فلم کے بارے میں قیاس آرائیاں تھیں کہ یہ سنگیتا کی پرانی فلم تھی جس کو نئے نام کے ساتھ دوبارہ نمائش کیا گیا ، مگراس فلم کو خاطرخواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔
اسی روز بولی وڈ فلم ''ڈولی کی ڈولی'' بھی نمائش ہوئی۔ چھ فروری کو امیتابھ بچن کی فلم '' شمیتاب '' ریلیزہوئی ۔ 13 فروری کو رنبیر کپور اور ارجن رام پال کی '' رائے '' آئی مگر فلم بینوں کی توجہ حاصل نہ کرسکی ۔ 20فروری کو نواز الدین صدیقی اور ورون دھون کی ''بدلہ پور'' ایکشن تھرل ریلیز کی گئی اس کو کافی اچھا رسپانس ملا ۔ چھ مارچ کو اداکارہ زارا شیخ اور میرا کی فلم ''دیوداس'' کراچی میں ریلیز کی گئی جس میں پروڈیوسر ندیم شاہ نے ان اداکاراؤں کے مقابل مرکزی کردار نبھایا تھا ۔
20مارچ کو پاکستانی ایکشن تھرل فلم ''جلیبی'' ریلیز ہوئی جس میں دانش تیمور ، ژالے سرحدی ، ساجد حسن ، علی سفینہ فنکاروں پرمشتمل تھی ۔ اس میں ژالے سرحدی کا ایک آئٹم سانگ بھی شامل تھا ، مگر باکس آفس پراس کا جادونہ چل سکا۔ دس اپریل کو فاروق ضمیر اور حبیب کی اردوفلم '' ٹیچر '' لاہور کے میٹروپول سینما میں نمائش ہوئی ۔ یہ فلم محمد پرویزساجد کی ٹیلی فلم تھی جس کوسینما سکوپ کرکے ریلیزکیا گیا ، فلم بینوں نے اس کو بری طرح مسترد کردیا جبکہ فاروق ضمیراور حبیب کے چند ایک ہی سین تھے۔
اسی روز بولی وڈ اداکارہ سنی لیون کی '' ایک پہیلی لیلیٰ '' سینماؤں پرپیش کی گئی۔ 17اپریل کوعمران ہاشمی کی سائنس فکشن فلم ''مسٹر ایکس'' آئی ۔ نئی کاسٹ کے ساتھ بنائی گئی پنجابی فلم '' گجر پورے دناں دا '' 24 اپریل کوریلیز ہوئی، یہ فلم بھی سکرپٹ ، پروڈکشن اور ڈائریکشن سمیت ہرلحاظ سے ناکام ثابت ہوئی ۔
یکم مئی کو اکشے کمار کی ''گبرازبیک'' ،آٹھ مئی کو ''کچھ کچھ لوچا ہے'' ، ''پیکو'' ، 15مئی ''ممبئی ویلوٹ '' 22 مئی کو '' تنوویڈزمنو ریٹرن '' اورآسکرایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی اینی میٹیڈ فلم ''تین بہادر'' ریلیزہوئی یہ پاکستان کی پہلی اینمیٹڈ فلم تھی جس کو بچوں سمیت ہر عمر کے لوگوں نے پسند کیا ۔ پانچ جون '' دل دھڑکنے دو '' 12 جون کو '' ہماری ادھوری کہانی '' اور جواد بشیر کی بطور ڈائریکٹر پہلی ہارر فلم ''مایا'' اور 19جون کو ''اے بی سی ڈی پارٹ ٹو'' کی نمائش ہوئیں۔
جواد بشیر کی فلم ''مایا'' فلم بینوں کی توجہ حاصل نہ کرسکی ۔ تین جولائی کو '' گڈو رنگیلا '' ، دس جولائی کو تیلگو فلم '' بہو بلی '' کا ہندی ورژن جس کا پارٹ ٹونئے سال ماہ جنوری میں ریلیز ہوگا ۔ عیدالفطر پر ''گنہگار'' ، ''بازار '' ، ''رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں '' ، '' بن روئے '' ، ''رانگ نمبر'' جبکہ نو پشتو فلمیں '' آئی لو یو ٹو'' ، ''داغ'' ، '' زوئے دا بد عملہ'' ، ''دا بدمعاشا نو بدمعاش'' ،''ما چہرہ غریب سارہ'' ، ''خاندانی بدمعاش'' ، ''پختون پہ دبئی کے'' ، ''سر تیز بدمعاش'' ، ''ماہین کو لیونی وی'' اور ایک بھارتی فلم ''بجرنگی بھائی جان ''سینماؤں کی زینت بنی ۔
ایک عرصہ بعد اتنی تعداد میں پشتو فلمیں عیدالفطر کے موقع پر ریلیز ہوئیںاور تمام فلموں نے اچھا بزنس کیا جبکہ پاکستانی فلم ''رانگ نمبر'' اور ''بن روئے '' نے بھارتی فلم ''بجرنگی بھائی جان '' کو ٹف ٹائم دیا ۔ مگربھارتی فلم ''بجرنگی بھائی جان'' میں پاکستانی صحافی چاند نواز کا کرداربہت پسند کیا گیا جس کوبخوبی اداکارنوازالدین صدیقی نے نبھایا اورخوب داد سمیٹی۔ 31جولائی کو ایک پاکستانی فلم '' کراچی سے لاہور'' اور بھارتی فلم ''درشیم '' سینماؤں کی زینت بنی۔ چودہ اگست کو تین پاکستانی فلمیں ''مور '' ، ''دیکھ مگر پیار سے '' ، ''شاہ '' کے مقابل ایک بھارتی فلم ''برادرز'' ریلیز ہوئی ۔
21 اگست کو ''آل از ویل'' ، چارستمبر کو ''ویلکم بیک '' ، گیارہ ستمبر کو تین پاکستانی فلمیں ''کسک''، ''منٹو'' ، ''سوارنگی '' اور ایک بھارتی فلم ''ہیرو '' 18ستمبر کو ''کٹی بٹی '' اور25ستمبر عیدالضحیٰ کے موقع پر پانچ پشتو '' زوئے دا شرابی'' ، ''اقرار '' ، ''ملنگ پہ دعا رنگ''، ''بدنام '' ، ''تیزاب '' دو اردو ''جوانی پھر نہیں آنی'' ، ''ہلہ گلہ '' دو پنجابی ''سوہنا گجر '' ، ''سیمی راول '' اور ایک بھارتی فلم ''کس کس کو پیار کروں '' نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔
دو اکتوبر کو '' سنگھ از بلنگ'' ، ''تلوار '' ، نو اکتوبر '' جذبہ '' ، 22اکتوبر ''شاندار'' ، 27 نومبر ''تماشا'' اور 18دسمبر کو ''باجی راؤ مستانی'' اور ''دل والے'' ریلیز ہوئی ۔
سال رواں میں ''بے بی '' ،''ویلکم ٹو کراچی '' ، ''بنگستان'' اور ''فینٹم '' کو نمائش کے لئے غیرموزوں قرار دیتے ہوئے بین کردیا گیا تھا ۔سال رواں میں اداکار ہمایوں سعید ، دانش تیمور، ماہرہ خان، سوہا ئے علی آبڑو اورجاوید شیخ مصروف ترین اداکاررہے جن کی ایک سے زائد فلمیں نمائش ہوئیں جبکہ حمائمہ ملک اور ژالے سرحدی کی ایک ایک فلم سینماؤں کی زینت بنی ۔
اداکارشان نے بطور ہدایتکار فلم ''ارتھ ٹو'' کی شوٹنگ کا آغاز کردیا ہے جبکہ معمر رانا نے بطور ڈائریکٹر ''سکندر'' اوراداکارہ نور نے ''عشق پوزیٹو''کے ذریعے نئی اننگز شروع کرچکے ہیں ۔ دوسری جانب ویڈیوڈائریکٹرجامی کی فلم ''مور'' آسکر ایوارڈ کی دوڑ سے آوٹ ہوگئی ، اداکارہ میرا بھی سال بھرسکینڈلز کی زد میں رہی۔ اداکارہ نرگس نے تین سال کے وقفے کے بعد شالیمار تھیٹر میں ''ویلکم نرگس'' کے ذریعے دھماکے دارانٹری دی۔
مگرانہیں وہ رسپانس نہ مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سٹیج کی دنیا میں باری تھیٹر آڈیٹوریم کے نام سے ایک پرائیویٹ تھیٹر کا اضافہ ہوگیا۔ ہدایتکارہ سنگیتا نے بھی دانش تیمور ، قرۃ العین عینی اور متیرا کو لے کرفلم ''تم ہی تو ہو'' بنا رہی ہیں جبکہ معروف ڈریس ڈیزائنر نجیبہ بی جی بھی دوبارہ سے فلموں کے لئے ڈریسز ڈیزائن کرنے لگی ہیں۔ ہدایتکار اقبال کشمیری ''سارے چور'' ، ناصر ادیب ''بریکنگ نیوز'' کے نام سے فلمیں بنانے کا اعلان کیا ، ان دونوں میں سے ابھی تک کوئی فلم سیٹ کی زینت نہیں بن سکی ۔
سال بھر میں بھارتی فنکار پاکستان یاترا کیلئے آتے رہے ۔ ان میں قابل ذکر اداکار نصیر الدین شاہ ، اوم پوری اور ہدایتکار مدھر بھنڈارکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ فنکارپاکستان آئے لیکن ان فنکاروں کویہاں زیادہ پذیرائی ملی اوران کے اعزاز میں باقاعدہ تقریبات کا انعقاد بھی کیاگیا۔
پاکستان فیش انڈسٹری سے وابستہ معروف ڈیزائنر سال بھراپنے تیارکردہ موسمی اوررسمی ملبوسات کی جدید ورائٹی متعارف کرواتے رہے۔ فیشن ورلڈ میں جس طرح سے نوجوان ڈیزائنرز نے شاندارانٹری دی، وہیں لاہور، کراچی اوراسلام آباد میں ہونے والے فیشن ویکس میں بہت سی نئی ماڈلز ریمپ پرجلوہ گرہوئیں۔ اسی طرح پاکستانی ڈیزائنرزنے مڈل ایسٹ، امریکہ اوریورپ میں بھی منعقدہ فیشن شوز میں عروسی ملبوسات متعارف کرواتے ہوئے خوب داد سمیٹی۔ بلکہ پاکستان کے معروف ڈیزائنرعلی ذیشان کے ملبوسات نے توہالی وڈ کی معروف گلوکارہ ریحانہ کو اتنا متاثرکیا کہ انہوں نے آئندہ ان کے تیارکردہ ملبوسات ہی استعمال کرنے کا معاہدہ کرلیا۔
میوزک اوررقص کے شعبوں میں بھی اسی طرح ملا جلا رجحان رہا۔ ملک میں دہشتگردی، لوڈ شیڈنگ اوراوقات کار کی پابندی کے باعث دونوں شعبوں سے وابستہ گلوکار، میوزیشن اوررقاص بہت پریشان رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک میں اپنی فنی سرگرمیاں کم کرتے ہوئے دیارغیرمیں ڈیرے لگائے اورخوب نام کمایا۔
سال کے آخری روز31دسمبر کے موقع پرجہاں بہت سے فنکاروں نے نیوائیرنائٹ بھرپورانداز سے منائی، وہیں بہت سے فنکاربزرگان دین کی درگاہوں پرحاضرہوئے اوروہاں نوافل اداکرنے کے ساتھ ساتھ ملک اورقوم کی سلامتی کیلئے دعائیں کرتے رہے۔ اس موقع پر شوبز کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو سامنے رکھ کر سیکھنا چاہئے۔ بلاشبہ ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں اوروسائل کم لیکن ہمیں یکجہتی کے ساتھ مل کرکام کرنا ہوگا۔ اگرہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو2016ء میں ہم ترقی کی نئی راہوں پرآگے بڑھیں گے۔
سال 2015ء کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ سال بھی پہلے برسوں کی طرح بہت سی خوشیاں اورتلخ یادیں ہماری زندگی سے وابستہ کرتے ہوئے آخرکار بیت گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرح شوبز سے وابستہ تمام شعبوں کے فنکاروں اور تکنیک کاروں نے اس برس بہت سی کامیابی حاصل کیں اوربہت سی ناکامیوں کے باعث انہیں اپنی غلطیاں سدھارنے اوران سے سیکھنے کا نادرموقع بھی ملا۔ پاکستان میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں فلم، ٹی وی، تھیٹر، فیشن، میوزک ، رقص سمیت دیگرسے وابستہ افراد نے ہمیشہ کی طرح اس برس میں بہت سے ایسے کارنامے انجام دیئے جس پرپوری قوم کوفخر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ واقعات ایسے بھی رونما ہوئے جوبہت تلخ تھے۔ بہت سے فنکاراس دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ بہت سے فنکارحادثہ کا شکارہوئے۔
اسی طرح بہت سے فنکاروں نے فلمی دنیا میں انٹری دی توبہت سے فنکارپروڈکشن کے میدان میں کامیاب رہے۔ بہت سی بھارتی فلمیں پاکستانی سینما گھروں میں فلاپ رہیں جبکہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ناروا سلوک پردنیا بھرمیں تنقید ہوئی۔ بھارتی فنکاروں نے پاکستان میں پرفارم کیا جبکہ پاکستانی فنکاروں کوبھارت میں پرفارم کرنے سے ہی روک دیا گیا۔
فیشن کے رنگ سال بھربکھرتے رہے جبکہ میوزک کی دنیا میں نام بنانے والے فنکاروں نے حالات کی مجبوری کے باعث دیارغیر میں سچے سروں کا پرچارکیا۔ پرائیویٹ پروڈکشن ہاؤسز کے ڈرامے بھارت میں مقبول عام ہوئے جبکہ بہت سے پروڈکشن ہاؤسز نے فلمسازی کے شعبے میں قدم رکھا دیا۔ سٹیج ڈراموں کا کاروبارماضی کے مقابلے میں ایوریج رہا اوراداکارہ نرگس کی تھیٹرپرواپسی سے پروڈیوسروںکوکچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔
اگرمجموعی طورپردیکھا جائے تو سال 2015ء پاکستان فلموں اورسینما انڈسٹری کے لئے کسی حد تک بہت بہتررہا ، اس میں قومی زبان اردو کی 20، پنجابی کی پانچ پشتو کی17اور بولی وڈ کی 32 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ یکم جنوری کو اردو فلم ''گڈمارننگ کراچی'' ریلیز ہوئی جس میںمعروف ماڈل آمنہ الیاس نے مرکزی کردار نبھایا جن کی ''زندہ بھاگ'' کے بعد یہ دوسری فلم تھی۔ ان کے علاوہ فلم کی کاسٹ میں صبا حمید ، سویرا ندیم ، فرحان علی آغا ، آمنہ شیخ شامل تھیں ۔
9جنوری کو بولی وڈ فلم 'تیور '' ، 16جنوری ''الون'' ، 23جنوری کوہدایتکارہ سنگیتا کی '' لاہوریا تے پشاوریا '' سینماؤں کی زینت بنی۔ جس میں اربازخان اور شان نے مرکزی کردار نبھائے تھے۔ اس فلم کے بارے میں قیاس آرائیاں تھیں کہ یہ سنگیتا کی پرانی فلم تھی جس کو نئے نام کے ساتھ دوبارہ نمائش کیا گیا ، مگراس فلم کو خاطرخواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔
اسی روز بولی وڈ فلم ''ڈولی کی ڈولی'' بھی نمائش ہوئی۔ چھ فروری کو امیتابھ بچن کی فلم '' شمیتاب '' ریلیزہوئی ۔ 13 فروری کو رنبیر کپور اور ارجن رام پال کی '' رائے '' آئی مگر فلم بینوں کی توجہ حاصل نہ کرسکی ۔ 20فروری کو نواز الدین صدیقی اور ورون دھون کی ''بدلہ پور'' ایکشن تھرل ریلیز کی گئی اس کو کافی اچھا رسپانس ملا ۔ چھ مارچ کو اداکارہ زارا شیخ اور میرا کی فلم ''دیوداس'' کراچی میں ریلیز کی گئی جس میں پروڈیوسر ندیم شاہ نے ان اداکاراؤں کے مقابل مرکزی کردار نبھایا تھا ۔
20مارچ کو پاکستانی ایکشن تھرل فلم ''جلیبی'' ریلیز ہوئی جس میں دانش تیمور ، ژالے سرحدی ، ساجد حسن ، علی سفینہ فنکاروں پرمشتمل تھی ۔ اس میں ژالے سرحدی کا ایک آئٹم سانگ بھی شامل تھا ، مگر باکس آفس پراس کا جادونہ چل سکا۔ دس اپریل کو فاروق ضمیر اور حبیب کی اردوفلم '' ٹیچر '' لاہور کے میٹروپول سینما میں نمائش ہوئی ۔ یہ فلم محمد پرویزساجد کی ٹیلی فلم تھی جس کوسینما سکوپ کرکے ریلیزکیا گیا ، فلم بینوں نے اس کو بری طرح مسترد کردیا جبکہ فاروق ضمیراور حبیب کے چند ایک ہی سین تھے۔
اسی روز بولی وڈ اداکارہ سنی لیون کی '' ایک پہیلی لیلیٰ '' سینماؤں پرپیش کی گئی۔ 17اپریل کوعمران ہاشمی کی سائنس فکشن فلم ''مسٹر ایکس'' آئی ۔ نئی کاسٹ کے ساتھ بنائی گئی پنجابی فلم '' گجر پورے دناں دا '' 24 اپریل کوریلیز ہوئی، یہ فلم بھی سکرپٹ ، پروڈکشن اور ڈائریکشن سمیت ہرلحاظ سے ناکام ثابت ہوئی ۔
یکم مئی کو اکشے کمار کی ''گبرازبیک'' ،آٹھ مئی کو ''کچھ کچھ لوچا ہے'' ، ''پیکو'' ، 15مئی ''ممبئی ویلوٹ '' 22 مئی کو '' تنوویڈزمنو ریٹرن '' اورآسکرایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی اینی میٹیڈ فلم ''تین بہادر'' ریلیزہوئی یہ پاکستان کی پہلی اینمیٹڈ فلم تھی جس کو بچوں سمیت ہر عمر کے لوگوں نے پسند کیا ۔ پانچ جون '' دل دھڑکنے دو '' 12 جون کو '' ہماری ادھوری کہانی '' اور جواد بشیر کی بطور ڈائریکٹر پہلی ہارر فلم ''مایا'' اور 19جون کو ''اے بی سی ڈی پارٹ ٹو'' کی نمائش ہوئیں۔
جواد بشیر کی فلم ''مایا'' فلم بینوں کی توجہ حاصل نہ کرسکی ۔ تین جولائی کو '' گڈو رنگیلا '' ، دس جولائی کو تیلگو فلم '' بہو بلی '' کا ہندی ورژن جس کا پارٹ ٹونئے سال ماہ جنوری میں ریلیز ہوگا ۔ عیدالفطر پر ''گنہگار'' ، ''بازار '' ، ''رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں '' ، '' بن روئے '' ، ''رانگ نمبر'' جبکہ نو پشتو فلمیں '' آئی لو یو ٹو'' ، ''داغ'' ، '' زوئے دا بد عملہ'' ، ''دا بدمعاشا نو بدمعاش'' ،''ما چہرہ غریب سارہ'' ، ''خاندانی بدمعاش'' ، ''پختون پہ دبئی کے'' ، ''سر تیز بدمعاش'' ، ''ماہین کو لیونی وی'' اور ایک بھارتی فلم ''بجرنگی بھائی جان ''سینماؤں کی زینت بنی ۔
ایک عرصہ بعد اتنی تعداد میں پشتو فلمیں عیدالفطر کے موقع پر ریلیز ہوئیںاور تمام فلموں نے اچھا بزنس کیا جبکہ پاکستانی فلم ''رانگ نمبر'' اور ''بن روئے '' نے بھارتی فلم ''بجرنگی بھائی جان '' کو ٹف ٹائم دیا ۔ مگربھارتی فلم ''بجرنگی بھائی جان'' میں پاکستانی صحافی چاند نواز کا کرداربہت پسند کیا گیا جس کوبخوبی اداکارنوازالدین صدیقی نے نبھایا اورخوب داد سمیٹی۔ 31جولائی کو ایک پاکستانی فلم '' کراچی سے لاہور'' اور بھارتی فلم ''درشیم '' سینماؤں کی زینت بنی۔ چودہ اگست کو تین پاکستانی فلمیں ''مور '' ، ''دیکھ مگر پیار سے '' ، ''شاہ '' کے مقابل ایک بھارتی فلم ''برادرز'' ریلیز ہوئی ۔
21 اگست کو ''آل از ویل'' ، چارستمبر کو ''ویلکم بیک '' ، گیارہ ستمبر کو تین پاکستانی فلمیں ''کسک''، ''منٹو'' ، ''سوارنگی '' اور ایک بھارتی فلم ''ہیرو '' 18ستمبر کو ''کٹی بٹی '' اور25ستمبر عیدالضحیٰ کے موقع پر پانچ پشتو '' زوئے دا شرابی'' ، ''اقرار '' ، ''ملنگ پہ دعا رنگ''، ''بدنام '' ، ''تیزاب '' دو اردو ''جوانی پھر نہیں آنی'' ، ''ہلہ گلہ '' دو پنجابی ''سوہنا گجر '' ، ''سیمی راول '' اور ایک بھارتی فلم ''کس کس کو پیار کروں '' نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔
دو اکتوبر کو '' سنگھ از بلنگ'' ، ''تلوار '' ، نو اکتوبر '' جذبہ '' ، 22اکتوبر ''شاندار'' ، 27 نومبر ''تماشا'' اور 18دسمبر کو ''باجی راؤ مستانی'' اور ''دل والے'' ریلیز ہوئی ۔
سال رواں میں ''بے بی '' ،''ویلکم ٹو کراچی '' ، ''بنگستان'' اور ''فینٹم '' کو نمائش کے لئے غیرموزوں قرار دیتے ہوئے بین کردیا گیا تھا ۔سال رواں میں اداکار ہمایوں سعید ، دانش تیمور، ماہرہ خان، سوہا ئے علی آبڑو اورجاوید شیخ مصروف ترین اداکاررہے جن کی ایک سے زائد فلمیں نمائش ہوئیں جبکہ حمائمہ ملک اور ژالے سرحدی کی ایک ایک فلم سینماؤں کی زینت بنی ۔
اداکارشان نے بطور ہدایتکار فلم ''ارتھ ٹو'' کی شوٹنگ کا آغاز کردیا ہے جبکہ معمر رانا نے بطور ڈائریکٹر ''سکندر'' اوراداکارہ نور نے ''عشق پوزیٹو''کے ذریعے نئی اننگز شروع کرچکے ہیں ۔ دوسری جانب ویڈیوڈائریکٹرجامی کی فلم ''مور'' آسکر ایوارڈ کی دوڑ سے آوٹ ہوگئی ، اداکارہ میرا بھی سال بھرسکینڈلز کی زد میں رہی۔ اداکارہ نرگس نے تین سال کے وقفے کے بعد شالیمار تھیٹر میں ''ویلکم نرگس'' کے ذریعے دھماکے دارانٹری دی۔
مگرانہیں وہ رسپانس نہ مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سٹیج کی دنیا میں باری تھیٹر آڈیٹوریم کے نام سے ایک پرائیویٹ تھیٹر کا اضافہ ہوگیا۔ ہدایتکارہ سنگیتا نے بھی دانش تیمور ، قرۃ العین عینی اور متیرا کو لے کرفلم ''تم ہی تو ہو'' بنا رہی ہیں جبکہ معروف ڈریس ڈیزائنر نجیبہ بی جی بھی دوبارہ سے فلموں کے لئے ڈریسز ڈیزائن کرنے لگی ہیں۔ ہدایتکار اقبال کشمیری ''سارے چور'' ، ناصر ادیب ''بریکنگ نیوز'' کے نام سے فلمیں بنانے کا اعلان کیا ، ان دونوں میں سے ابھی تک کوئی فلم سیٹ کی زینت نہیں بن سکی ۔
سال بھر میں بھارتی فنکار پاکستان یاترا کیلئے آتے رہے ۔ ان میں قابل ذکر اداکار نصیر الدین شاہ ، اوم پوری اور ہدایتکار مدھر بھنڈارکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ فنکارپاکستان آئے لیکن ان فنکاروں کویہاں زیادہ پذیرائی ملی اوران کے اعزاز میں باقاعدہ تقریبات کا انعقاد بھی کیاگیا۔
پاکستان فیش انڈسٹری سے وابستہ معروف ڈیزائنر سال بھراپنے تیارکردہ موسمی اوررسمی ملبوسات کی جدید ورائٹی متعارف کرواتے رہے۔ فیشن ورلڈ میں جس طرح سے نوجوان ڈیزائنرز نے شاندارانٹری دی، وہیں لاہور، کراچی اوراسلام آباد میں ہونے والے فیشن ویکس میں بہت سی نئی ماڈلز ریمپ پرجلوہ گرہوئیں۔ اسی طرح پاکستانی ڈیزائنرزنے مڈل ایسٹ، امریکہ اوریورپ میں بھی منعقدہ فیشن شوز میں عروسی ملبوسات متعارف کرواتے ہوئے خوب داد سمیٹی۔ بلکہ پاکستان کے معروف ڈیزائنرعلی ذیشان کے ملبوسات نے توہالی وڈ کی معروف گلوکارہ ریحانہ کو اتنا متاثرکیا کہ انہوں نے آئندہ ان کے تیارکردہ ملبوسات ہی استعمال کرنے کا معاہدہ کرلیا۔
میوزک اوررقص کے شعبوں میں بھی اسی طرح ملا جلا رجحان رہا۔ ملک میں دہشتگردی، لوڈ شیڈنگ اوراوقات کار کی پابندی کے باعث دونوں شعبوں سے وابستہ گلوکار، میوزیشن اوررقاص بہت پریشان رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک میں اپنی فنی سرگرمیاں کم کرتے ہوئے دیارغیرمیں ڈیرے لگائے اورخوب نام کمایا۔
سال کے آخری روز31دسمبر کے موقع پرجہاں بہت سے فنکاروں نے نیوائیرنائٹ بھرپورانداز سے منائی، وہیں بہت سے فنکاربزرگان دین کی درگاہوں پرحاضرہوئے اوروہاں نوافل اداکرنے کے ساتھ ساتھ ملک اورقوم کی سلامتی کیلئے دعائیں کرتے رہے۔ اس موقع پر شوبز کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو سامنے رکھ کر سیکھنا چاہئے۔ بلاشبہ ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں اوروسائل کم لیکن ہمیں یکجہتی کے ساتھ مل کرکام کرنا ہوگا۔ اگرہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو2016ء میں ہم ترقی کی نئی راہوں پرآگے بڑھیں گے۔