پاک بھارت مذاکرات ملتوی نہیں ہونے چاہئیں
بھارت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی
بھارت نے پاکستان سے سیکریٹری خارجہ مذاکرات کو پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ گیند اب پاکستان کے کورٹ میں ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو قابل عمل معلومات دے دیں، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کیا کارروائی کرتا ہے' پاکستان کے بارے میں بھارت کی پالیسی واضح ہے اس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن وہ سرحد پار سے دہشت گردی کے حملے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
دوسری جانب پٹھان کوٹ واقعہ سے متعلق بھارت کی طرف سے دی جانے والی معلومات پر غور کے لیے جمعرات کو وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ پٹھان کوٹ حملے سے متعلق بھارت کی معلومات میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں' کارروائی کے لیے بھارت سے مزید معلومات طلب کی جائیں گی جن کے ملنے کی صورت میں واضح صورت حال سامنے آ سکے گی۔
وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا' اس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی' اگر پٹھان کوٹ ائیربیس حملے کے ٹھوس شواہد ملے تو کارروائی کی جائے گی۔
سیکریٹری خارجہ مذاکرات کا آغاز 15جنوری کو ہونا تھا مگر اب بھارت نے اسے پٹھان کوٹ حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی سے مشروط کرکے ایک بار پھر دوستانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ پہلے اس نے نئی دہلی میں کشمیری رہنماؤں کی پاکستانی حکام سے ملاقات کا بہانہ بنا کر سیکریٹری خارجہ مذاکرات ملتوی کر دیے تھے اور اب اس نے پٹھان کوٹ حملے کی آڑ لے کر ان مذاکرات کے مقررہ تاریخ پر انعقاد کو مشکوک بنا دیا ہے۔
پاکستان اس حملے کی شدید مذمت کر اور بھارت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلا چکا ہے۔ ابھی اس حملے کے ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے، بھارت جو معلومات دے رہا ہے وہ الزامات پر مبنی ہیں ایسے میں پاکستان کا موقف بالکل درست ہے کہ جب تک ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آتے تب تک کارروائی ممکن نہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو بلا توقف اور بلا ثبوت اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا جاتا اور پاکستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر کارروائی کرے۔ بھارت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ٹھوس شواہد موجود ہوں' اس لیے بھارت کو مزید معلومات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ بھارتی حکام واقعات کی کڑیاں ملا کر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا دعویٰ کر دیتے اور سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتے ہیں۔ بھارت نے ابھی تک ممبئی حملے کے ٹھوس شواہد بھی فراہم نہیں کیے جب کہ پاکستان اس سے بار بار مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ ممبئی حملے کے بارے میں ٹھوس شواہد فراہم کرے۔
حیرت انگیز امر ہے کہ جب بھی پاک بھارت مذاکرات کی بات چلتی ہے تو بھارت کی جانب سے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر کے کشیدگی کو ہوا دی جاتی یا پھر بھارت میں کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ بھارت پٹھان کوٹ حملے میں نامزد افراد کے خلاف کارروائی کی گیند کو پاکستان کے کورٹ میں پھینکنے سے پہلے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔
ممکن ہے اس حملے کی پلاننگ کرنے والوں میں اس کے اپنے لوگ بھی شامل ہوں کیونکہ جس انداز میں ایک حساس علاقے پر حملہ کیا گیا وہ اندر کے افراد کے تعاون اور معلومات کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر بھارت اپنے آستین کے سانپوں کو ڈھونڈ نکالے تو ممکن ہے کہ دونوں طرف کے نان اسٹیٹ ایکٹرز بے نقاب ہو جائیں۔
پاکستان نے بھارت کی جانب ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ بھارت بھی ماضی کے حصار سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے' مذاکرات سب کی اولین ترجیح ہونے چاہئیں' انھیں کسی بھی سانحے سے مشروط نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی انھیں ملتوی کیا جانا چاہیے۔
دونوں ملکوں کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس خطے میں دہشت گردی کی جاری لہر کے دوران کوئی بھی سانحہ کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات نہیں چاہتیں لہٰذا بھارتی حکومت کو یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر ممکن طور پر دوستانہ تعلقات چاہتا ہے خواہ کوئی بھی سانحہ کیوں نہ رونما ہو جائے۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے ہی دہشت گردوں اور امن دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
پٹھان کوٹ حملے کے ٹھوس شواہد اکٹھا کرنے میں تو ایک وقت درکار ہے اس لیے بھارت کسی بھی معاملے کو آڑ بنا کر مذاکرات ملتوی نہ کرے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو قابل عمل معلومات دے دیں، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کیا کارروائی کرتا ہے' پاکستان کے بارے میں بھارت کی پالیسی واضح ہے اس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن وہ سرحد پار سے دہشت گردی کے حملے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
دوسری جانب پٹھان کوٹ واقعہ سے متعلق بھارت کی طرف سے دی جانے والی معلومات پر غور کے لیے جمعرات کو وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ پٹھان کوٹ حملے سے متعلق بھارت کی معلومات میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں' کارروائی کے لیے بھارت سے مزید معلومات طلب کی جائیں گی جن کے ملنے کی صورت میں واضح صورت حال سامنے آ سکے گی۔
وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا' اس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی' اگر پٹھان کوٹ ائیربیس حملے کے ٹھوس شواہد ملے تو کارروائی کی جائے گی۔
سیکریٹری خارجہ مذاکرات کا آغاز 15جنوری کو ہونا تھا مگر اب بھارت نے اسے پٹھان کوٹ حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی سے مشروط کرکے ایک بار پھر دوستانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ پہلے اس نے نئی دہلی میں کشمیری رہنماؤں کی پاکستانی حکام سے ملاقات کا بہانہ بنا کر سیکریٹری خارجہ مذاکرات ملتوی کر دیے تھے اور اب اس نے پٹھان کوٹ حملے کی آڑ لے کر ان مذاکرات کے مقررہ تاریخ پر انعقاد کو مشکوک بنا دیا ہے۔
پاکستان اس حملے کی شدید مذمت کر اور بھارت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلا چکا ہے۔ ابھی اس حملے کے ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے، بھارت جو معلومات دے رہا ہے وہ الزامات پر مبنی ہیں ایسے میں پاکستان کا موقف بالکل درست ہے کہ جب تک ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آتے تب تک کارروائی ممکن نہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو بلا توقف اور بلا ثبوت اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا جاتا اور پاکستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر کارروائی کرے۔ بھارت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ٹھوس شواہد موجود ہوں' اس لیے بھارت کو مزید معلومات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ بھارتی حکام واقعات کی کڑیاں ملا کر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا دعویٰ کر دیتے اور سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتے ہیں۔ بھارت نے ابھی تک ممبئی حملے کے ٹھوس شواہد بھی فراہم نہیں کیے جب کہ پاکستان اس سے بار بار مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ ممبئی حملے کے بارے میں ٹھوس شواہد فراہم کرے۔
حیرت انگیز امر ہے کہ جب بھی پاک بھارت مذاکرات کی بات چلتی ہے تو بھارت کی جانب سے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر کے کشیدگی کو ہوا دی جاتی یا پھر بھارت میں کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ بھارت پٹھان کوٹ حملے میں نامزد افراد کے خلاف کارروائی کی گیند کو پاکستان کے کورٹ میں پھینکنے سے پہلے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔
ممکن ہے اس حملے کی پلاننگ کرنے والوں میں اس کے اپنے لوگ بھی شامل ہوں کیونکہ جس انداز میں ایک حساس علاقے پر حملہ کیا گیا وہ اندر کے افراد کے تعاون اور معلومات کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر بھارت اپنے آستین کے سانپوں کو ڈھونڈ نکالے تو ممکن ہے کہ دونوں طرف کے نان اسٹیٹ ایکٹرز بے نقاب ہو جائیں۔
پاکستان نے بھارت کی جانب ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ بھارت بھی ماضی کے حصار سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے' مذاکرات سب کی اولین ترجیح ہونے چاہئیں' انھیں کسی بھی سانحے سے مشروط نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی انھیں ملتوی کیا جانا چاہیے۔
دونوں ملکوں کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس خطے میں دہشت گردی کی جاری لہر کے دوران کوئی بھی سانحہ کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات نہیں چاہتیں لہٰذا بھارتی حکومت کو یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر ممکن طور پر دوستانہ تعلقات چاہتا ہے خواہ کوئی بھی سانحہ کیوں نہ رونما ہو جائے۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے ہی دہشت گردوں اور امن دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
پٹھان کوٹ حملے کے ٹھوس شواہد اکٹھا کرنے میں تو ایک وقت درکار ہے اس لیے بھارت کسی بھی معاملے کو آڑ بنا کر مذاکرات ملتوی نہ کرے۔