پروفیشنل تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں
عثمان بلوچ نے اپنی زندگی کے 30 سال عملی طور پر مزدوروں کو تنظیم سازی میں پرونے میں گزارے۔
عثمان بلوچ نے اپنی زندگی کے 30 سال عملی طور پر مزدوروں کو تنظیم سازی میں پرونے میں گزارے۔ وہ نوجوانی میں عظیم فلسفی کارل مارکس کے فلسفہ ''دنیا بھر کے مزدورو متحد ہو جاؤ'' سے متاثر ہوئے اور ان کے ذہن میں ہمیشہ یہ نعرہ رہا کہ مزدوروں کے پاس سوائے زنجیروں کے کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ عثمان بلوچ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ مزدوروں کو بلا کسی امتیاز مذہب، جنس اور ذات کے مزدور تنظیم میں منظم کیا جائے۔ عثمان بلوچ نے اپنے آدرش کی پاداش میں کئی برس جیلوں میں گزارے۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پنجاب اور سندھ کی بڑی جیلوں میں وقت گزارا۔ عثمان بلوچ نے 1972ء میں سائٹ کی مزدور تحریک کی قیادت کی۔ عثمان بلوچ پاکستان میں مزدور تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے ریلوے میں ایک مضبوط ٹریڈ یونین موجود تھی۔ مرزا ابراھیم اس ٹریڈ یونین کے قائد تھے اور مزدور رہنما وی وی گری ان کے ساتھی تھے۔ وی وی گری کانگریس نمایندے کی حیثیت سے بھارت کے صدر بنے۔ مرزا ابراہیم ریلوے کے علاوہ لاہور کے دوسرے صنعتی اداروں کی مزدور انجمنوں کے بھی قائد تھے۔ ان میں وزارت خزانہ کا سکہ ڈھالنے والا کارخانہ بھی شامل تھا۔ 50ء کی دھائی میں مزدور قیادت کو کمزور کرنے کے لیے حکمرانوں نے تنظیم بنائی۔ اسی طرح دوسرے مذہبی عناصر کو مزدوروں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پھر وہ 60 ء کی دھائی میں کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ میں مزدور تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت اردو بولنے والے مزدور رہنما اس تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مزدور ان کی قیادت میں متحد تھے۔
ایوب خان کے کے دور میں سرحد سے تعلق رکھنے والے مزدور سائٹ کے اطراف میں آباد ہوئے ۔ جنرل ایوب خان کے صاحبزادے کیپٹن گوہر ایوب خان نے جلوس نکال کر مزدور تحریک میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی، مگر باشعور مزدور آبادی نے اس مذموم کوشش کو ناکام بنا دیا۔ یہی وجہ تھی کہ سرحد سے آنے والے مزدور، مزدور تحریک کا حصہ بن گئے۔ 1968ء کی تحریک اور 1972ء کی تحریکوں میں ان مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ بھٹو دور میں مزدوروں کے لیے اصلاحات نافذ ہوئیں مگر مزدور تحریک کو کمزور کرنے کے لیے پیپلز لیبر فیڈریشن سرکاری سطح پر قائم کی گئی، پھر لیبر بیورو بنایا گیا۔ جب بھٹو حکومت نے مختلف صنعتوں اور بینکوں کو قومیا لیا تو ان اداروں میں سرکاری مزدور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مزدور تنظیموں کو مجبور کیا گیا کہ لیبر بیورو کے ذریعے مراعات حاصل کریں۔
بینکوں اور قومیائے ہوئے صنعتی اداروں کی سرکاری مزدور تنظیموں کو ناجائز مراعات دی گئیں اور سیاسی بھرتیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اس طرح مزدور رہنماؤں کا امیر طبقہ وجود میں آیا۔ عام مزدور کا اپنی یونین سے رابطہ کمزور ہوا اور ادارہ انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہونا شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پیروی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی کی۔ جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کی یونینیں قائم ہوئیں۔ جب لسانی تنظیمیں مقبولیت کی حد عبور کر گئیں تو اب ایم کیو ایم اور دیگر تنظیوں نے اداروں کی انتظامیہ کو کنٹرول کرنے، غیر قانونی بھرتیاں کرانے اور اپنی سرپرست سیاسی جماعت کو افرادی قوت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس مجموعی صورتحال کی بناء پر صنعتی ادارے، بینک اور دیگر ادارے انتظامی اور مالیاتی طور پر مفلوج ہو گئے۔ جب ان اداروں کو حکومتوں نے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو ان اداروں کی ناقص کارکردگی کی بناء پر عوام ان اداروں کے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کے لیے تیار نہیں تھے اور مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم نے نجکاری کے عمل کی حمایت کی تھی۔ ایک تنظیم نے ان اداروں کے عام مزدوروں اور افسروں پر دباؤ ڈال کر اپنی انتظامیہ کی جانب سے جبری ریٹائرمنٹ کے پیکیج قبول کرنے پر مجبور کیا تھا۔ کئی ہزار افسران اور مزدور اپنی 25، 30 سالہ ملازمتوں کو چھوڑنے اور انتہائی کم مراعات لینے پر مجبور ہوئے۔ جب قومی اداروں کی نجکاری کے بعد اس کی ناقص کارکردگی سے عوام مایوس ہوئے اور رائے عامہ نجکاری کے عمل کے خلاف ہوئی تو یہ جماعتیں اب ان اداروں کی نجکاری کی مذمت کر رہی ہیں مگر مزدور تنظیموں کی تباہی کے تجربے کے باوجود اب پیشہ وارانہ تنظیموں پر سیاسی جماعتیں حملہ آور ہو رہی ہیں۔
پیشہ وارانہ تنظیمیں مثلاً آرٹس کونسل، پی ایف یو جے، پاکستان بار کونسل، وکلاء ایسوسی ایشنیں اور ڈاکٹروں کی تنظیم پی ایم اے نے اپنے اراکین کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے، بنیادی انسانی حقوق، آئین اور قانون کے نفاذ اور ثقافتی سرگرمیوں کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس ملک کے صحافیوں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے اور عوام کے آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور جاننے کے حق کو تسلیم کرانے کے لیے تاریخی جدوجہد کی ہے۔ پی ایف یو جے ہمیشہ کسی سیاسی جماعت کی آلہ کار نہیں بنی، یہی وجہ ہے کہ 1950ء سے برسرِ اقتدار آنے والی سول اور فوجی حکومتوں کے خلاف سینہ سپر رہی۔ ہمیشہ اپنے اراکین کے پروفیشنل ازم کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کی۔ منہاج برنا وہ صحافی رہنما ہیں جنھیں آزادئ صحافت کے حق کی جدوجہد کی پاداش میں خواجہ ناظم الدین کے دور میں، ایوب خان، بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں ملازمتوں سے محروم ہونا پڑا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں مگر کسی بھی دور میں پی ایف یو جے کسی سیاسی جماعت کے براہِ راست کنٹرول میں نہیں رہی۔ پی ایف یو جے کے خلاف مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں نے سازشیں کیں اور اس کی قیادت پر قبضے کے منصوبے بنائے مگر صحافیوں کے اتحاد سے یہ کوشش ناکام ہوتی رہی۔ اسی طرح وکیلوں کی انجمنوں نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف سمیت ہر دور میں جاری رہی۔ وکلاء رہنماؤں نے اپنے مقاصد کے لیے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ یہ تنظیمیں کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں رہیں۔
وکلاء کی تنظیموں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کو اپنی فوجی وردی اتارنی پڑی۔ جب وکلاء کو یہ محسوس ہوا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحالی کے بعد عدلیہ اور وکلاء تحریک کو جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو وکلاء نے سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر کی زیرِ قیادت جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور وکلاء نے ان کی حمایت کی۔ یوں عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں اور اس کے فوراً بعد وکلاء تحریک میں نمایاں تبدیلی آئی۔
پاکستان آرٹس کونسل کراچی نے شہر میں ثقافتی سرگرمیوں کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ کراچی اس صدی کے آغاز سے دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کا شکار ہے۔ اس ماحول میں آرٹس کونسل نے ادبی کانفرنسیں، محافل موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں کو اجاگر کر کے شہریوں میں ڈپریشن کو کم کرنے اور کراچی کے خوش نما چہرے کو پیش کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ دہشت گردی کی فضاء میں بھارت سے شاعروں اور فنکاروں کو بلانا اور موسیقی کی محفلیں منعقد کرنا جرات کا کام ہے۔ اب آرٹس کونسل کے انتخابات کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں مداخلت کی۔ اور یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ سیاسی جماعتیں آرٹس کونسل کو اپنی ذیلی تنظیم بنانا چاہتی ہیں۔ ان جماعتوں میں متضاد نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ان میں ایک جماعت تو ہر قسم کی موسیقی، ڈراموں، خواتین اور مردوں کی مشترکہ ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور بھارت سے کسی قسم کے ثقافتی تعلق کو غیر اسلامی سمجھتی ہے۔ ایک بڑی جماعت پر ایک لسانی گروہ کی چھاپ ہے۔ ایک اور جماعت ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے پر قبضے کے بعد اداروں سے حصہ لینے کی خواہاں ہے۔ پروفیشنل تنظیموں میں ہونے والی کمزوریوں اور ان کی قیادت کی تبدیلی کا فریضہ ان کے اراکین انجام دیں گے تو یہ ادارے مستحکم ہونگے۔ اگر ان اداروں پر سیاسی جماعتوں نے قبضہ کیا تو جو صورتحال مزدور انجمنوں کے ساتھ ہوئی ہے وہی صورتحال ان اداروں کے ساتھ بھی ہو گی۔ مزدور یونینوں اور پروفیشنل تنظیموں کے کمزور ہونے سے ادارے کمزور ہونگے جس کا آخری نقصان سیاسی جماعتوں اور جمہوری نظام کو ہو گا۔