پٹھان کوٹ فضائیہ مستقر پر حملہ
پٹھان کوٹ پر دہشت گرد حملے کا مقصد لوگوں کو ہلاک کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک عزائم کا حامل تھا
پٹھان کوٹ پر دہشت گرد حملے کا مقصد لوگوں کو ہلاک کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک عزائم کا حامل تھا جس کا ہدف 15 جنوری سے شروع ہونے والے مجوزہ پاک بھارت ڈائیلاگ کو سبوتاژ کرنا تھا۔ اس حملے میں سات فوجی ہلاک اور ان سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے البتہ اس فضائی مستقر پر جو بھارتی طیارے اور متعلقہ آلات وغیرہ موجود تھے ۔
ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا حالانکہ دہشت گردوں کے پاس AK47 اسالٹ رائفلز' مارٹر راؤنڈز' راکٹ لانچرز کے علاوہ متعدد پستولیں اور تقریباً 50' 60کلو بارودی مواد بھی تھا۔ بھارتی میڈیا نے فوراً سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ہدایات لیتے ہوئے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔ یہ حملہ صبح صادق سے کچھ پہلے ہوا تھا۔
ہم اپنا سانس روکے بیٹھے تھے کیونکہ روایتی طور پر بھارت کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ اس قسم کے ہر واقعے کا پاکستان کو ہی ذمے دار قرار دیتا ہے حالانکہ ان کے بعض دعوے خود الٹے انھی پر جا لگے ہیں جیسے کہ ممبئی کے ساحل سے کچھ فاصلے پر سمندر میں ہونے والا کشتی کی تباہی کا واقعہ جس کو انھوں نے فلمی تاثر دینے کے لیے لائیو ٹیلی کاسٹ کر دیا تا کہ آئی ایس آئی پر الزام لگایا جا سکے اور یوں ہماری مسلح افواج کو ملوث کیا جائے۔
واضح رہے دونوں طرف طاقتور انتہا پسند عناصر موجود ہیں جو پاک بھارت امن پراسیس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جب کہ اس حوالے سے بھارت کا رویہ کہیں زیادہ منفی نوعیت کا ہے اس قسم کے واقعات کو پاکستان دشمن میڈیا اور شیوسینا جیسی متعصب تنظیمیں خاص طور پر ہوا دیتی ہیں اور ہمیشہ کسی بہانے کی تاک میں رہتی ہیں۔ بھارتی لوگ جعلی فلمی طرز کے آپریشنز میں بھی خصوصی مہارت رکھتے ہیں جنھیں ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہاں یہ امر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ گزشتہ عشرے میں دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان میں 6000 سے زیادہ شہادتیں ہوئیں اور 21000 سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کرنا بے جا ہے۔ تو کیا بھارتی الزامات کا یہ مطلب ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں جن میں کہ سیکیورٹی فورسز کے اراکین بھی ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں کیا وہ اپنے ہی ساتھیوں کی ہلاکت کے لیے فنڈز خرچ کرتی ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں بھی دہشت گردوں کی موجودگی سے کلی طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا جو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جیسا کہ ایک نام نہاد تنظیم نے پٹھان کوٹ کے واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اگر اس حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے' اس پر فوری یقین کرنا مشکل ہے تاہم اب یہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔
اب لارنس کالج گھوڑا گلی کے طلباء کی پرانی یادیں تازہ کرتا ہوںجو پٹھان کوٹ کی وجہ سے یاد آئیں۔ گھوڑا گلی کو جنھیں گلیاں کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہاں کے اپنے ایک لیجنڈری رومانٹک شخصیت کیپٹن (بعدازاں لیفٹیننٹ کرنل) سعید افضل درانی کی یاد آئی ہے جن کے پیار کا نام سی آئی ڈی CID تھا۔ انھیں پی ایم اے (پاکستان ملٹری اکیڈمی) سے سورڈ آف آنر یعنی اعزازی تلوار ملی اور وہ نارمن کا طلائی تمغہ بھی جیت چکے تھے۔ وہ ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل سولجر تھے جن کی دانش حیرت انگیز تھی اور علم بہت وسیع تھا۔ سی آئی ڈی ایک لاجواب کمانڈو تھے جو کہ اپنے ذہن کے انتہائی موثر استعمال پر قادر تھے۔
انھوں نے برطانیہ کے ایس اے ایس کورس میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی۔ سی آئی ڈی نے ایس ایس جی کے افسروں کے ساتھ پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ لگائی۔ ان کے ساتھیوں میں کیپٹن (بعدازاں بریگیڈئیر)' حضور حسنین اور کیپٹن (بعدازاں بریگیڈئیر) آزاد نے ستمبر 1965ء میں پٹھان کوٹ کے قریب پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ لگائی۔ ان کا مقصد انڈین ایئر فورس کے مستقر پر چھاپا مار کارروائی کرنا تھی۔ بہرحال وہ دو ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ تھی۔ یہ یاد ویسے ہی چلتے چلتے ذہن میں آ گئی۔
پٹھان کوٹ میں حالیہ دہشت گرد حملے کے حوالے سے بھارتی وزیر دفاع پاریکر اس بات کی وضاحت سے قاصر رہے کہ آخر محض چند مسلح افراد بھارت کے ایک بہت بڑے فضائی مستقر کو تقریباً 4 دن تک مفلوج بنائے رکھنے میں کس طرح کامیاب رہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کو اس حملے کی اطلاع ملی تو انھوں نے فوراً ''قومی سیکیورٹی گارڈز'' نامی ایلیٹ فورس کے 50 کمانڈوز اور ان کے ساتھ بھارتی فوج کے چند یونٹس اور ایئر بیس سیکیورٹی (اے بی ایس) والوں کو فی الفور موقع پر بھجوا دیا۔ پاریکر کا کہنا تھا کہ یہ مستقر بہت بڑا ہے اور اس کے اندر جنگل بھی ہے جس کی وجہ سے حملہ آوروں کی تلاش میں مشکل پیدا ہوئی۔
حملے کے تیسرے دن پانچواں مسلح شخص ہلاک کیا گیا جب کہ بھارتی حکام نے بعدازاں بتایا کہ اس حملے میں 6 مسلح افراد شامل تھے وہ چوتھے دن بھی اس مبینہ چھٹے شخص کو تلاش کرتے رہے۔ میجر جنرل دشیانت سنگھ نے، جو این ایس جی کے سربراہ ہیں، بتایا کہ تلاشی کی کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سارے حملہ آور پکڑ نہیں لیے جاتے۔ پاریکر نے اعتراف کیا کہ ان کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس میں بعض خامیاں موجود تھیں لیکن ان خامیوں کی صحیح نشاندہی مکمل تحقیقات کے بعد ہی ہو سکے گی لیکن ایک بات واضح ہے کہ سیکیورٹی کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے آفس نے کہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے فون کر کے پٹھان کوٹ حملے پر بات کی تھی جنھیں کہہ دیا گیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے جو عناصر ہیں ان کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی کی جائے۔ ٹیلی فون پر اس گفتگو کے بعد بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے اپنے پاکستانی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو ایسی معلومات فراہم کر دی ہیں جن کی بنیاد پر ان کے بقول کارروائی کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2008ء کے ممبئی حملے کے بارے میں بھارت کی طرف سے فراہم کیے گئے ثبوت اس بنا پر مسترد کر دیے تھے کیونکہ وہ اخباری تراشوں پر مشتمل تھے جب کہ سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے کوئی ٹھوس ثبوت ان میں شامل نہیں تھا حالانکہ بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے بہت شوروغل مچایا البتہ بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے) کے سربراہ مسٹر کمار کا کہنا تھا کہ ہمیں ''نان اسٹیٹ ایکٹروں'' کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان کی سرکاری ایجنسیاں اس کارروائی میں ملوث نہیں ہیں۔