حقوق و فرائض
کچھ لوگوں کو آپ نے ہمیشہ دیکھا ہوگا کہ وہ ہر پل اپنا کوئی نہ کوئی رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں
کچھ لوگوں کو آپ نے ہمیشہ دیکھا ہوگا کہ وہ ہر پل اپنا کوئی نہ کوئی رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس نے یہ نہیں کیا، اس نے یہ نہیں کہا، میرے ساتھ ایسا ہوجاتا تو اچھا ہوتا، دوست بھی مطلبی، رشتے دار بھی مطلبی بس یہی صاحب اللہ کے نیک بندے ہیں باقی سب جو ان کے اردگرد ہیں وہ ظالم اور بے کار ہیں۔ اگر آپ غلطی سے ان سے پوچھ لیں کہ آپ کو اتنے شکوے اور شکایتیں ہیں ذرا یہ تو بتا دیجیے کہ آپ نے ان لوگوں کے لیے کیا کیا؟ یا آپ ان لوگوں کے لیے کیا کرتے ہیں جواب میں آپ کو مایوسی ہوگی اور ایک اور کہانی آپ کو سننے کو ملے گی اور اسی پر یہ مسئلے، مسائل آپ کو سمجھ آجانے چاہئیں۔
اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو اکثروبیشتر اکثریت حقوق کی بات کرتے نظر آتے ہیں، ہمیں یہ نہیں ملا، یہ ایسا نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ، گھر سے لے کر باہر تک حقوق نہ ملنے کا شکوہ ہی شکوہ نظر آتا ہے۔
فرائض بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے حقوق ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو انفرادی طور پر ہمارا ایمان تو ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے زیادہ توجہ دلاتا ہے۔
اگر ہم ذرا سی توجہ اپنے فرائض ادا کرنے پر بھی لگادیں تو یقینا رونے دھونے کی عادت کم ہوجائے گی اور جب آپ کسی کے لیے کچھ اچھا کرنے لگتے ہیں تو اللہ کی رحمت تو ویسے ہی آپ پر ہونے لگتی ہے۔ ہم ہمیشہ شاید اسی کو پسند کرتے ہیں جو ہمارے ہاتھ میں کچھ تھما رہا ہوتا ہے۔ اس کی جوتیاں بھی اٹھانے پر بھی تیار۔ اللہ سے زیادہ اللہ کے بندوں پر بھروسہ، اور ان کی خوشی اور ناراضگی پر بھی پریشان، مگر جو حقوق و فرائض کی بات بحیثیت مسلمان اور انسان ہم پر لازم ہے اس کا شمار صرف یک طرفہ۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کو جتنا لگاؤ رزق سے ہے اگر اتنا رزق دینے والے سے ہوتا تو اس کا مقام فرشتوں سے بڑھ جاتا۔بہرحال عرض یہ ہے کہ صرف اپنے ہاتھ کو پھیلانے کا عادی نہ بنائیں بلکہ اس کو اوپر رکھیں اور دینے والا بنائیں کہ یہی اللہ کی بڑی رحمت ہے۔
ہاتھ پھیلانے کی بات ہوتی ہے آج کل تو بے اختیار ہمارے ایک وزیر صاحب یاد آتے ہیں جوکہ ایسی زبردست زبردست اسکیمیں بناتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔مخالفین چیختے چلاتے رہتے ہیں کہ بے تحاشا قرضے ہمارے لیے نقصان دہ ہیں اگلی حکومت کیا کرے گی، مہنگائی کا جن کیسے قابو کریں گی، عوام کو کیسے سہولت دی جائے گی، کالا دھن سفید کرنے کی اسکیم متعارف کرادی گئی 5 کروڑ پر ایک فیصد دے کرکالا دھن سفید لو جی مبارک! کیا اس اقدام سے معیشت مضبوط ہوگی یا کمزور؟ غلط کاموں کے بعد اگر اتنی ہی سہولت کے ساتھ اچھائی کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا تو پھر کون اپنے آپ کو حلال و حرام کے چکر میں ڈالے گا قتل سو فیصد سزا ایک فیصد۔
دہشت گردی کے حوالے سے بھی 2016 کو اہم قرار دیا جارہا ہے کہ اللہ کے حکم سے دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہوگا، اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک تمام ملک میں ایک خوشگوار احساس ہے اور دہشت گردی کے کالے سائے انشا اللہ ہمیشہ کے لیے دور ہوں گے لیکن اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو کرپشن کا جائز ہونا بھی تو کسی دہشت گردی سے کم نہیں کہ معاشرے کی جڑیں کمزور ہوجائیں گی تو پھر کیا رہ جائے گا کہاں کی انسانیت کہاں کا انسان مادی خواہشات ہی اگر اوڑھنا بچھونا ہوگئی تو ہم کس کے حقوق ادا کریں گے اورکون سے فرائض کی بات ہوگی۔ ذاتی مفادات نے ہمیشہ اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔
اگر اب بھی ہم انھی جھگڑوں میں رہیں گے تو کیسے پاکستان شاد باد ہوگا اب وہ زمانے نہیں کہ جوتے کی نوک پر عوام کو رکھا جائے گا۔ بددیانتی اور ناانصافی سے کبھی بھلائی نہیں ہوگی کبھی ہمارا ملک تابندہ نہیں ہوگا، اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالا جائے تو بہتر ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی وکامرانی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کی آبادی دیکھی جائے، وہاں کے اسپتال، تعلیمی ادارے، بنیادی ضروریات کا اسٹرکچر۔ یہی سب ادارے اس ملک کی ترقی و کامرانی کا پیمانہ سمجھے جاتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے ہاں ان سب کو نظرانداز کرکے بینکنگ اسکیمیں متعارف کرواتے رہیں اور سیاہ کو سفید کرتے رہیں یہ صرف چند لوگوں کو فائدہ دے سکتی ہے مگر زیادہ لوگوں کو نہیں۔
بے انتہا ضرورت ہے صحت اور تعلیم کے میدان میں انقلاب لانے کی وہ لوگ جو انقلاب کی باتیں کرتے وہ بھی اور جو نہیں کرتے وہ بھی یہی انقلاب ہمیں عزت و توانائی دے سکتا ہے۔ ہر ایک یہاں ''پارسائی'' کا دعویٰ کرتا ہے اور سب کچھ لوٹ کر لے جاتا ہے 70 سالوں سے عوام چکی میں پس رہی ہے دنیا آگے کی طرف بھاگ رہی ہے اور ہم پیچھے گر رہے ہیں پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم ترقی کی طرف رواں دواں ہیں۔ قصہ تو پرانا ہے مگر دکھ دینے والا ہے ہم کہاں کہاں گرتے جا رہے ہیں حق حاصل کرنے کے لیے تمام فرائض بھولتے جا رہے ہیں، چمک دمک اور لشکارے کیا صرف یہی باقی رہ گیا ہے؟
اب ہمیں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے ڈلیورکریں وہ سب کچھ جن کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لیے جاتے ہیں بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں، کروڑوں، اربوں کے پیکیج اناؤنس کیے جاتے ہیں مگر صرف یہ وعدے ہی بنے رہتے ہیں سرکار زمین سے لے کر آسمان تک صرف سرکار بن کر رہ جاتی ہے اور بے بسی صرف بے بسی ہی رہ جاتی ہے۔
بار بار اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ہی طرح کا کھیل کھیلا جا رہا ہوتا ہے اور بار بار صرف اور صرف امیدیں ہی رہ جاتی ہیں۔ طرز حکومت انگلینڈ کی طرز کا ہو یا امریکا کی طرز کا، ہر حال میں جیت عوام کی ہونی چاہیے، عوام ہی ادارے مضبوط کرتے ہیں اور عوام ہی طرز فکر طریقے رائج ہونا چاہیے۔ تعلیم اور صحت سے اگر پیچھے رکھا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس طرح اپنی گدیاں مضبوط بنائی جاسکتی ہیں تو اب یہ صرف بھول ہی ہوگی۔
اپوزیشن صرف عمران خان کی نظر آتی ہے باقی سب ایک ہی ڈرامے کے کردار نظر آتے ہیں۔ عمران خان آواز بلند کرتے ہیں اور فیکٹ اور فگرز سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں بات دل کو بھی لگتی ہے اور دماغ کو بھی مگر پھر بھی نجانے کیوں سیاست ان سوچوں کو بھی کھانے لگی ہے۔ انفرادی فائدے کی ان شرمناک اسکیموں کو رائج کرنے سے پہلے حال مستقبل کی طرف نظر دوڑائی جائے۔
حد تو یہ بھی ہے کہ صدر ممنون حسین بھی ملاؤں سے آگے سوچنے لگے ہیں کبھی وہ سود کے لیے اور کبھی حرام حلال کے لیے اپنے قیمتی بیانات سے عوام کو مستفیض کرتے رہتے ہیں ۔
صدر ہو یا وزیر اعظم یا پارلیمنٹ کے ارکان سب کے سب اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے میں کتنے مخلص اور کتنے سچے ہیں یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی آگے اللہ خیر کرے گا۔