کراچی سے سپلائی مکمل بحال نہ ہو سکی

سپلائی کی بندش کے دوران مجموعی کرایہ 1.5ارب بن گیا

سپلائی کی بندش کے دوران مجموعی کرایہ 1.5ارب بن گیا (فوٹو ایکسپریس)

نیٹو سپلائی کی بندش کے دوران فریٹ فارورڈرز نے اخراجات بچانے کے لیے سپلائی لے جانے والے متعدد ٹریلرز سے رسد کا سامان اتروالیا جو تکنیکی لحاظ سے گمشدہ تصور کیا جائے گا۔ نیٹو سپلائی کے مسنگ کنٹینرز کی تعداد میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ نیٹو سپلائی پر مامور ٹرانسپورٹرز کے مطابق بندش کے دوران فی ٹریلر 4ہزار روپے یومیہ چارجز طے پائے تھے۔

نیٹو کی سپلائی کے لیے فریٹ فارورڈرز سب کنٹریکٹرز کے طور پر کام کررہے ہیں جبکہ پرنسپلکنٹریکٹرز دبئی سے بیٹھ کر رسد کو مختلف کٹیگیری کے مطابق سب کنٹریکٹرز میں تقسیم کرکے کنٹرول کررہے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق بندش طول پکڑنے کے بعد سب کنٹریکٹر (فریٹ فارورڈرز) نے 4ہزار روپے یومیہ کے حساب سے بڑھنے والے اخراجات کم کرنے کے لیے متعدد ٹرالرز سے سامان اور کنٹینرز اتر والیے تاہم کسٹم کے ریکارڈ میں کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے یہ کنٹینرز اور سامان نیٹو سپلائی کے لیے افغانستان روانہ ہوچکا ہے۔

ایسے کنٹینرز اور سامان کی افغانستان داخلے کے وقت طور خم اور چمن سرحد پر دوبارہ کسٹم کے ریکارڈز میں انٹری کی جاتی ہے اس ریکارڈ میں ٹریلرز کے رجسٹریشن نمبر بھی درج ہوتے ہیں۔ اتاری گئی رسد فریٹ فارورڈرز نے اپنی ذمے داری پر اتروائی تاہم دوسرے ٹریلر کے ذریعے سرحد پار کرنے کی صورت میں کسٹم ریکارڈ کے ذریعے ٹریلرز کی تبدیلی کی نشاندہی ہوگی


جس سے ٹریلر پر لدی رسد مشکوک قرار پائے گی۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق رسد کی بندش کے دوران بعض فریٹ فارورڈرز اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مہینے میں 18دن سے 24 دن کے ڈیٹینشن چارجز پر اتفاق کیا گیا بہت سے ٹرانسپورٹرز نے مہینے میں 18دن کے چارجز وصول کرلیے تاہم رسد کھلنے کی اطلاعات پر اتفاق رائے ہونے کے باوجود ادائیگیاں نہیں ہوئیں۔

سپلائی معطل رہنے کے دوران فریٹ فارورڈرز کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کی وصولی کے لیے فریٹ فارورڈرز اپنے پرنسپل کنٹریکٹرز سے رابطے کررہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ نیٹو سپلائی کے دوران ٹرانسپورٹرز اور کنٹریکٹرز کے درمیان لین دین اور ڈینٹینش چارجز پر تنازعات شدت اختیار کرگئے ہیں اور ٹرانسپورٹرز نے بندش کے دوران سامان سے لدے ہوئے ٹریلرز کا یومیہ 4ہزار روپے کے حساب سے کرایہ طلب کرلیا ہے جس کی مجموعی مالیت 1.5ارب روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔

ٹرالرز کو پہنچنے والا نقصان ٹوٹ پھوٹ اور پرزہ جات کی چوری کا نقصان اس کے علاوہ بتایا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بندش کے دوران متعدد ٹرانسپورٹرز دیوالیہ ہوچکے ہیں اور ادائیگیاں نہ ہونے کی صورت میں ٹریلرز کی تعداد میں نمایاں کمی کا خدشہ ہے۔کراچی کی بندرگاہوں سے ابھی تک سپلائی مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی،

کراچی سے طور خم اور چمن تک راستے میں رکے ہوئے ٹریلرز اور کنٹینرز پہلے روانہ ہوں گے جبکہ ادائیگیوں کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ٹرانسپورٹرز کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال بھی کی جاسکتی ہے جس سے سپلائی میں مزید تعطل پیدا ہونے کا امکان ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story