آج نثر نہیں تو شعر ہی سہی
شعر و شاعری زندگی کا ایک حصہ ہیں مگر کیا کریں کہ حافظہ خوبصورت شعروں کا ساتھ نہیں دیتا
شعر و شاعری زندگی کا ایک حصہ ہیں مگر کیا کریں کہ حافظہ خوبصورت شعروں کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے میں اپنی زیادہ پسند کے شعر ایک نوٹ بک میں درج کر لیتا ہوں اور کبھی کبھار جب کوئی اچھا موضوع نہیں ملتا اور کسی نمایاں قسم کے واقعہ اور خبر کو اپنے بگڑے ہوئے کالم میں بگاڑ نہیں سکتا تو میں کسی اچھے شعر کوایک نوٹ بک میں نقل کر لیتا ہوں۔ مختلف اشعار کا یہ قلمی مجموعہ میری تحریر کا کمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں کسی کے باکمال شعروں کو درج کیا جاتا ہے۔
آج مجھے کوئی ایسا موضوع نہیں مل رہا جو مجھے اپنے اوپر لکھنے پر مجبور کر سکے چنانچہ میں نے اپنی بیاض کھول لی ہے اور اس میں سے چند اشعار نقل کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو پسند نہ آئیں تو میرا نہیں یہ شاعر کا قصور ہے اور اگر پسند آئیں تو یہ میرے انتخاب کی خوبی ہے۔ قارئین کے حضور میں اب اپنی اس پسند یعنی عزت کی پسند کو پیش کر رہا ہوں۔ تمام اشعار اکیلے ہیں یعنی ان کے ساتھ اس غزل کے دوسرے اشعار درج نہیں ہیں۔ اکثر غزلوں میں ایک سادہ شعر ہی کام کا ہوتا ہے، دوسرے اس شعر کو سہارا دینے کے لیے ہوتے ہیں۔
پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتل گل عام ہوا ہے اب تک
......
جانے کس دن ہاتھ سے رکھ دوں گا دنیا کی زمام
جانے کس دن ترک دنیا کا خیال آ جائے گا
......
تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہے وہ دن نہ تم ہو گے نہ ہم ہوں گے
......
آؤ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب ختم عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
......
کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں
اس کا کوچہ بھی نہیں، اس نے پکارا بھی نہیں
......
روز کہتا ہوں نہ گھر جاؤں گا اس کے لیکن
روز اس کے کوچے میں کوئی کام نکل آتا ہے
......
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
......
کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے
......
جنگل میں مور ناچ رہا ہے ابھی ظفرؔ
جلدی سے کوئی دیکھنے والا کہیں سے لاؤ
......
اب ایسا بھی کر لیتے ہیں
اس کی گلی میں گھر کر لیتے ہیں
......
اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیمؔ اس کو مُکرنے نہیں دیا
......
ذاکرہ تھی کوئی اور خوب رلاتی تھی ظفرؔ
مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں
......
شان اس کی سوچئے اور سوچ میں کھو جایئے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جایئے
(حسنؔ رضوی)
قیامت میں ذرا سا تخلیہ بھی
کہ تم سے بھی ہمیں کچھ پوچھنا ہے
......
مر گیا جو شدید گرمی میں
لاش اس کی ہے سردخانے میں
......
کیا یاد کر کے روؤں کہ کیا شباب تھا
کچھ بھی نہ تھا، ہوا تھی، کہانی تھی، خواب تھا
......
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا ہے ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
......
کہنے کو چندگام تھا یہ عرصۂ حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھے
......
مجھی پر ختم ہیں سارے فسانے
شکست ساز کی آواز ہوں میں
......
کوہساروں کا فیض ہے ورنہ
کون دیتا ہے دوسری آواز
......
کھلونوں کی دکانوں راستہ دو
مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں
......
چھوڑا تو ہے اسے مگر چھوڑا ہے اس طرح
دیتا پھرے گا میرے حوالے تمام عمر
......
مجروحؔ عاشقی بھی ہے تاریخ کی طرح
راوی بدل گیا تو روایت بدل گئی
......
جلتے ہیں ہر شب میں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا
......
میں نے روکا بھی نہیں، اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
......
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
......
تم ہی اگر نہ سن سکے، قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے
......
دنیا میں آدمی کو مصیبت کہاں نہیں
وہ کون سی زمین ہے جہاں آسماں نہیں
......
وہ درد بھری چیخ میں بھولا نہیں اب تک
کہتا تھا کوئی بت مجھے پتھر سے نکالو
......
چلتے رہتے ہیں مگر پھر بھی کہیں جاتے نہیں
ہم نے جانا ہو جہاں رستے وہیں جاتے نہیں
......
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کہاں گئے چپ چاپ
......
آ کے میرے دل سے تو کر مشورہ
اور پھر تو پانچواں موسم بنا