عشق اور رزق

سو ہمارے دور تک آتے آتے عشق اور رزق کے یہ سلسلے اس قدر الجھ گئے ہیں


Amjad Islam Amjad January 10, 2016
[email protected]

کئی صدیاں قبل شیخ سعدی نے عشق اور رزق کے تعلق پر ایک بہت بے مثال شعر کہا تھا

چنیں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق

کہ ایک بار دمشق میں رزق کا ایسا قحط پڑا کہ لوگ عشق تک بھول گئے۔

دولت کی غلط تقسیم اور طاقت کا بے جا استعمال کس طرح افسانوں کی زندگیوں کو جہنم بنا سکتا ہے۔ اس کا سلسلہ یوں تو معلوم تاریخ کے قدیم ترین ادوار میں بھی جاری و ساری نظر آتا ہے لیکن اس کی جہات سرمایہ داری نظام کے فروغ اور کمرشلزم کے دباؤ کے تحت پھلی پھولی ہیں اس سے یقینا فراعین مصر سے لے کر چنگیز اور ہلاکو تک کے سب انسان دشمن کم برے لگنے لگتے ہیں غالبؔ نے کہا تھا

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
مگر پھر وہ دور بھی آیا کہ شاعر بے اختیار کہہ اٹھا:
بھوک تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
اور یہ کہ
اب بھی دلکش ہے ترا حسن، مگر کیا کیجیے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

سو ہمارے دور تک آتے آتے عشق اور رزق کے یہ سلسلے اس قدر الجھ گئے ہیں کہ اب ایک سرے کو دوسرے سرے سے الگ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں رہا۔ اشیا کو ایجاد اور تخلیق کرنے والا انسان خود اپنی ہی بنائی ہوئی اشیا کا اس طرح سے غلام ہو گیا ہے کہ اب ضمیر اور اخلاقیات بھی اس کاروباری ذہنیت کی اسیر ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایک طرف کروڑوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں اور دوسری طرف غلّے کی مارکیٹ کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کو سمندر میں غرق کر دیا جاتا ہے اسی سے ملتی جلتی ایک کیفیت کو میں نے کئی برس قبل دو اشعار میں اس طرح سے بیان کیا تھا

بھنور میں کھو گئے ایک ایک کر کے ڈوبنے والے
سر ساحل کھڑے تھے سب تماشا دیکھنے والے
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پر کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے!

بہت دنوں کے بعد شاعری کی آمد کا سلسلہ پھر سے جاری ہوا ہے اور پہلی نظم ہی اس رزق اور عشق کے رشتوں سے متعلق ہے ابھی اس کی نوک پلک درست کرنا باقی ہے لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کو بھی اس واردات میں شامل کیا جائے کہ نظم چاہے کسی ایک شخص کی ہو اس کا دائرہ تمام انسانیت اور کائنات پر محیط ہوتا ہے کہ احساس کی سطح پر ہر شعری خیال اس وقت سے بھی مربوط ہوتا ہے جس میں متعلقہ شاعر اپنے معاشرے سے رشتہ آرا ہوتا ہے سو آئیے دیکھتے ہیں کہ عشق اور رزق کے مابین رشتے اس نظم میں کس طرح سے صورت پذیر ہوئے ہیں۔

عشق اور رزق کے مابین عجب رشتے ہیں
ایک سے لازم و منہ زور ہیں دونوں، یعنی
مل کے چلتے بھی نہیں، راستہ دیتے بھی نہیں
لمس میں ان کے عجب جادو ہے
جو بھی اک بار انھیں چھو جائے
پھر وہ اک شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح
بے جہت اڑتا چلا جاتا ہے
ایک لمحے میں ادھر، دوسرے پل میں اُدھر
جستجو رزق کی بے چین کیے رکھتی ہے
ذائقہ عشق کا روحوں میں اتر جاتا ہے
ایک سکے کے ہوا کرتے ہیں جیسے دو رخ
ان کی دوری میں بھی ایسا ہی کوئی ناتا ہے!
ایک سی ان میں کشش ایک سی ان کی کسک
اور دونوں کے صنم خانوں میں، ایسی مستی ہے کہ بس!
رزق سے ہاتھ اٹھانا بھی نہیں ہے ممکن
عشق سے آنکھ چرائیں تو چرائیں کیسے!
ایک طرف دل کی صدا، ایک طرف دنیا ہے
ان کناروں کو ملائیں تو ملائیں کیسے!
ایک منزل ہے مگر راستے دونوں کے الگ
ساتھ چلتے ہیں مگر پھر بھی جدا رہتے ہیں
ایک پہیلی میں چُھپے چور اشاروں کی طرح
ایک ہی پل میں یقیں اور گماں رہتے ہیں
عشق اور رزق کے مابین عجب رشتے ہیں!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔