ڈھونڈ اجڑے ہوئے لیاری میں وفا کے موتی آخری حصہ
لیاری میں گینگ وار ناسور 2001 میں ابھارا گیا، اس سے 4 عشرے پیچھے چلے جائیے
لیاری کی محرومیوں پر بھٹو خاندان سے متعلق ایک سادہ سا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ لیاری کی کایا پلٹنے میں بھٹو خاندان کیوں ناکام رہا؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ڈان کے سابق مدیر عباس ناصر نے یہ سوال پوچھا تھا جب وہ بی بی سی کی ورلڈ سروس سے وابستہ تھے کہ ''بھٹو خاندان سے اہل لیاری کی والہانہ محبت اور جذباتی وابستگی کا راز کیا ہے؟'' عرض کیا تھا کہ بھٹو خاندان سے جڑنے والی یہ محبت بے لوث ناقابل تقسیم اور انمول ہے۔
یہ لیاری کے غریب عوام کی معصومانہ سوچ اور ان کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں اس آرزو کے انتظار میں رچ بس گئی ہے کہ ان کے خوابوں کی جدلیات پر قائم اس تمنا کو ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی پوری نہیں کرسکتیں، کیونکہ وہ اس علاقہ کو ہمیشہ غیر کی نظر سے دیکھتی رہی ہیں، اس دشت امکاں میں وہ خود کو اجنبی پاتی تھیں۔ اس کا اندازہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کیا جاسکتا ہے، جب سیاسی حوالہ سے بے وفائی کی ڈسی ایک بے سمت اور کمزور لیاری کو بھی وہ فتح نہیں کرسکیں۔
ان کے تصور اور لاشعور میں لیاری پاکستان کے سیاہ فاموں کا ''ریڈ انڈین'' حلقہ انتخاب ہے جبکہ آج کی لیاری 40 یا 60 کی دہائیوں پر محیط وہ سانس لیتی بستی نہیں ہے جو غربت و افلاس، ناخواندگی اور بیروزگاری کا سدا بہار استعارہ تھی، لیاری نے اس نظریہ کو غلط ثابت کیا کہ فقط افلاس، محرومی، بیروزگاری اور اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی بستی ہی مجرمانہ پستیوں میں لتھڑے ہوئے لوگ یا افتادگان خاک اور کچھ نہیں کرتے بس جرائم کی فصلیں اگاتے، لوٹ مار کرتے رہتے ہیں، قتل وغارت اور بھتہ خوری کا بازار گرم رکھتے ہیں۔
لیاری میں گینگ وار ناسور 2001 میں ابھارا گیا، اس سے 4 عشرے پیچھے چلے جائیے، کراچی یا سندھ پو لیس کے ریکارڈ اور ان کے گرافس پر نظر ڈالیے تو آپ کو کراچی بھر سے زیادہ پرسکون، پرامن اور صابر و شاکر اسی بستی کے لوگ ملیں گے، جن کے نصیب میں قتل و غارت لکھی گئی۔ نئی نسل کو اسلحہ، بھتہ، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی زہریلی ڈرپیں لگائی گئیں۔ کیا وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اور بیسویں صدی کے آخر تک لیاری میں افلاس اور معاشی بدحالی کے باوجود بیروزگاروں نے کسی کا گھر نہیں لوٹا، کسی کی سائیکل یا موٹرکار نہیں چھینی، بسوں میں ڈکیت داخل نہیں ہوتے تھے۔
علاقے کی دکانوں سے بھتے نہ دینے والوں کی لاشوں سے نہیں کھیلے، کسی کا سر نہیں کاٹا اور کسی کو اس کی بیوہ ماں اور محنت مزدوری کرنے والی بہنوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ بے ننگ و نام تھے، بدنام تھے، منشیات کے اڈوں تک محدود تھے، کئی جیب کترے اور منشیات فروش تھے، مگر عام لوگ ان سے فاصلے پر رہتے، وہ سماجی تقریبات میں اپنی کرپشن اور فراڈ سے جمع کی ہوئی دولت کے باعث شرکائے محفل کی نظروں میں نہیں سماتے تھے۔
شرافت اور بدمعاشی کے درمیان لکیر قائم تھی۔ سماج دشمن عناصر عموماً جرم پر نادم ہوتے، ماما سمک جیب کترا تھا، مگر لیاری کے کسی بزرگ سے گفتگو کرتا تو اس کے ایک ایک لفظ سے شگفتگی مزاح اور ساتھ ساتھ ندامت کی بوندیں اس کے ہر لفظ سے ٹپک پڑتی تھیں۔ نبی بخش عرف کالا ناگ سے میری ملاقات میوہ شاہ قبرستان میں 45 برس قبل ہوئی تھی، مجھے تو وہ آج کے پولیٹیکل شیش ناگوں سے زیادہ مہذب طریقے سے ملے۔ دادل شیرو بدمعاش تھے، مگر ان کے ہاتھ پڑوسیوں کے خون سے رنگے ہوئے نہں تھے، وہ سب اگرچہ سلطانہ ڈاکو یا سندھ کے ڈکیتوں کی طرح تاریک معاشرے اور جاگیردارانہ و نوآبادیاتی سیاست کے ستم رسیدہ تھے، جس استحصالی نظام نے انھیں وقت کا داداگیر بنایا وہ بھی کسی ضابطہ اخلاق کے پابند تھے۔
لیاری کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک خاتون زیورات سے لدی پھندی گھر سے شادی کی تقریب میں جانے کے لیے گھر والوں کے ساتھ نکلتی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اسے لوٹ لے۔ بظاہر لیاری منشیات فروشوں اور ڈکیتوں کا مسکن تھی، میڈیا میں کل بھی بدنام تھی اور آج بھی 60 فیصد جرائم گینگ وار کارندوں کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ جس مالیاتی مک مکا یا گٹھ جوڑ کا انکشاف آج ہوا ہے اس کی کہانی بہت پرانی ہے۔
کلاکوٹ، چاکیواڑہ، کلری اور بغدادی تھانے والے اعداد و شمار جاری کریں کہ دادل اور شیرو یا کالا ناگ نے لیاری میں اپنے دور جہالت میں کتنی ماؤں کے جوان بیٹے موت کے گھاٹ اتارے، کتنے بھتے لیمارکیٹ، بولٹن مارکیٹ، فشری، ٹاور، کھارادر، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، لانڈھی، سائٹ، ہاکس بے، کیماڑی یا صدر کی مارکیٹوں سے لیے؟ شاہراہوں پر کتنی بڑی ڈکیتیاں ان کے گروپ کرتے تھے اور ان تمام بدمعاشوں میں سے کتنے پھانسی چڑھے؟ جب پاکستان بنا تو کتنی بار دادل یا کالا ناگ کے ''مسلح'' لوگوں نے ٹاور، صدر، کیماڑی، کھارادر، پان منڈی، گارڈن جوبلی اور نیپئر روڈ کی بلڈنگوں پر قبضے کیے؟ جی ہاں وہ منشیات کے کالے دھندے والے تھے جن پر آج ان قوتوں کا قبضہ ہے، جن کے اشرافیہ کے ان ٹچ ایبلز سے قریبی مراسم ہیں، جو اربوں ڈالر کی منشیات کی غیر قانونی تجارت اور اسلحہ کے لین دین میں ملوث ہیں۔
لیاری کے جن نوجوانوں کے پیروں سے شدید غربت و افلاس کے دنوں میں بھی فٹ بال کی گیند ٹکراتی تھی جو روزگار، تعلیم، صحت، رہائش اور زندگی کی جدید سہولتوں کے تمنائی تھے، لیکن عروس البلاد کراچی کی نوکر شاہی نے اپنے مخملیں ٹاٹ کے اس سیاہ پیوند کو اکیسویں صدی کی چکا چوند میں گینگ وار کا تحفہ دیا۔ ان مظلوموں کے ہاتھوں میں آمریتوں کی آڑ میں آتشیں اسلحہ، ڈرگ اور گن کلچر مافیاؤں کے توسط سے تھمائے گئے۔
اس کے علاوہ بھی لیاری کی منفرد تاریخی شناخت مٹانے کے لیے اس بستی کو منشیات کے برانڈ سے جوڑ دیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ امن کے باوجود لیاری میں سٹہ اور منشیات کے اڈے ان علاقوں کی تنگ گلیوں میں قائم ہیں جہاں گینگ وار کمانڈروں کی مالی امداد اور سرپرستی سے محروم بدنصیب نوجوانوں کے ریوڑ ہیں، وہ بھوک و دربدری کے باعث اسلحہ دوستی کا چلن چھوڑنے کے خیال سے اسٹیبلشمنٹ کی دی ہوئی موت کو فوقیت دیتے ہیں۔
ایک دکھی ماں کا لڑکیوں کو شرماتا حسین و جمیل بیٹا عادل زندگی و موت کے درمیان الجھا ہوا ہے، رینجرز اسے زندہ رہنے کی امید دلاتے ہیں۔ اس وقت بیروزگاری اور غربت کا ازالہ وقت کی ضرورت ہے، گینگ وار کی شدت کم ہونے سے سماجی، تعلیمی اور صحت کی سہولتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ لیاری فٹبال کی نرسری تھی، اب اجڑ چکی ہے۔ ہم گھانا، آئیوری کوسٹ، سینیگال اور تنزانیہ سے پیچھے رہ گئے۔ اسی علاقہ نے عظیم برازیلین فٹ بال جادوگر پیلے کی شکل کا ہم جوڑ فٹ بالر پیدا کیا، جسے دنیا غفور مجنا کے نام سے جانتی تھی، وہ کسی اعتبار سے رابرٹوکارلوس ڈنگا یا ریوالڈو سے کم تر درجہ کا کھلاڑی نہیں تھا، ایک لمبی فہرست ہے ان فٹ بالرز کی جو پاکستان کی شان تھے، سب مٹی میں رل گئے۔
پٹ سن اورکپاس کے بڑے گودام، ٹی پی ایکس پر لیاری کے محنت کشوں کی اجارہ داری تھی، وہی ٹنڈیل تھے، پنجابی چوک کھارادر کے علاقے اور پورے پورٹ اور کسٹم ایریا، سنیما گھروں، شراب خانوں کے گیٹ کیپر لیاری، ملیر، منگھوپیر، ماری پور اور کیماڑی کے بلوچ ہوا کرتے تھے۔ ان ہی ان پڑھ گھرانوں کی اولاد احساس زیاں کے ایک بڑے اعصابی اور جذباتی مرحلہ سے گزری، ان پر تعلیم کی اہمیت اور زندگی کے خوابوں کی تعبیریں پانے کی سچی تڑپ جاگ اٹھی۔
پھر لیاری نے 1970-71 کے بعد سے زبردست کروٹ لی۔ بھٹو اقتدار میں آئے تو لیاری پیرس نہیں بنا، مخالفین ٹھیک کہتے ہیں لیکن بھٹو نے اہل پاکستان کو بعد میں لیاری والوں کے ضمیر میں سب سے پہلے خلش اور زندہ رہنے کی امنگ پیدا کی۔ بے نظیر نے ان کے گندے مکانات اور تنگ گلیوں میں جاکر نوجوان کارکنوں اور رہنماؤں کی موت پر تعزیت کی۔
اس وقت بھی جیالوں کے گھروں پر ان ہی پتھروں پہ چل کر بھٹو، بینظیر اور نصرت بھٹو جایا کرتے، ان کے گھر کے راستوں پہ کوئی کہکشاں نہیں تھی۔ اب بھی پی پی کی راہ تکنے والے یوسف بے کاررواں جیالے کبھی رمضان بلوچ سے پوچھتے ہیں، کبھی میر اشفاق، صابر بلوچ، شبیر ارمان، نازین اور عینی نیازی کو اپنی محرومیوں کی داستان سناتے ہیں۔
یا ندیم بلوچ، محمد امین، محمود عالم، حاصل بلوچ ، لالہ فقیر محمد اور عمر لاسی کی ان کو تلاش ہے، احسان شاہ کیمرہ اٹھائے دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ کراچی کے نوجوان لیاری سے جڑ گئے ہیں، میڈیا بدل گیا ہے، ان کا لیاری کے نئے جنم یافتگان سے معاملہ ہوا ہے، مگر لیاری سے گینگ وار کے نام پر جو ناانصافی ہوئی ہے اس پر میں فیض صاحب کے اس لازوال شعر پر اپنی بات ختم کررہا ہوں کہ
مٹ جائے گی مخلوق تب انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
یہ لیاری کے غریب عوام کی معصومانہ سوچ اور ان کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں اس آرزو کے انتظار میں رچ بس گئی ہے کہ ان کے خوابوں کی جدلیات پر قائم اس تمنا کو ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی پوری نہیں کرسکتیں، کیونکہ وہ اس علاقہ کو ہمیشہ غیر کی نظر سے دیکھتی رہی ہیں، اس دشت امکاں میں وہ خود کو اجنبی پاتی تھیں۔ اس کا اندازہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کیا جاسکتا ہے، جب سیاسی حوالہ سے بے وفائی کی ڈسی ایک بے سمت اور کمزور لیاری کو بھی وہ فتح نہیں کرسکیں۔
ان کے تصور اور لاشعور میں لیاری پاکستان کے سیاہ فاموں کا ''ریڈ انڈین'' حلقہ انتخاب ہے جبکہ آج کی لیاری 40 یا 60 کی دہائیوں پر محیط وہ سانس لیتی بستی نہیں ہے جو غربت و افلاس، ناخواندگی اور بیروزگاری کا سدا بہار استعارہ تھی، لیاری نے اس نظریہ کو غلط ثابت کیا کہ فقط افلاس، محرومی، بیروزگاری اور اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی بستی ہی مجرمانہ پستیوں میں لتھڑے ہوئے لوگ یا افتادگان خاک اور کچھ نہیں کرتے بس جرائم کی فصلیں اگاتے، لوٹ مار کرتے رہتے ہیں، قتل وغارت اور بھتہ خوری کا بازار گرم رکھتے ہیں۔
لیاری میں گینگ وار ناسور 2001 میں ابھارا گیا، اس سے 4 عشرے پیچھے چلے جائیے، کراچی یا سندھ پو لیس کے ریکارڈ اور ان کے گرافس پر نظر ڈالیے تو آپ کو کراچی بھر سے زیادہ پرسکون، پرامن اور صابر و شاکر اسی بستی کے لوگ ملیں گے، جن کے نصیب میں قتل و غارت لکھی گئی۔ نئی نسل کو اسلحہ، بھتہ، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی زہریلی ڈرپیں لگائی گئیں۔ کیا وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اور بیسویں صدی کے آخر تک لیاری میں افلاس اور معاشی بدحالی کے باوجود بیروزگاروں نے کسی کا گھر نہیں لوٹا، کسی کی سائیکل یا موٹرکار نہیں چھینی، بسوں میں ڈکیت داخل نہیں ہوتے تھے۔
علاقے کی دکانوں سے بھتے نہ دینے والوں کی لاشوں سے نہیں کھیلے، کسی کا سر نہیں کاٹا اور کسی کو اس کی بیوہ ماں اور محنت مزدوری کرنے والی بہنوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ بے ننگ و نام تھے، بدنام تھے، منشیات کے اڈوں تک محدود تھے، کئی جیب کترے اور منشیات فروش تھے، مگر عام لوگ ان سے فاصلے پر رہتے، وہ سماجی تقریبات میں اپنی کرپشن اور فراڈ سے جمع کی ہوئی دولت کے باعث شرکائے محفل کی نظروں میں نہیں سماتے تھے۔
شرافت اور بدمعاشی کے درمیان لکیر قائم تھی۔ سماج دشمن عناصر عموماً جرم پر نادم ہوتے، ماما سمک جیب کترا تھا، مگر لیاری کے کسی بزرگ سے گفتگو کرتا تو اس کے ایک ایک لفظ سے شگفتگی مزاح اور ساتھ ساتھ ندامت کی بوندیں اس کے ہر لفظ سے ٹپک پڑتی تھیں۔ نبی بخش عرف کالا ناگ سے میری ملاقات میوہ شاہ قبرستان میں 45 برس قبل ہوئی تھی، مجھے تو وہ آج کے پولیٹیکل شیش ناگوں سے زیادہ مہذب طریقے سے ملے۔ دادل شیرو بدمعاش تھے، مگر ان کے ہاتھ پڑوسیوں کے خون سے رنگے ہوئے نہں تھے، وہ سب اگرچہ سلطانہ ڈاکو یا سندھ کے ڈکیتوں کی طرح تاریک معاشرے اور جاگیردارانہ و نوآبادیاتی سیاست کے ستم رسیدہ تھے، جس استحصالی نظام نے انھیں وقت کا داداگیر بنایا وہ بھی کسی ضابطہ اخلاق کے پابند تھے۔
لیاری کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک خاتون زیورات سے لدی پھندی گھر سے شادی کی تقریب میں جانے کے لیے گھر والوں کے ساتھ نکلتی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اسے لوٹ لے۔ بظاہر لیاری منشیات فروشوں اور ڈکیتوں کا مسکن تھی، میڈیا میں کل بھی بدنام تھی اور آج بھی 60 فیصد جرائم گینگ وار کارندوں کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ جس مالیاتی مک مکا یا گٹھ جوڑ کا انکشاف آج ہوا ہے اس کی کہانی بہت پرانی ہے۔
کلاکوٹ، چاکیواڑہ، کلری اور بغدادی تھانے والے اعداد و شمار جاری کریں کہ دادل اور شیرو یا کالا ناگ نے لیاری میں اپنے دور جہالت میں کتنی ماؤں کے جوان بیٹے موت کے گھاٹ اتارے، کتنے بھتے لیمارکیٹ، بولٹن مارکیٹ، فشری، ٹاور، کھارادر، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، لانڈھی، سائٹ، ہاکس بے، کیماڑی یا صدر کی مارکیٹوں سے لیے؟ شاہراہوں پر کتنی بڑی ڈکیتیاں ان کے گروپ کرتے تھے اور ان تمام بدمعاشوں میں سے کتنے پھانسی چڑھے؟ جب پاکستان بنا تو کتنی بار دادل یا کالا ناگ کے ''مسلح'' لوگوں نے ٹاور، صدر، کیماڑی، کھارادر، پان منڈی، گارڈن جوبلی اور نیپئر روڈ کی بلڈنگوں پر قبضے کیے؟ جی ہاں وہ منشیات کے کالے دھندے والے تھے جن پر آج ان قوتوں کا قبضہ ہے، جن کے اشرافیہ کے ان ٹچ ایبلز سے قریبی مراسم ہیں، جو اربوں ڈالر کی منشیات کی غیر قانونی تجارت اور اسلحہ کے لین دین میں ملوث ہیں۔
لیاری کے جن نوجوانوں کے پیروں سے شدید غربت و افلاس کے دنوں میں بھی فٹ بال کی گیند ٹکراتی تھی جو روزگار، تعلیم، صحت، رہائش اور زندگی کی جدید سہولتوں کے تمنائی تھے، لیکن عروس البلاد کراچی کی نوکر شاہی نے اپنے مخملیں ٹاٹ کے اس سیاہ پیوند کو اکیسویں صدی کی چکا چوند میں گینگ وار کا تحفہ دیا۔ ان مظلوموں کے ہاتھوں میں آمریتوں کی آڑ میں آتشیں اسلحہ، ڈرگ اور گن کلچر مافیاؤں کے توسط سے تھمائے گئے۔
اس کے علاوہ بھی لیاری کی منفرد تاریخی شناخت مٹانے کے لیے اس بستی کو منشیات کے برانڈ سے جوڑ دیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ امن کے باوجود لیاری میں سٹہ اور منشیات کے اڈے ان علاقوں کی تنگ گلیوں میں قائم ہیں جہاں گینگ وار کمانڈروں کی مالی امداد اور سرپرستی سے محروم بدنصیب نوجوانوں کے ریوڑ ہیں، وہ بھوک و دربدری کے باعث اسلحہ دوستی کا چلن چھوڑنے کے خیال سے اسٹیبلشمنٹ کی دی ہوئی موت کو فوقیت دیتے ہیں۔
ایک دکھی ماں کا لڑکیوں کو شرماتا حسین و جمیل بیٹا عادل زندگی و موت کے درمیان الجھا ہوا ہے، رینجرز اسے زندہ رہنے کی امید دلاتے ہیں۔ اس وقت بیروزگاری اور غربت کا ازالہ وقت کی ضرورت ہے، گینگ وار کی شدت کم ہونے سے سماجی، تعلیمی اور صحت کی سہولتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ لیاری فٹبال کی نرسری تھی، اب اجڑ چکی ہے۔ ہم گھانا، آئیوری کوسٹ، سینیگال اور تنزانیہ سے پیچھے رہ گئے۔ اسی علاقہ نے عظیم برازیلین فٹ بال جادوگر پیلے کی شکل کا ہم جوڑ فٹ بالر پیدا کیا، جسے دنیا غفور مجنا کے نام سے جانتی تھی، وہ کسی اعتبار سے رابرٹوکارلوس ڈنگا یا ریوالڈو سے کم تر درجہ کا کھلاڑی نہیں تھا، ایک لمبی فہرست ہے ان فٹ بالرز کی جو پاکستان کی شان تھے، سب مٹی میں رل گئے۔
پٹ سن اورکپاس کے بڑے گودام، ٹی پی ایکس پر لیاری کے محنت کشوں کی اجارہ داری تھی، وہی ٹنڈیل تھے، پنجابی چوک کھارادر کے علاقے اور پورے پورٹ اور کسٹم ایریا، سنیما گھروں، شراب خانوں کے گیٹ کیپر لیاری، ملیر، منگھوپیر، ماری پور اور کیماڑی کے بلوچ ہوا کرتے تھے۔ ان ہی ان پڑھ گھرانوں کی اولاد احساس زیاں کے ایک بڑے اعصابی اور جذباتی مرحلہ سے گزری، ان پر تعلیم کی اہمیت اور زندگی کے خوابوں کی تعبیریں پانے کی سچی تڑپ جاگ اٹھی۔
پھر لیاری نے 1970-71 کے بعد سے زبردست کروٹ لی۔ بھٹو اقتدار میں آئے تو لیاری پیرس نہیں بنا، مخالفین ٹھیک کہتے ہیں لیکن بھٹو نے اہل پاکستان کو بعد میں لیاری والوں کے ضمیر میں سب سے پہلے خلش اور زندہ رہنے کی امنگ پیدا کی۔ بے نظیر نے ان کے گندے مکانات اور تنگ گلیوں میں جاکر نوجوان کارکنوں اور رہنماؤں کی موت پر تعزیت کی۔
اس وقت بھی جیالوں کے گھروں پر ان ہی پتھروں پہ چل کر بھٹو، بینظیر اور نصرت بھٹو جایا کرتے، ان کے گھر کے راستوں پہ کوئی کہکشاں نہیں تھی۔ اب بھی پی پی کی راہ تکنے والے یوسف بے کاررواں جیالے کبھی رمضان بلوچ سے پوچھتے ہیں، کبھی میر اشفاق، صابر بلوچ، شبیر ارمان، نازین اور عینی نیازی کو اپنی محرومیوں کی داستان سناتے ہیں۔
یا ندیم بلوچ، محمد امین، محمود عالم، حاصل بلوچ ، لالہ فقیر محمد اور عمر لاسی کی ان کو تلاش ہے، احسان شاہ کیمرہ اٹھائے دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ کراچی کے نوجوان لیاری سے جڑ گئے ہیں، میڈیا بدل گیا ہے، ان کا لیاری کے نئے جنم یافتگان سے معاملہ ہوا ہے، مگر لیاری سے گینگ وار کے نام پر جو ناانصافی ہوئی ہے اس پر میں فیض صاحب کے اس لازوال شعر پر اپنی بات ختم کررہا ہوں کہ
مٹ جائے گی مخلوق تب انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے