پھر کوئی آئے گی

یہاں دو قوتیں ایک ساتھ چل رہی ہوتی ہیں، جن کا مقصد ہر صورت میں ایک دوسرے کی مخالفت ہے

muhammad.anis@expressnews.tv

PESHAWAR:
یہاں دو قوتیں ایک ساتھ چل رہی ہوتی ہیں، جن کا مقصد ہر صورت میں ایک دوسرے کی مخالفت ہے۔ ایک خود کو امن کی دیوی سمجھتی ہے، اور دوسری خود کو امن کی سپر دیوی ۔ مگر دونوں میں انا کے بت اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ کوئی ساتھ چل نہیں سکتا ہے۔ دونوں کا عزم قوم اور دنیا کی بھلائی ہوتی ہے، جس کے نتیجہ میں قوم کو کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ دونوں جذبہ حب الوطنی سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس لیے جھنڈے لگانے اور تقاریب سجانے کے مقابلوں میں ہی وقت گزار دیتے ہیں۔

دونوں کی نیت نیک ہوتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ایک میز پر بیٹھتے نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کہیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر نیت نا ٹوٹ جائے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ قوم سمجھ نہیں پائی ہے کہ ان میں سے سچا کون ہے۔ کبھی ایک قوت سرعام خود کو ہیرو بنا رہی ہوتی ہے تو دوسری چھپ کر زیرو سے ضرب دینے کا فارمولا بناچکی ہوتی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ایک کی کامیابی دوسرے کی ناکامی ہے، اس چکر میں پوری قوم کو ہر وقت دلدل میں پھنسا کر رکھتے ہیں۔ اور یہ چکر ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہاں جتنے چہرے بدل جائیں، جتنی کہانی کے لکھاری آجائیں، فارمولا بس ایک ہی رکھا ہوا ہے۔

آئیے آپ کو اس چکر کی داستان سناتا ہوں، آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے یہ آج کی بات ہے۔ یہ آج سے 21 سال پہلے کا پاکستان ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کوشش کررہی تھی کہ کسی طرح سے انڈیا سے تعلقات بہتر ہوجائیں اور اس کے لیے کشمیر پر مختلف فارمولے زیر بحث تھے لیکن شدت کے ساتھ ایک طرف سے یہ بھی کہا جارہا تھا کہ کراچی میں خصوصاً حالات خراب کرنے کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' ملوث ہے۔

ہر روز اس طرح کی خبریں آرہی تھی کہ کراچی میں پکڑے جانے والے کئی دہشت گرد اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ انھیں بھارت میں تربیت دی گئی ہے۔ اور انھیں مالی اور عسکری سپورٹ بھارت سے دی جارہی ہے، ایک طرف یہ شدید الزامات لگ رہے تھے، اور دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان خفیہ ملاقاتوں میں کئی اہم معاملات طے بھی ہورہے تھے، یعنی دو قوتیں ہمارے قومی مفاد میں ایک دوسرے کے مخالف چل رہی تھی۔نومبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔

پاکستان میں اس بارے میں بحث کا آغاز ہوگیا کہ پاکستان نے وہاں پر کشمیر کے متعلق قرارداد کیوں پیش نہیں کی۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ وطن دشمن حکومت نے بھارت کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ ماحول کی گرماہٹ کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے سارا ملبہ اقوام متحدہ پر گرا دیا اور انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ایک مردہ گھوڑا بن چکی ہے، جس کی کسی بھی قرارداد پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ بہت ساری کہانیاں چل رہی تھیں۔ کشمیر پر قرارداد کا نہیں آنا، اور اس معاملے کو ہوا دینا، دو الگ الگ گروپ کی ہم سے محبت تھی۔ دونوں ہمارے عظیم مفادات کے لیے بات کررہے تھے۔ مگر سیاست کچھ اور کررہی تھی۔

ایک قوت پیپلز پارٹی کی حکومت اور بھارتی حکومت کو میز پر لارہی تھی۔ 30 نومبر کو ''گلف نیوز'' نے لکھا کہ امریکی حکومت کی دعوت پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اس میں پاکستان نے تین آپشنز دیے۔ کشمیر کو تقسیم کردیا جائے۔ دوسرا یہ کہ جموں بھارت کو دے دیا جائے اور باقی حصہ پاکستان کے پاس آجائے۔ اس مذاکرات میں بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ اوسلو طرز کے مذاکرات کیے جائیں۔ ان مذاکرات کی خبر باہر آنے سے کئی حلقے خوش نہیں تھے۔


اور خاص طور پر اس طرح کے مذاکرات ایک حلقے کو اعتماد میں لیے بغیر ہوئے تھے۔ یہ خبر 30 نومبر 1994 کو آئی ہے۔ دوسری طرف اسی دن سندھ کے وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ کی درخواست کے باوجود پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے فوج کو کراچی آپریشن سے الگ کرکے بیرکوں میں بھیج دیا۔ اب آئیے تھوڑا سا یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے دشمن جو ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے۔ دونوں طرف سے جنگ و جدل کی بات کی جارہی تھی۔ کیا وہ ایک دم چھپ کر ملنے کے لیے خود سے تیار ہوگئے تھے، یا دونوں کی خواہش تھی کہ امن ہوجائے۔ ان مذاکرات سے پہلے، امریکی نائب وزیر خارجہ رابن رافیل بہت زیادہ سرگرم تھی۔

ان کی ملاقاتیں ہر طرف جاری تھی۔ 15 نومبر کو پاکستان میں امریکی سفیر جان سی مانجو کے ہمراہ اپوزیشن لیڈر سے ان کی قیام گاہ میں ملاقات کے لیے پہنچی۔ اخباری اطلاعات یہ تھی کہ اس ملاقات میں رابن رافیل نے اپوزیشن لیڈر کو مسئلہ کشمیر اور خصوصاً پاکستان انڈیا کے مذا کرات کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ جہاں کچھ بات بن نا سکی۔ اسی رابن رافیل نے اسلام آباد میں یہ بیان دیا کہ اپوزیشن اپنی باری کا انتظار کرے۔ ایک سیاستدان بول پڑے کہ رابن رافیل وائسرائے کا کردار ادا نا کریں، انتظار کرنے کا مشورہ انھوں نے بے نظیر کو کیوں نہیں دیا۔ اس نوک جھونک کے باوجود رابن اپنے مشن میں تھی۔

انھوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔ رابن رافیل کی اس ہلکی سی جھلک کے بعد آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ ایک دم انڈیا پاکستان کے درمیان مذاکرات کس نے شروع کرائے تھے۔ اور اس میں فوراً کشمیر کے حل کی باتیں کیوں شروع ہوگئی تھیں۔ بالکل اس گول دنیا میں یہ بات آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ ایک دم مودی کیوں کود پڑے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وزیر یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے کو لیا جا رہا ہے۔

یہ ساری باتیں نومبر کے آخر کی تھی۔ ایک طرف کے امن پسند لوگ اپنی باری کھیل چکے تھے۔ اب دوسری سپر امن طاقت کی باری تھی۔ دسمبر میں اچانک کراچی میں حالات خراب ہوگئے۔ رینجرز کے چار اہلکار شہید کردیے گئے۔ صورتحال گھمبیر ہوچکی تھی۔ فوج بیرکوں میں جاچکی تھی۔ ایسے میں 26 دسمبر 1994 کو پاکستانی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرکے اس بات سے آگاہ کیا کہ حکومت پاکستان نے کراچی میں بھارتی قونصلیٹ جنرل کو فوری طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے بھارت دس روز میں کراچی میں کام کرنیوالے سفارت کاروں کو واپس بلالے۔

اور اس میں یہ بات واضح تھی کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ قونصلیٹ دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہا تھا۔ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو دھمکی دی کہ بھارت کراچی میں دہشتگردی بند کردے۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں حالات زیادہ خراب ہوگئے۔ انڈین سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں تیز ہو گئیں اور اس کے بعد کا سال کشمیر کی تاریخ کا سب سے زیادہ خونی سال بن گیا۔ یہ بات تو سمجھ میں آرہی تھی کہ مذاکرات کس کے کہنے پر شروع ہوئے۔ لیکن دونوں جانب ایسا کون سا راگ سنایا گیا تھا کہ دونوں طرف کی حکومتیں ایک ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئیں۔

اور اس بار ایسا کون سا فارمولا دیا گیا ہے کہ دونوں قریب آگئے۔ لیکن دوسرا سوال یہ تھا کہ پھر اچانک کراچی کے حالات کیوں خراب ہوگئے تھے۔ اور جو لوگ باہمی شیر و شکر کی باتیں کررہے تھے وہ ایک دم اس حد تک آگئے کہ بھارتی قونصلیٹ بند کرنا پڑگیا۔ کون کس سے خوش نہیں تھا۔ کس نے کس کو شکست دی۔ جس فارمولے کی بات ہم 21 سال پہلے کررہے تھے اسی کا ذکر اب ہورہا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ مجھے حالیہ اتار چڑھاؤ پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ اور اگلے 21 سال بعد بھی نہیں ہوگی، جب پھر کوئی رابن رافیل ہمیں مشورہ دے گی۔
Load Next Story