اردو بے قاعدہ ت سے تنخواہ توپ

سرکاری اداروں میں تنخواہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، البتہ بالائی آمدنی کی اہمیت ضرور ہے


شکیل صدیقی January 10, 2016

سرکاری اداروں میں تنخواہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، البتہ بالائی آمدنی کی اہمیت ضرور ہے، جو بالا ہی بالا ملتی ہے۔ بالا سے مراد یہاں بالا خانہ نہیں ہے، وہ اور جگہ ہے جہاں کبھی شرفا جایا کرتے ہیں۔ اب بدقماش اور بدکردار جاتے ہیں۔ شرفا کے جانے کی کوئی جگہ ہی نہیں رہی۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک سنیما گھر رہ گئے تھے سو وہ بھی شاپنگ مال بن کر رہ گئے ہیں۔ تھیٹر تو کبھی کے ختم ہوچکے (ان میں اب زندہ تماشا جو نہیں ہوتا)۔ تھیٹر میں کام کرنے والے اب آلو چھولے بیچتے دکھائی دیتے ہیں۔

جس روز تنخواہ گھر میں آتی ہے، اس روز عید کا سماں ہوتا ہے۔ ہر شخص خوش ہوتا ہے (خواہ مخواہ) چہرہ کھِلا ہوا اور بتیسی باہر نکلی ہوئی، بلکہ بڑے بوڑھے تو اسے احتیاط سے پاندان میں رکھ لیتے ہیں کہ بچے اسے منہ میں لگا کر ڈریکولا، ڈریکولا نہ کھیلنا شروع کردیں۔ وہ جو تنخواہ لاتا ہے، اس کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی جاتی۔

اس کی چائے میں بالائی بھی ڈال دی جاتی ہے، پھر دو پاپوں کے ساتھ اسے پیش کی جاتی ہے۔ بیوی کہتی ہے ''سرتاج! میرے لیے نئی ساڑی نہیں لائے؟ بچے: ہمارے لیے کیا لائے ابو؟ ابا میاں: بیٹے، تنخواہ مل گئی؟ میری بتیسی بنوادو، ڈھیلی ہوگئی ہے۔ اماں کو ذیابیطس ہوتی ہے، مگر وہ پوچھتی ہیں کہ میرے لیے گاجر کا حلوہ لائے؟'' (یہ ہے کھال کھینچو خاطر مدارت جو تھوڑی دیر بعد شروع ہوتی ہے)

بعض افراد کو تنخواہ سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اس لیے کہ ان کے کام بالا ہی بالا ہوجاتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک تنخواہ ہی سب کچھ ہوتی ہے، کیونکہ اس سے دال، چاول، آٹا اور وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور گھی خریدا جاتا ہے۔ بعض افراد سستے کے چکر میں ''لنگور مارکہ'' گھی خرید لیتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں آلو کا برادہ پڑا ہوا ہوتا ہے۔ تنخواہ سے بچوں کا نیا کورس خریدا جاتا ہے، ان کا یونیفارم بنایا جاتا ہے اور پچھلے قرضے ادا کیے جاتے ہیں (جو گزشتہ ملازمت چھوٹنے پر لیے گئے تھے)

وطن عزیز میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کام کیے جاؤ، کئی کئی ماہ تک تنخواہ ہی نہیں ملتی۔ سرکار کو سوچنا چاہیے اور ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنا اور اپنے رشتے داروں کا خیال رکھنا ہی انصاف نہیں ہے۔ کچھ نچلے درجے کے ملازمین کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، اس لیے کہ پھر وہ تنخواہ کو خاطر ہی میں نہیں لاتے اور ''کہیں اور'' ہاتھ پاؤں مارنے لگتے ہیں۔

ت سے توپ بھی ہوتی ہے جس سے بہت بڑا گولا نکلتا ہے، جیسے گورنر ملک امیر محمد خان پورے صوبے (پورے مغربی پاکستان) کے گورنر تھے، اپنے آگے کسی کی چلنے نہ دیتے تھے۔ دبنگ انداز میں زندہ رہے (فلم دبنگ سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا) شنیدن ہے کہ جناب صدر کے سامنے بھی دبنگ انداز اختیار کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔

ملکہ برطانیہ دوم پاکستان آئیں تو جناب صدر نے ان سے کہا کہ وہ ان کا استقبال کریں۔ انھوں نے ایسا نہ کیا اس لیے کہ انھیں ملکہ کے سامنے جھکنا پڑتا اور ان سے ہاتھ ملانا پڑتا۔ 65 کی جنگ ہوئی تو ان کی توپوں کا رخ چیل، کوؤں اور ڈھور ڈنگروں کی طرف ہوگیا۔ انھوں نے جنگ کے دوران چیزوں کے نرخ نہیں بڑھنے دیے اور اسمگلنگ نہیں ہونے دی۔ لوگ ان کے قومی لباس اور پگھ کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ وہ اَن پڑھ اور گھگھوگھوڑا ہوں گے مگر وہ ایچی سن کے پڑھے ہوئے تھے اور آکسفورڈ بھی ہو آئے تھے۔

کار زارِ سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو بڑی توپ تھے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے اورگولے داغ کر کہتے کہ ایٹم بم ضرور بنائیں گے، چاہے گھاس کھانا پڑے۔ (انھوں نے گھاس کھلائے بغیر ایٹم بم بنالیا) ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو لوگ واقعی گھاس کھانے پر مجبور ہوجاتے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر بھی گولے داغتے رہتے تھے، جنھیں وہ خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنی جیب میں رکھ لیا کرتے لیتے تھے۔ سرمایہ داروں کے تو انھوں نے پاسپورٹ بھی ضبط کرلیے تھے، لیکن لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر واپس کردیے کہ جب انھیں شاپنگ کرنا ہوگی تو کہاں جائیں گے؟ بغیر پاسپورٹ کے تو بیروت اور ہانگ کانگ نہیں جاسکتے نا؟

اپنی مضبوط (مگر نامضبوط) کرسی سے ہٹائے جانے سے پیشتر انھوں نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر امریکا پر بھی گولے داغے اور اسے ہاتھی کہنے سے دریغ نہیں کیا۔ لیکن جب وردی والوں نے اپنی توپ چلائی اور ان پر گولا باری کی تو بھٹو کی توپ خاموش ہوگئی۔

ان کی مثال لاہور عجائب گھر کے سامنے رکھی ہوئی توپ جیسی ہوگئی، جو نہ چلتی تھی اور نہ کسی سے کچھ کہتی تھی، بس خاموش کھڑی رہتی تھی، لہٰذا ان سے لوگوں نے خوف کھانا شروع کردیا۔سیاست میں کبھی عمران خان بھی توپ شے ہوا کرتے تھے، انھوں نے کنٹینر پر چڑھ کر ہر سائز کے گولے داغے، سارے سسٹم کو تلپٹ کردیا، لیکن گولوں میں بارود کم تھا یا گیلا رہ گیا تھا کہ نواز شریف پر اثر ہی نہیں ہوا ۔ عمران نے بلدیاتی الیکشن لڑا لیکن ڈھاک کے تین پات والا معاملہ ہوا۔ ان کی توپوں سے دھاندلی دھاندلی کی آوازیں نکلتی رہیں، لیکن لوگوں نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ کراچی سے بھی انھوں نے بھاری توقعات باندھ لی تھیں، لیکن کراچی والے ان کی توقعات پر پورے نہیں اترے۔ لوگ ہوشیار ہوچکے ہیں اور ان کی یادداشت میں بھی دھار لگ چکی ہے۔

آرمی اسکول کے شہید بچوں کا نوحہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو چینلز والوں نے کہنا شروع کردیا کہ ایک برس پیشتر تو آپ نے کہا تھا کہ اس سازش سے پردہ اٹھائیں گے کہ یہ کس کی حرکت تھی اور ان لوگوں سے بدلہ بھی لیں گے، لیکن آپ سے کچھ نہ ہوا۔ (انھوں نے چپ سادھ لی، اب وہ سیکنڈ ہینڈ توپ بن کر رہ گئے ہیں) می را؟ می را بھی توپ شے ہے بھئی۔ کچھ نہیں کہتی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نے بہت کچھ کہہ ڈالا۔

اس نے انگریزی سیکھ لی ہے، لیکن خواتین اس سے انگریزی میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں (محض جلاپے میں) ورنہ انگریزی میں تو اچھے اچھوں کو بات کرنا نہیں آتی۔ (بعض افراد تو اچھی اردو میں بھی بات نہیں کرپاتے) عمران خان کو شادی کی لائن دی تھی، لیکن وہ ریحام کے چکر میں رہ گئے۔ جو کچھ ریحام نے کیا وہ می را تو نہ کرتی؟ اب ریحام بڑی توپ بن گئی اور می را چھوٹی۔ اس لیے کہ وہ جب سے وطن عزیز آئی ہے برابر عمران خان پر گولے داغ رہی ہے۔

توپوں کی توپ جنرل رانی بھی اس کے سامنے کچھ نہیں رہی۔ایک زمانے میں سلطان راہی بھی بڑی توپ ہوا کرتا تھا۔ فلم ''بشیرا'' میں سفید کپڑوں پر سرخ رنگ چھڑک کر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انڈسٹری پر چھا گیا۔

پھر یہی سرخ رنگ وہ دوسروں کے کپڑوں پر چھڑکنے لگا۔ پھر سرخ رنگ اس کا سمبل بن گیا۔ اسی لیے لوگ کہتے تھے کہ تھاں تھاں تباہی سلطان راہی۔ فلم میں مصطفیٰ قریشی اور سلطان راہی ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کی پوری کوشش کرتے رہتے تھے، گھونسے، لاتوں، چاقو، تلوار، کلہاڑی اور بندوق کا بے دریغ استعمال کرتے تھے، لیکن ہلاک نہیں کرپاتے تھے (وجہ نامعلوم)۔ رنگیلا نسبتاً چھوٹی توپ تھا، کھچاکھچ تے ڈزا ڈز۔ میں ٹنڈا بدمعاش ہوں کہہ کر لوگوں کو ڈرایا کرتا تھا۔ اس ہرزہ گوئی پر لوگ اس مسخرے کو معاف کردیا کرتے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔