ایک بڑے ادیب کی یاد میں تقریب

ایک سال گزرتے پتہ ہی نہیں چلا کہ وقت کا پنچھی ہے ہی تیز رفتار، اڑتا اور لمحوں و ساعتوں کو اڑاتا لیے چلا جاتا ہے۔


Naseem Anjum January 10, 2016
[email protected]

پچھلے دنوں فکشن گروپ کی طرف سے ایک یادگار ادبی تقریب ممتاز نقاد و شاعر صبا اکرام کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی، اس کی خاصیت یہ تھی کہ یہ پروفیسر علی حیدر ملک کی برسی اور کتاب کی اشاعت کے حوالے سے منعقد ہوئی تھی، اس میں نابغہ روزگار شخصیات نے شرکت کی تھی۔

ایک سال گزرتے پتہ ہی نہیں چلا کہ وقت کا پنچھی ہے ہی تیز رفتار، اڑتا اور لمحوں و ساعتوں کو اڑاتا لیے چلا جاتا ہے۔ بیتا ہوا وقت اور جانے والے لوگ واپس نہیں آتے ہیں، جوگئے تو گئے، بس گزرے دنوں کی یادیں ضرور دل ودماغ میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں اور جب موقع ملتا ہے تب یادوں کے دیے روشن ہوجاتے ہیں، روشنی کو بڑھانے کے لیے چراغوں میں تیل ڈالنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو 25 دسمبرکا دن اسی کارخیر کے لیے وقف کیا گیا تھا کہ بہت سی باتیں ہوں اور افسانوں کے مجموعے کا تعارف بھی ہوجائے۔

اے خیام بھائی پروفیسر علی حیدر ملک کے بچپن کے دوست ہیں یہ دوستی تقریباً 70 سال کی مدت پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنے دوست کی دوستی کا حق ادا اس طرح کیا کہ ان کے مختلف رسائل میں بکھرے ہوئے افسانوں کو اکٹھا کیا اور اسے کتابی شکل دے دی، مذکورہ کتاب کا عنوان ہے ''علی حیدر ملک کے افسانے'' یہ کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کتاب میں شامل افسانوں اور افسانچوں کی تعداد 39 ہے۔

''میں علی حیدر ملک کو نہیں جانتا'' کے عنوان سے یاور امان بھائی مرحوم کا مضمون علی حیدر ملک کی زندگی کے بہت سے گوشوں سے پردہ اٹھاتا ہے، ان کی زندگی کے نشیب و فراز سے قارئین کو آگاہی حاصل ہوتی ہے بے حد وقیع معلوماتی و تاثراتی تحریر ہے۔ اس کے علاوہ صبا اکرام، زاہدہ حنا کی آرا بھی درج ہے، زاہدہ حنا نے لکھا ہے کہ ''وہ جدید اردو افسانے کا اہم نام تھے، انھوں نے دوسری مرتبہ ترک وطن کا صدمہ سہنے کے بعد اپنے آپ کو دوبارہ پاکستان کی سرزمین میں کاشت کیا، ان کی اور میری پہلی ملاقات بنگلہ اور ہندی کہانیوں کے ترجمے کے حوالے سے ہوئی'' ۔

صبا اکرام نے علی حیدر ملک کے افسانوں پر روشنی اس طرح ڈالی ہے کہ''سن ساٹھ کی دہائی میں سامنے آنیوالے جدید افسانہ نگاروں میں علی حیدر ملک ایک نمایاں نام ہے، ان کے افسانوں میں جو پیرایہ اظہار سامنے آیا ہے وہ زبان کے آہنگ اور اس کی شیرینی کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کے حقائق اور اس کے Complexes کو ان کی تمام تر تلخیوں کے ساتھ علامتوں کے توسط سے پیش کرتا ہے، جس کے کارن ہر افسانہ ابلاغ کے اعتبار سے بیک وقت ایک سے زیادہ زاویہ نگاہ کا متقاضی ہے اور ہر زاویہ معنی کا نیا درجہ کھولتا ہے۔ ہر افسانے میں اس کے یہاں جدید عہد کی پرچھائیاں جھلملاتی نظر آتی ہیں۔''

علی حیدر ملک کی اس کتاب کے افسانوں کا اگر موازنہ ''بے زمین بے آسمان'' کے افسانوں سے کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس کتاب کے افسانے اپنی بنت کے اعتبار سے بے حد مختلف ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف زمانے اور حالات کے تحت ان کی تخلیق ہوئی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں کتابوں کے افسانے اپنے عہد، اپنے معاشرے کے عکاس ہیں کہ یہ وقت کا تقاضا تھا کہ مختلف ادوار میں لکھے گئے افسانے حقیقت اور تلخ تجربات کے آئینہ دار ہیں۔

بے شک یہ بڑی بات ہے کہ تقریباً تمام ہی افسانے اور افسانچے کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ تقریب تعارف کے موقعے پر صدارت ڈاکٹر محسن کی تھی، ڈاکٹر محسن کا طنزومزاح لکھنے کے حوالے سے اردو ادب میں ایک علیحدہ مقام ہے کئی کتابوں کے مصنف ہیں، نظامت کے فرائض ابن عظیم فاطمی نے انجام دیے، انھوں نے اپنا مضمون بھی نذر سامعین کیا، شہناز پروین، راقم الحروف، زیب اذکار حسین نے بھی علی حیدر ملک کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اے خیام نے کہا کہ حیدر ادب کے معاملے میں کمپرو مائزنہیں کرتا تھا۔ وہ ادب سے ہمیشہ وابستہ رہا، احمد زین الدین نے اس موقعے پر کہا کہ ان سے بہت اچھے تعلقات تھے ہمارے، ان کے چلے جانے کے بعد ایک خلا ہوگیا لیکن اس خلا کو اے خیام نے پر کرنے کی کوشش کی ہے، زیب اذکار نے ان کی گفتگو کو عالمانہ اور مدلل قرار دیا اور انھوں نے کہا کہ یہ دور علی حیدر ملک کا دور تھا۔ ڈاکٹر جمال نقوی نے رائے دی کہ ان پر تحقیقی مقالے ہونے چاہئیں اور ان کے کالموں کا مجموعہ بھی آنا چاہیے۔

صبا اکرام نے جواب میں کہا کہ ان پر مختلف یونیورسٹیوں میں کام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے ملک صاحب کے افسانوں کے بارے میں کہا کہ وہ جوگندر پال کے افسانچوں کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں وہ خوش تدبیر آدمی تھے، باہر سے جو لوگ آتے وہ ان سے ضرور ملواتے، ان کی موجودگی میرے لیے موسم بہار تھی، شہناز پروین نے انھیں اپنا بڑا بھائی قرار دیا اور ان کے حسن اخلاق، رواداری کا تذکرہ کیا۔ قمر افضل قمر نے علم و ادب اور صحافت کے حوالے سے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ہر لحاظ سے بڑے آدمی تھے۔ صدر محفل ڈاکٹر محمد محسن کا مضمون بے حد دلچسپ تھا، حاضرین محظوظ ہوئے ۔

خواب، خوشبو اور خاموشی شاکر انور کے افسانوں کا مجموعہ ہے، شاکر انور کافی عرصے سے لکھ رہے ہیں اور اچھا لکھ رہے ہیں، یہ ان کی پہلی کتاب ہے،کتاب میں شامل بائیس افسانے ناہموار معاشرے کی کہانی سناتے ہیں۔ ناانصافی، دکھ، غم اور ناکامیوں سے مزین افسانے قاری کو متاثر اور حیرانی کی منزلوں سے ہمکنار کرتے ہیں۔ شاکر انور کے لکھنے کا انداز دوسرے افسانہ نگاروں سے ذرا ہٹ کر ہے وہ جس طرح اپنے اردگرد کے واقعات کو دیکھتے ہیں انھیں افسانے کے قالب میں نفاست کے ساتھ ڈھال دیتے ہیں۔

خواب، خوشبو اور خاموشی کے افسانوں میں ٹوٹتے بکھرتے خواب بھی ہیں اور محبت کی خوشبو بھی پنہاں ہے، زیادہ تر افسانے محبت کے ہی گرد گھومتے ہیں، ٹائٹل اسٹوری خواب، خوشبو اور خاموشی بھی محبت اور محبت کی تلخیوں کے حوالے سے ایک اچھی کہانی ہے، جھوٹی اور سچی محبتوں کی شیرنی اور تلخیوں میں گھلی اور موسموں کی شدت میں رنگی ہوئی خوشبو دار کہانی اسی طرح ''تحفہ'' اور ''جمیرہ بیچ'' مذکورہ کتاب کے متاثر کن افسانے ہیں۔ شاکر انور کا ادبی سفر جاری ہے، امید ہے کہ نقش ثانی نقش اول سے زیادہ پرکشش ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں