سامراجی معاشی واشرافیائی جمہوری غلامی آخری حصہ
ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت میں مسلسل کمی کرتا ہے۔ جیسے یورپی ممالک و مڈل ایسٹ ممالک ہیں
دوسری طرف یہ بے حس حکمران بیرونی سرمایہ کاری کے مزید ملک میں پھیلنے کے لیے ہر طرح کے ملکی دروازے کھول رہے ہیں۔انھیں نظر نہیں آرہا ہے کہ تجارتی خسارے ملکی صنعت کی تباہی کی وجہ ہیں۔سامراجی نافذ کردہ Currency Devaluation Minus Economic Development کررہی ہے۔ سڈ مڈ CDMED اداروں کو خسارے میں لے جا رہی ہے۔
کیونکہ بیرونی منڈی سے حاصل کردہ تیل، مشینری، مشینری پرزہ جات کی ادائیگی مقامی کرنسی میں آئے دن مہنگی اور بڑھنے سے صنعتی کلچر تباہ ہوچکا ہے۔ عوام کی قوت خرید میں مسلسل کمی، اداروں کی تباہی، روزگارکی تباہی اور جس وقت پورے ملک کی معیشت کو سامراجی اژدھا نگل رہا ہے تو ان معاشی غلام ملکوں کے افواج کوکمزور کرنے کے لیے سامراجیوں نے طالبان، القاعدہ اور اب داعش کو فنڈنگ کرکے معاشی غلام ملکوں خاص کر اسلامی ملکوں کو نشانے پر لے لیا ہے۔
اب پھر ''اسلامی اتحاد'' کے نام سے مسلم ملکوں کی فوجوں کو مزید کمزورکرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ سامراجی امریکا کی عالمی دہشتگردی جارحیت اور معاشی غلامی کی زنجیروں کوکاٹنے کے لیے ان ملکوں کی حکمران اشرافیہ اور حزب اختلاف اشرافیہ نے کبھی کوئی پلان یا حکمت عملی تیار نہیں کی ہے۔امریکا کے جو حلیف Comrade(دوست) ممالک ہیں۔
ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت میں مسلسل کمی کرتا ہے۔ جیسے یورپی ممالک و مڈل ایسٹ ممالک ہیں۔ جیسے زمبابوے کا ڈالر 1950 میں 1.400 زمبابوی ڈالر ایک امریکی ڈالر کے برابر تھا۔ 2000 میں 93.00 کا ایک امریکی ڈالر ہوا۔ 2013 میں 378.00 کا ایک امریکی ڈالر کا ہوا۔ زمبابوے کی تجارت (کتاب IFS Oct 2015) کے صفحے 63,60 کے مطابق 70 کروڑ ڈالر سے خسارے کی تجارت رہی تھی۔ آرمینیا کا درہم 1972 میں 1.296 درہم کا ایک ڈالر تھا۔ 2014 میں 474.972 درہم کا ایک ڈالر کردیا گیا۔ آرمینیا کی تجارت 2014 میں امپورٹ 4 ارب 40 کروڑ ڈالر اور ایکسپورٹ ایک ارب 50 کروڑ ڈالر تھی۔
تجارتی خسارہ 2 ارب 90 کروڑ (2900.0ملین ڈالر)ڈالر ہوگیا اس طرح جن جن ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں پر سامراجی CDMED لگاتا گیا توں توں ان ملکوں کی معیشتیں خساروں میں بدلتی گئیں۔ ادارے خسارے میں چلے گئے ان ملکوں پر سامراجی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ عوام کی قوت خرید میں مسلسل کمی اور عوامی معیار زندگی گرتا چلا گیا۔
بے روزگاری پھیلتی گئی۔ بدامنی کو مزید پیدا کرکے مزید معاشی ناہمواری اور امن کا مسئلہ پیدا کرکے عوام میں گروپ بندیاں، سیاسی اور مذہبی کروا کر عوام اور فوج کے درمیان لڑائیوں کو پیدا کرکے ایسے ملکوں کو مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر پہلی اور دوسری جنگ میں سامراجیوں سے آزاد ہونیوالے ملکوں میں جان بوجھ کر سرحدی علاقائی جھگڑے برقرار اور بڑھانے کے لیے ملکوں کی تقسیم غلط کرنے کے بعد ان ملکوں کو اسلحے کی دوڑ میں لگا دیا گیا اور ان ہی معاشی غلام ملکوں کو ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے سامراجیوں نے اسلحہ فروخت کرکے مزید نفع حاصل کرنا شروع کیا۔
اگر اسلحے پر کیے جانے والے اخراجات کو صنعتی کلچر کے فروغ دینے پر خرچ کیا جاتا تو آج کرہ ارض کا ہر ملک جنت ہوتا۔ عالمی سطح پر کرنسیوں کے درمیان معاشی غلام ملکوں میں غیر ہمواری، برابری نہ ہونے کی وجہ سے ان ملکوں میں معیشت کا تضاد خود جان بوجھ کر سامراج نے پیدا کیا ہوا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جب تقسیم ہوکر الگ ہوئے تھے تو اس وقت 13 اگست 1947 کو دونوں ملکوں کا روپیہ کرنسی تھا اور 3 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ اور 31 دسمبر 2015 کو پاکستانی روپے کی قیمت 106.15 روپے کا ایک ڈالر تھا اور انڈیا کے روپے 62.441 روپے کا ڈالر تھا۔ پاکستانی روپے سے انڈیا کا روپیہ 70 فیصد زیادہ کردیا گیا۔ اس طرح دونوں ملکوں میں تجارتی فرق پیدا کرکے رکاوٹ ڈالی گئی۔
ایک طرف کشمیر کو جان بوجھ کر انڈیا میں رکھا گیا اور تیسری طرف دونوں ملکوں کو سامراجیوں نے اسلحہ بیچ کر ایک دوسرے سے خطرناک جنگیں کرا دیں۔ یہ فرق اپنی جگہ لیکن عالمی سطح پر جن ملکوں کی کرنسیوں کو CDMED کا نشانہ بنایا گیا، ان ملکوں کے لیے پٹرولیم اسی نسبت سے مہنگا کردیا گیا۔مورخہ 31 دسمبر 2015 کو عالمی پٹرولیم (تیل) کی قیمت 36.80 ڈالر فی بیرل تھی۔ پاکستان نے یہ پٹرولیم (تیل) 3906.32 روپے کا فی بیرل خریدا۔ انڈیا نے یہ پٹرول 22.97.828 روپے کا فی بیرل کے حساب سے خریدا۔ پاکستان کو ایک لیٹر 23.870 روپے لیٹر کا ملا۔ حکومت نے ٹیکس لگا کر عوام میں فی لیٹر 76.54 روپے کا پٹرول فروخت کیا۔ حکومت نے عوام کو پھر آگے 221 فیصد مہنگا فروخت کیا۔
یاد رہے کہ جس ملک میں پٹرولیم مصنوعات جتنی مہنگی ہوتی جاتی ہیں اس ملک کا صنعتی کلچر اسی نسبت سے ختم ہوتا جاتا ہے۔ ملکی صنعتی ترقی کی مسلسل نفی ہوتی جا رہی ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت نے ڈالر 60 روپے تک روک دیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر 77 فیصد روپے کی قیمت میں کمی کرکے سامراجی تجارت، سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں، سامراجی قرضوں اور ملکی قرضوں کے حجم میں کھربوں روپے کا اضافہ کرکے سامراجیوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ کیا یہ دونوں حکمران پارٹیاں عوام و ملک دوست ہیں؟ سرمائے کی بیرونی ملکوں کو منتقلی ایک تجارت، ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کمیشن لے کر پھیلایا اور دوسرا کرپشن کرکے کھربوں روپے ڈالروں میں تبدیل کرکے بیرونی ملکوں میں منتقل کردیے۔
عمران خان بتائیں یہ کھل کر کہ ان کی پارٹی کے منشور میں عوام اور پاکستان کو سامراجی معاشی غلامی سے آزادی دلانا ہے؟ یا خالی کھوکھلے نعروں سے انصاف، تھانہ کچہری کے اشرافیائی شکنجے سے عوام کو نجات دلانا ہے؟ اصل آزادی پاکستان کی معاشی آزادی ہے۔ صرف پٹرول کی مد میں حکمران، سامراجیوں کے اشارے پر عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ اس کے برعکس عمران خان یورپی لا کلچر کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ یورپی ملکوں کے عوام کو یہی پٹرول 31 دسمبر 2015 کو یورو کے حساب سے 0.911 یورو کا ایک ڈالر تھا۔ اس طرح یورو والے ملکوں نے 33.525 یورو کا ایک بیرل پٹرول خریدا۔ ان ملکوں کو ایک یورو کا پٹرول 4.881 لیٹر پڑا اور 0.204 یورو کا ایک لیٹر پٹرول پڑا۔ اسی وجہ سے ان ملکوں میں لاگتیں کم ہیں۔
اس وجہ سے صنعتی کلچر بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صنعتی کلچر معاشی غلام ملکوں میں لاگتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے۔ اور جوں جوں سامراجی مالیاتی مداخلت CDMED، قرضے، تجارت اور سامراجی حکم نامہ بڑھتا جا رہا ہے توں توں معاشی غلام ملکوں کے عوام کی زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے عوام کو معاشی آزادی کی بھرپور جنگ لڑنی پڑے گی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ لیکن سامراجی ایجنٹ حکمران عوام کو جمہوری غلام بناکر سامراجی حکمرانی کو قائم کیے ہوئے ہیں عوام کو اشرافیہ کی جمہوری غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔ فلسفی ماہر قانون خادم تھیم کہتا ہے ''آزاد منڈی کے نام پر پسماندہ ملکوں کو معاشی غلامی میں سامراجیوں نے جکڑ رکھا ہے۔