خواتین خود پر انحصار کریں
ہمت اور اپنی ذات پر بھروسا کرنے سے صنف نازک کی حق تلفی کا تدارک ممکن ہے.
گذشتہ برسوں میں حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے حوصلہ افزاء قانون سازی ہوئی ہے۔
اس پر عمل سازی کی ضرورت ہے ورنہ یہ غیر موثر ثابت ہوگی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق پورے کرنے پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی، حالاں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس میں خواتین کے نہ صرف باقاعدہ حقوق مقرر کیے گئے بلکہ ان کی ادائیگی پر زور بھی دیا گیا ہے۔ یہ حقوق اتنے زیادہ ہیں کہ خواتین کے لیے باپ اور شوہر کی جائیداد میں سے حصہ بھی مختص کیا گیا ہے۔ لیکن مشاہدے میں آتا ہے کہ خواتین کو نہ صرف جائیداد میں ان کے جائز حصے سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس کے لیے مختلف ہتھ کنڈے اختیار کیے جاتے ہیں، بلکہ ان کے دیگر حقوق بھی پورے نہیں کیے جاتے۔
عملی سطح پر قانون کی عمل داری نہ ہونے کے باعث ہی آج خواتین اپنے جائز حق سے محروم ہیں، بلکہ ان کے دیگر مسائل سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کئی قوانین کاغذوں پر تو موجود ہیں، لیکن نظام انصاف کی کم زوریاں ان پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی سے متعلق خواتین میں شعور و آگاہی پھیلانے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کی مدد سے یہ قانون سازی موثر ثابت ہوگی اور اپنے جائز حقوق سے محروم خواتین کو ان کے حقوق مل سکیں گے۔ 2010ء میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون کی منظوری ہوچکی ہے۔
علاوہ ازیں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے تجویز کردہ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظوری بھی اہم پیش رفت تھی۔ پھر 18 اپریل 2011ء میں خواتین کے حوالے سے قوانین بہتر بنانے کا عندیہ دیا گیا تھا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور انھیں ہر قسم کا تحفظ دینے اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے حوالے سے قوانین میں جو خامیاں موجود ہیں انھیں دور کیا جائے گا۔ یہ بات خوش آئند تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ جلد از جلد مناسب ترامیم کے بعد ان قوانین کو زیادہ عملی اور سخت بنایا جا سکے گا۔ تاہم اہم ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے سب سے پہلے تو ان رسوم و رواج کے خاتمے کی ضرورت ہے، جو روایات کی بنیاد پر ہمارے معاشرتی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان رسوم و رواج کے خاتمے کے لیے جہاں تعلیم اور شعور کا فروغ ضروری ہے۔ وہیں موثر قانون سازی کرکے ان کی روک تھام کے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ عورت جس کے کندھوں پر ہر وقت خاندان کی ذمہ داری کا بوجھ رہتا ہے اور جو خاندانی وقار کا بھاری دو شالہ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر ڈالے رکھتی ہے، جو کبھی کبھی اس کے گلے کا طوق بھی بنا دیا جاتا ہے، اسے عزت و غیرت کا نشان تو سمجھا جاتا ہے، لیکن جب کبھی خاندانی جھگڑے سراٹھاتے ہیں اور انتقام کے شعلے پھیلتے ہیں تو ہمیشہ عورت ہی اس سیلابِ بلاخیز کی زد میں آتی ہے۔
اسے کبھی قبائلی غیرت کے نام پر کاری قرار دیا گیا تو کبھی دو گروہوں کے درمیان بھڑکنے والی لڑائی کی آگ کو بجھانے کے لیے ونی اور ''سوارہ'' کے نام پر اس کی زندگی کو مسلسل عذابوں میں جھونک دیا گیا۔ جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے لڑکی کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے یا وراثت سے محروم رکھنے کے لیے قرآن سے شادی کرکے اسے ہمیشہ کے لیے مرد سے شادی کے حق سے دست بردار کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ظالمانہ رسمیں ہیں جن کے خلاف عورت کو بولنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اگر کسی نے زبان کھولی بھی تو اس کا چہرہ تیزاب سے مسخ کر دیا گیا۔ زیادہ تر عورتیں یہ سب ظلم خاموشی سے برداشت کرتی رہتی ہیں اور جو آواز اٹھاتی ہیں۔ انھیں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قتل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
دوسری طرف خواتین پر تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں گذشتہ برس ہونے والے ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کو خواتین کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ یہ سروے اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ہمارا ریاستی نظام اور معاشرہ ملک کی نصف سے زاید آبادی کے حقوق کو یک سر نظر انداز کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔
اس سروے کی تیاری میں دنیا بھر سے 213 صنفی امور کے ماہرین نے حصہ لیا اور خواتین کو لاحق چھے خطرات کی بنیاد پر یہ فہرست ترتیب دی تھی۔ ان خطرات میں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، تشدد، جنسی زیادتی، انتہاپسند سماجی اور مذہبی عناصر، وسائل اور ذرائع رسل و رسائل کی عدم دست یابی شامل ہیں۔ ان خطرات کی جَڑ ان فرسودہ رسوم و رواج میں ہے جو کبھی قبائلی روایات تو کبھی مذہب کی بنیاد پر ہر عورت کے استحصال کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کو درپیش خطرات کا بنیادی سبب انھیں انسانی حقوق کی فراہمی میں ریاست کی ناکامی ہے۔
پاکستان میں ہر روز جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین انصاف سے محروم ہی رہتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظام انصاف سے مایوسی ہی ان کا مقدر ہے۔ اس رویے کے باعث پاکستانی عورت پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم و جبر کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور آج پاکستان خواتین کے لیے خطرناک ترین پانچ ممالک، افغانستان، کانگو، پاکستان ، بھارت اور صومالیہ میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ صورت حال کافی افسوس ناک ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے گاہے بہ گاہے تشویش ناک اعداد و شمار اور رپورٹس کی اشاعت کے باوجود مقتدر طبقہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے پہلوتہی کرتا رہا ہے، عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔
ایسی صورت حال میں جہاں خواتین کا استحصال ہو رہا ہے اور وہ اپنے جائز حقوق سے بھی محروم ہے۔ خواتین کے حقوق سے متعلق ہونے والی قانون سازی پر تاحال عمل درآمد نظر نہیں آرہا ہے، تو خواتین کو خود باہمت بننا پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خواتین کے لیے اس حقیقت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ مسائل کے حل کے لیے کسی پر بھی انحصار کرنے سے زیادہ خود اپنی ذات پر اعتماد کیا جائے۔ اس ضمن میں خواتین کو سب سے پہلے تو تعلیم، شعور، اور آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ اس کے بھی کچھ شرعی، قانونی اور اخلاقی حقوق ہیں۔ خواتین کو غور کرنا چاہتے کہ آج کے معاشرے میں مرد کے شانہ بشانہ چلنے کے باوجود وہ عملی زندگی میں اتنی پیچھے کیوں ہے؟ مردوں کی لڑائی میں کاری ہمیشہ عورت کو ہی کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ بھائی کے قتل کا بدلہ بہن ہی کیوں ادا کرتی ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ عورت معاشرے کا اہم حصہ ہونے کے باوجود اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر پائی تو اجتماعی طور پر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ خواتین ہی ہیں جن میں ہر طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کی بے مثال صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جس طرح عورت گھریلو امور کی انجام دہی میں کئی کٹھن منزلیں اور مرحلے اکیلے ہی طے کرتی ہے اسی طرح اپنے جائز حق کے لیے عملی طور پر آواز بھی اٹھاسکتی ہے، بلکہ عملی طور پر اپنے موقف کو نہایت پرزور اور موثر انداز میں پیش بھی کرسکتی ہے۔
عموماً ہمارے ہاں خواتین اپنے جائز حق کے لیے بھی خاموشی اختیار کر لیتی ہیں، کیوں کہ انھیں مردوں کے اس معاشرے میں اپنے حق کے لیے بھی بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ یہ خوف بے وجہ نہیں، مردوں کے اس معاشرے میں اول تو ان کی بات سنی ہی نہیں جاتی ہے اور اگر سن لی جاتی ہے تو انھیں انصاف نہیں ملتا۔ لہٰذا وہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے خیال میں خواتین کے ساتھ بڑھتی ہوئی ناانصافی کا ایک سبب خواتین کی یہی خاموشی بھی ہے۔ اگر معاشرے میں مساوات اور برابری کے اصول کو جزوی طور پر بھی لاگو کیا جائے تو شاید عورت ذات پر لگے کچھ زخموں اور زیادتیوں کا مداوا ممکن ہوسکے گا۔ ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ ابتدائی طور پر افراد کی ذہنی سوچ میں تعمیری تبدیلی لائی جائے۔ خواتین کو پر اعتماد اور بااختیار بنایا جائے۔ ان کے اندر سے یہ خوف نکال دیا جائے کہ یہ صرف مردوں کا معاشرہ ہے، جس میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ خواتین کو اپنے جائز حق اور انصاف حاصل کرنے کے لیے خود پر انحصار کرنا ہوگا۔ اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے۔ اگر اپنے اردگرد نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں ایسی مسائل کا اکیلے ہی مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں، کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ ظلم و انصافی کے خلاف خاموش ہو کر بیٹھ گئیں تو وہ کبھی بھی انصاف اور اپنا جائز حق حاصل نہیں کرسکیں گی۔
خواتین اپنے جائز حق اور انصاف کے لیے اگر اکیلی قدم اٹھائے ہوئے ڈرتی یا گھبراتی ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے مدد طلب کریں۔ ہمارے ہاں ایسی کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو خواتین کو ان کے حقوق اور انصاف دلانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پولیس کی بدعنوانیاں عام ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کچھ میڈیا میں نظر آرہا ہے، وہ سب ویسا ہی ہو۔ یہ درست ہے کہ ہر ادارے میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ صرف برائی کو ہی عام کیا جائے اور پولیس اہل کاروں کا صرف منفی رویہ ہی دکھایا جائے۔ اس سلسلے میں خود میرا اپنا ذاتی تجربہ بہت مثبت رہا۔ جب مجھے ایک مسئلہ درپیش ہوا اور مجھے اپنے علاقے کی پولیس سے مدد طلب کرنا پڑی۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پولیس کا رویہ میرے ساتھ اس قدر مہذب اور احترام والا ہوگا۔ متعلقہ انسپکٹر نے نہ صرف میری درخواست پر توجہ دی بلکہ فوری طور پر میرا مسئلہ حل کرنے کے لیے عملی قدم بھی اٹھایا اسی طرح تھوڑی سی ہمت پیدا کرنے سے میرا مسئلہ بھی حل ہوا اور دوسری خواتین کے اندر بھی اپنے مسائل کو حل کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔
خواتین جب تک خود پر انحصار نہیں کریں گی اور اپنے حق کے لیے عملی قدم نہیں اٹھائیں گی وہ مسائل میں گِھری رہیں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں، تاکہ شعور و آگہی حاصل ہو۔ خواتین کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی ''دیر آید، درست آید'' کے مصداق تو ہے مگر یہ کاغذی نہیں عملی ہونی چاہیے، تاکہ آنے والی نسلوں کی پرورش جس آغوش میں ہو وہ محفوظ تو ہو۔
اس پر عمل سازی کی ضرورت ہے ورنہ یہ غیر موثر ثابت ہوگی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق پورے کرنے پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی، حالاں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس میں خواتین کے نہ صرف باقاعدہ حقوق مقرر کیے گئے بلکہ ان کی ادائیگی پر زور بھی دیا گیا ہے۔ یہ حقوق اتنے زیادہ ہیں کہ خواتین کے لیے باپ اور شوہر کی جائیداد میں سے حصہ بھی مختص کیا گیا ہے۔ لیکن مشاہدے میں آتا ہے کہ خواتین کو نہ صرف جائیداد میں ان کے جائز حصے سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس کے لیے مختلف ہتھ کنڈے اختیار کیے جاتے ہیں، بلکہ ان کے دیگر حقوق بھی پورے نہیں کیے جاتے۔
عملی سطح پر قانون کی عمل داری نہ ہونے کے باعث ہی آج خواتین اپنے جائز حق سے محروم ہیں، بلکہ ان کے دیگر مسائل سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کئی قوانین کاغذوں پر تو موجود ہیں، لیکن نظام انصاف کی کم زوریاں ان پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی سے متعلق خواتین میں شعور و آگاہی پھیلانے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کی مدد سے یہ قانون سازی موثر ثابت ہوگی اور اپنے جائز حقوق سے محروم خواتین کو ان کے حقوق مل سکیں گے۔ 2010ء میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون کی منظوری ہوچکی ہے۔
علاوہ ازیں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے تجویز کردہ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظوری بھی اہم پیش رفت تھی۔ پھر 18 اپریل 2011ء میں خواتین کے حوالے سے قوانین بہتر بنانے کا عندیہ دیا گیا تھا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور انھیں ہر قسم کا تحفظ دینے اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے حوالے سے قوانین میں جو خامیاں موجود ہیں انھیں دور کیا جائے گا۔ یہ بات خوش آئند تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ جلد از جلد مناسب ترامیم کے بعد ان قوانین کو زیادہ عملی اور سخت بنایا جا سکے گا۔ تاہم اہم ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے سب سے پہلے تو ان رسوم و رواج کے خاتمے کی ضرورت ہے، جو روایات کی بنیاد پر ہمارے معاشرتی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان رسوم و رواج کے خاتمے کے لیے جہاں تعلیم اور شعور کا فروغ ضروری ہے۔ وہیں موثر قانون سازی کرکے ان کی روک تھام کے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ عورت جس کے کندھوں پر ہر وقت خاندان کی ذمہ داری کا بوجھ رہتا ہے اور جو خاندانی وقار کا بھاری دو شالہ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر ڈالے رکھتی ہے، جو کبھی کبھی اس کے گلے کا طوق بھی بنا دیا جاتا ہے، اسے عزت و غیرت کا نشان تو سمجھا جاتا ہے، لیکن جب کبھی خاندانی جھگڑے سراٹھاتے ہیں اور انتقام کے شعلے پھیلتے ہیں تو ہمیشہ عورت ہی اس سیلابِ بلاخیز کی زد میں آتی ہے۔
اسے کبھی قبائلی غیرت کے نام پر کاری قرار دیا گیا تو کبھی دو گروہوں کے درمیان بھڑکنے والی لڑائی کی آگ کو بجھانے کے لیے ونی اور ''سوارہ'' کے نام پر اس کی زندگی کو مسلسل عذابوں میں جھونک دیا گیا۔ جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے لڑکی کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے یا وراثت سے محروم رکھنے کے لیے قرآن سے شادی کرکے اسے ہمیشہ کے لیے مرد سے شادی کے حق سے دست بردار کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ظالمانہ رسمیں ہیں جن کے خلاف عورت کو بولنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اگر کسی نے زبان کھولی بھی تو اس کا چہرہ تیزاب سے مسخ کر دیا گیا۔ زیادہ تر عورتیں یہ سب ظلم خاموشی سے برداشت کرتی رہتی ہیں اور جو آواز اٹھاتی ہیں۔ انھیں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قتل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
دوسری طرف خواتین پر تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں گذشتہ برس ہونے والے ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کو خواتین کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ یہ سروے اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ہمارا ریاستی نظام اور معاشرہ ملک کی نصف سے زاید آبادی کے حقوق کو یک سر نظر انداز کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔
اس سروے کی تیاری میں دنیا بھر سے 213 صنفی امور کے ماہرین نے حصہ لیا اور خواتین کو لاحق چھے خطرات کی بنیاد پر یہ فہرست ترتیب دی تھی۔ ان خطرات میں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، تشدد، جنسی زیادتی، انتہاپسند سماجی اور مذہبی عناصر، وسائل اور ذرائع رسل و رسائل کی عدم دست یابی شامل ہیں۔ ان خطرات کی جَڑ ان فرسودہ رسوم و رواج میں ہے جو کبھی قبائلی روایات تو کبھی مذہب کی بنیاد پر ہر عورت کے استحصال کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کو درپیش خطرات کا بنیادی سبب انھیں انسانی حقوق کی فراہمی میں ریاست کی ناکامی ہے۔
پاکستان میں ہر روز جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین انصاف سے محروم ہی رہتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظام انصاف سے مایوسی ہی ان کا مقدر ہے۔ اس رویے کے باعث پاکستانی عورت پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم و جبر کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور آج پاکستان خواتین کے لیے خطرناک ترین پانچ ممالک، افغانستان، کانگو، پاکستان ، بھارت اور صومالیہ میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ صورت حال کافی افسوس ناک ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے گاہے بہ گاہے تشویش ناک اعداد و شمار اور رپورٹس کی اشاعت کے باوجود مقتدر طبقہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے پہلوتہی کرتا رہا ہے، عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔
ایسی صورت حال میں جہاں خواتین کا استحصال ہو رہا ہے اور وہ اپنے جائز حقوق سے بھی محروم ہے۔ خواتین کے حقوق سے متعلق ہونے والی قانون سازی پر تاحال عمل درآمد نظر نہیں آرہا ہے، تو خواتین کو خود باہمت بننا پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خواتین کے لیے اس حقیقت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ مسائل کے حل کے لیے کسی پر بھی انحصار کرنے سے زیادہ خود اپنی ذات پر اعتماد کیا جائے۔ اس ضمن میں خواتین کو سب سے پہلے تو تعلیم، شعور، اور آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ اس کے بھی کچھ شرعی، قانونی اور اخلاقی حقوق ہیں۔ خواتین کو غور کرنا چاہتے کہ آج کے معاشرے میں مرد کے شانہ بشانہ چلنے کے باوجود وہ عملی زندگی میں اتنی پیچھے کیوں ہے؟ مردوں کی لڑائی میں کاری ہمیشہ عورت کو ہی کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ بھائی کے قتل کا بدلہ بہن ہی کیوں ادا کرتی ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ عورت معاشرے کا اہم حصہ ہونے کے باوجود اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر پائی تو اجتماعی طور پر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ خواتین ہی ہیں جن میں ہر طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کی بے مثال صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جس طرح عورت گھریلو امور کی انجام دہی میں کئی کٹھن منزلیں اور مرحلے اکیلے ہی طے کرتی ہے اسی طرح اپنے جائز حق کے لیے عملی طور پر آواز بھی اٹھاسکتی ہے، بلکہ عملی طور پر اپنے موقف کو نہایت پرزور اور موثر انداز میں پیش بھی کرسکتی ہے۔
عموماً ہمارے ہاں خواتین اپنے جائز حق کے لیے بھی خاموشی اختیار کر لیتی ہیں، کیوں کہ انھیں مردوں کے اس معاشرے میں اپنے حق کے لیے بھی بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ یہ خوف بے وجہ نہیں، مردوں کے اس معاشرے میں اول تو ان کی بات سنی ہی نہیں جاتی ہے اور اگر سن لی جاتی ہے تو انھیں انصاف نہیں ملتا۔ لہٰذا وہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے خیال میں خواتین کے ساتھ بڑھتی ہوئی ناانصافی کا ایک سبب خواتین کی یہی خاموشی بھی ہے۔ اگر معاشرے میں مساوات اور برابری کے اصول کو جزوی طور پر بھی لاگو کیا جائے تو شاید عورت ذات پر لگے کچھ زخموں اور زیادتیوں کا مداوا ممکن ہوسکے گا۔ ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ ابتدائی طور پر افراد کی ذہنی سوچ میں تعمیری تبدیلی لائی جائے۔ خواتین کو پر اعتماد اور بااختیار بنایا جائے۔ ان کے اندر سے یہ خوف نکال دیا جائے کہ یہ صرف مردوں کا معاشرہ ہے، جس میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ خواتین کو اپنے جائز حق اور انصاف حاصل کرنے کے لیے خود پر انحصار کرنا ہوگا۔ اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے۔ اگر اپنے اردگرد نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں ایسی مسائل کا اکیلے ہی مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں، کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ ظلم و انصافی کے خلاف خاموش ہو کر بیٹھ گئیں تو وہ کبھی بھی انصاف اور اپنا جائز حق حاصل نہیں کرسکیں گی۔
خواتین اپنے جائز حق اور انصاف کے لیے اگر اکیلی قدم اٹھائے ہوئے ڈرتی یا گھبراتی ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے مدد طلب کریں۔ ہمارے ہاں ایسی کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو خواتین کو ان کے حقوق اور انصاف دلانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پولیس کی بدعنوانیاں عام ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کچھ میڈیا میں نظر آرہا ہے، وہ سب ویسا ہی ہو۔ یہ درست ہے کہ ہر ادارے میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ صرف برائی کو ہی عام کیا جائے اور پولیس اہل کاروں کا صرف منفی رویہ ہی دکھایا جائے۔ اس سلسلے میں خود میرا اپنا ذاتی تجربہ بہت مثبت رہا۔ جب مجھے ایک مسئلہ درپیش ہوا اور مجھے اپنے علاقے کی پولیس سے مدد طلب کرنا پڑی۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پولیس کا رویہ میرے ساتھ اس قدر مہذب اور احترام والا ہوگا۔ متعلقہ انسپکٹر نے نہ صرف میری درخواست پر توجہ دی بلکہ فوری طور پر میرا مسئلہ حل کرنے کے لیے عملی قدم بھی اٹھایا اسی طرح تھوڑی سی ہمت پیدا کرنے سے میرا مسئلہ بھی حل ہوا اور دوسری خواتین کے اندر بھی اپنے مسائل کو حل کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔
خواتین جب تک خود پر انحصار نہیں کریں گی اور اپنے حق کے لیے عملی قدم نہیں اٹھائیں گی وہ مسائل میں گِھری رہیں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں، تاکہ شعور و آگہی حاصل ہو۔ خواتین کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی ''دیر آید، درست آید'' کے مصداق تو ہے مگر یہ کاغذی نہیں عملی ہونی چاہیے، تاکہ آنے والی نسلوں کی پرورش جس آغوش میں ہو وہ محفوظ تو ہو۔