پہلی وارننگ
شائد اس وقت مجھے خود بھی ڈرون حملے رکنے کا پورا یقین نہیں تھا۔
گاڑیاں چل نہیں رینگ رہی تھیں۔ ڈی آئی خان سے ٹانک جانے والی روڈ پر شائد ایک مہینے میں اتنی ٹریفک نہیں گزرتی جتنی گاڑیاں اکتوبر دو ہزار بارہ میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شامل تھیں۔ پتہ نہیں یہ لانگ مارچ کب تک چلے گا؟ کیا یہ قافلہ وزیرستان میں داخل ہو پائے گا؟ کیا اس مارچ کے نتیجے میں امریکی ڈرون حملے رک جائیں گے؟ ایسے بہت سارے سوال میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے کہ اچانک مجھے آواز آئی بھائی پانی پیئں گے آپ؟ اور ساتھ ہی اس بیس بائیس سال کے نوجوان نے منرل واٹر کی ایک چھوٹی بوتل میری طرف بڑھا دی۔
وہ پسینے سے شرابوراور خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھی دوسرے میڈیا والوں کو پانی پلانے لگے اور وہ وہیں میرے پاس کھڑاہوگیا۔ بھائی جان آپ کو کیا لگتا ہے یہ لانگ مارچ کامیاب ہو جائے گا؟ اس نے میرے ہی دماغ میں اٹھنے والا سوال مجھ پر ہی داغ دیا۔ جواب دینے کی بجائے میں نے الٹا سوال کیا نام کیا ہے آپ کا؟ جی عالمگیر خان۔ اور آئے کہاں سے ہو؟ اس نے گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائی اور بولا کراچی سے آیا ہوں۔ اتنی دور سے آنے والے کو مایوس کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا اور اس مارچ کے تمام منفی پہلوؤں کو اپنے ذہن سے جھٹک کر میں نے اس کے سوال کا جواب دیا '' آج نہیں تو کل یہ ڈرون حملے ضرور رک جائیں گے''۔
شائد اس وقت مجھے خود بھی ڈرون حملے رکنے کا پورا یقین نہیں تھا۔ مگر میرے جواب نے اس لڑکے پر جادوئی اثر کیا۔ اب میں اس کے چہرے پر تھکن کے بجائے خوشی کے آثار دیکھ رہا تھا۔ انشاء اللہ کہہ کر اس نے گاڑی سے ٹیک ہٹائی اور آگے بڑھنے لگا۔ میں نے اسے آواز دے کر پوچھا کہ عمران خان کے لیے آپ اتنی دور سے آئے ہو؟ اس نے مڑ کے میری طرف دیکھا اور اونچی آواز میں بولا '' بھائی جان میں عمران خان کے لیے نہیں پاکستان کے لیے آیا ہوں'' اور پانی کی بوتلیں لیے دوسروں کی پیاس بجھانے آگے بڑھ گیا۔ یہ میری اس سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
تقریباً سوا تین سال بعد جمعے کی رات خبرنامہ سنتے ہوئے میں نے اچانک اسی نوجوان کو ٹی وی اسکرین پر دیکھا۔ خبر یہ تھی کہ عالمگیر خان آجکل سندھ سرکار کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ کبھی بغیر ڈھکن والے گٹروں پر وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کی تصویریں بنا کرسوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے اور کبھی میڈیا کو لے کر خود گٹروں پر ڈھکن لگانے نکل پڑتا ہے۔ صرف جمعے کے دن اس لڑکے نے کراچی کی یونیورسٹی روڈ پر بیالیس گٹروں پر اپنے ساتھیوں کی مدد سے ڈھکن نصب کیے۔ جس پر ان کا کل خرچ تیرہ ہزار روپے آیا ہے۔ اپنے اس عجیب و غریب احتجاج سے عالمگیر خان نے سندھ حکومت کو جیسے کرنٹ لگا دیا۔ قائم علی شاہ صاحب کو تو یہاں تک کہنا پڑا کہ'' اب گٹروں پر ڈھکن لگانا تو میرا کام نہیں ہے'' مگر کمبخت سوشل میڈیا بڑا ظالم ہے۔
نوجوانوں نے اس ایشو پر سائیں سرکار کی ایسی درگت بنائی کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کو دو دن کے اندر اندر تمام گٹروں پر ڈھکن لگانے کی اہم ذمے داری سونپ دی گئی۔ جب کہ یہ کام ایڈمنسٹریٹر کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا کام ہے۔ جس کے چیئرمین وزیراعلی سندھ یا ان کا نامزد کردہ نمایندہ ہوتا ہے۔وزیر بلدیات نے تو باقاعدہ کھلے مین ہولز کی شکایات کے لیے ایک ایمرجنسی نمبر تک جاری کر دیا ہے۔ مگر سندھ سرکار کے سخت ترین احکامات کے باوجود ابھی تک کراچی میں ہزاروں گٹر اپنے اپنے ڈھکنوں کے منتظر ہیں۔
ایک طرف سندھ سرکار اس نئے قسم کے احتجاج سے نمٹ رہی ہے تو دوسری طرف عالمگیر خان کا فیس بک پیج نوجوانوں میں خاصہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں لاکھوں نوجوان اس پیج کو وزٹ کر چکے ہیں۔ نوجوان نہ صرف عالمگیر کے کام کو سراہ رہے ہیں بلکہ وہ اس کام میں شامل ہو کر اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔عالمگیر کے پیج پر صرف تعریفیں ہی نہیں ہو رہیں بلکہ لوگ اپنے اپنے علاقوں کے مسائل بھی بتا رہے ہیں۔ ایسے مسائل جو عموماً ہمارے منتخب نمایندوں اور سرکاری افسران کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا جنھیں جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
کوئی اپنے علاقے میں گندگی کے ڈھیروں کا رونا رو رہا ہے تو کوئی سیوریج کے گندے پانی سے پریشان ہے۔ کوئی اپنے گاؤں کی سڑک پکی نہ ہونے پرآگ بگولہ ہے تو کہیں پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ اسکولوں میں استادوں اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی قلت ہے تو کہیں کھیلوں کے میدانوں پر قبضے ہیں۔ یوں کہیے کہ ہر طرف مسائل کے انبار لگے ہیں۔ نوجوان نہ صرف مسائل کا ذکر کر رہے ہیں بلکہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے بجٹ میں رکھے عوامی پیسوں کا حساب بھی مانگ رہے ہیں۔اور عالمگیر خان نے انھیں ایک پلیٹ فارم دے دیا ہے۔ ایسا پلیٹ فارم جہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے ساتھ ساتھ مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے ایجوکیٹ بھی ہو رہے ہیں۔
دیکھا جائے توکراچی میں پچیس سالہ نوجوان کے ہاتھوں شروع ہونے والی یہ چھوٹی سے تحریک حکمران طبقے کے لیے ایک وارننگ ہے کیونکہ ابھی تو بات صرف گٹروں کے ڈھکنوں کی ہے۔ لیکن اگر بات آگے بڑھ گئی تو پھر کیا ہوگا؟ یا کیا کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ نوجوان اس وقت پاکستان کی آبادی کا سب سے بڑا اور طاقتورحصہ ہیں۔ اگرکہیں انھوں نے اپنا حصہ مانگ لیا تو پھر کیا ہوگا۔ ابھی تو ان کی زبانوں پر گٹروں کے ڈھکنوں، گندگی کے ڈھیروں، صاف پانی کی عدم فراہمی، پکی سڑکوں کے فقدان، کھیل کے میدانوں پر قبضوں اور زندگی کی بنیادی ضروریات کا تذکرہ ہے لیکن کل اگر یہی نوجوان وی آئی پی پروٹوکول کے راستے میں آگئے تو حکمران اپنے گھروں سے کیسے نکلیں گے؟ اگر انھوں نے سرکاری افسران اور ملک کی اشرافیہ سے ان پر اور ان کے خاندانوں پر ہونے والے سرکاری خرچوں کا حساب مانگ لیا توکیا ہوگا؟ کل اگر یہی نوجوان کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیتے ہیں تو کون کون ان کی لپیٹ میں آئے گا؟
کہیں ان کی نظر بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں ہونے والے کروڑوں اربوں کے گھپلوں پر پڑ گئی تو نجانے یہ کیا گل کھلا دیں۔ پرائیوٹائزیشن کے نام پر اس ملک میں جو بندربانٹ ہوئی ہے یا بقول اپوزیشن کے اب بھی ہو رہی ہے کہیں یہ نوجوان پرائیوٹائزیشن کے ان کھاتوں تک پہنچ گئے تو کون ان کو چکر دے سکے گا؟ ممکن ہے کل یہ مطالبہ کر دیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ سوئس اور دیگر بین الاقوامی بینکوں میں کس کس پاکستانی کا کتنا کتنا کالا دھن پڑا ہے؟ کس کس نے کب کب منی لانڈرنگ کی ہے؟ کل معمولی کاروبار شروع کرنے والے نودولتیے آج اچانک اربوں کھربوں کے مالک کیسے بن گئے وغیرہ وغیرہ۔
اگر ایسا ہوا تو پھر ان نوجوانوں کو بے وقوف بنانا ناممکن ہو گا۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر اکٹھے ہونیوالے یہ لاکھوں لڑکے لڑکیاں پڑھے لکھے بھی ہیں اور باشعور بھی۔ اگر یہ بکھرا ہوا جنون واقعی اکٹھا ہو گیا تو ذاتوں، زبانوں، فرقوں اور علاقوں کے نام پر قوم کو تقسیم کرنیوالوں کی دال پھر نہیں گلے گی۔ نفرت کی بنیاد پر سیاسی دکانیں چمکانے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ پھر کوئی عوام کے پیسوں کو عوام پرہی احسان جتلا کر خرچ نہیں کر سکے گا۔ بڑے بڑوں کی موجیں ختم ہو جائیں گی کیونکہ یہ تو نوجوان ہیں۔ یہ جب کچھ ٹھان لیتے ہیں تو قدرت کی مرضی بھی ان کی مرضی میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہ کام کا انتخاب بھی خود کرتے ہیں اور اسے کرنے کا طریقہ بھی ان کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے کوئی کتنا بھی اختلاف کرے یہ بس اپنے ہی راستے پر چلتے ہیں جو انھیں ٹھیک لگتا ہے وہی ٹھیک ہوتا ہے۔ کسی کو اختلاف ہے تو ذرا سوشل میڈیا پر عالمگیر کی تحریک کو چیلنج کر کے دیکھ لے۔ طبیعت بحال ہو جائے گی چند ہی منٹوں میں۔
ویسے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی تو بات صرف گٹر کے ڈھکنوں تک ہے اور نظام چلانے والوں کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنا اور اپنے ساتھیوں کا قبلہ درست کر لیں۔ حالات کو خود بدلنا شروع کریں۔ اپنا احتساب خود کر لیں۔ اور نوجوانوں کو ان کے اپنے مشاغل میں مصروف رہنے دیں۔ ورنہ عالمگیر اور اس کا ساتھ دینے والوں نے پہلی وارننگ تو جاری کر ہی دی ہے۔