یہ منصوبے… قطار در قطار
منصوبہ بندی صرف ایک طرز کی ہی نہیں کی جاتی بلکہ کسی ایک مقصد کے حصول کے لیے کئی طرح کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے.
ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور پاکستان سے لے کر پوری دنیا میں علم کی شمع روشن کرنے والی اس معصوم لڑکی کے لیے آوازیں اٹھنے لگیں، ایک شور سا مچ گیا، یہ ظلم ہے تشدد کی بدترین مثال ہے۔
ایک معصوم لڑکی کی طالبان سے کیا دشمنی۔ اس تمام صورت حال سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ابھی جاگے ہوئے ہیں سوئے نہیں ہیں۔ ہلیری کلنٹن ہو یا بان کی مون، بھارت ہو یا افغانستان ملالہ کی صحت یابی کے لیے سب دعا گو ہیں کہ وہ جلد از جلد ہشاش بشاش ہم سب کے ساتھ آ کھڑی ہو، وہ ایک خوش قسمت لڑکی ہے جس نے ایک چھوٹے شہر سوات میں جنم لیا، شاید اس کے کبھی گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس کی جرأت اور ہمت جسے غالباً وقتی طور پر جذباتی ہیجان بھی کہا جا سکتا ہے، اس قدر اسے شہرت کی بلندی پر لے جائے گا کہ دنیا بھر میں ملالہ یوسف زئی کے نام کا ڈنکا بج جائے گا۔ اپنے اسکول کی تباہی اور بربادی نے اس چھٹانک بھر کی بچّی کے دل میں کیسی قیامت بپا کی ہوگی جو وہ اتنا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود نتائج کی پروا کیے بغیر صرف اپنے دل کی کہہ گئی۔
بعد میں ہونے والے حالات و واقعات نے اس بچّی کی دل کی لگی کو ایسا پختہ کیا جو دشمنان کے دلوں کو بھی دہلا گئی اور بالآخر وہ اذیت ناک واقعہ رونما ہوا جس کا پوری دنیا کو بہت دکھ اور افسوس ہوا، یقیناً علم کی شمع روشن رکھنے کی خاطر ملالہ نے اپنے اردگرد کے ماحول کی پروا کیے بغیر جو کچھ کہا وہ اس کے دل میں پھوٹتی ہوئی علم کی اس شمع کی کرنیں تھیں، جس کے وجود نے ایسے دور افتادہ مقامات کی بچیوں میں بھی پڑھنے لکھنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ آج خیبر پختون خوا کے باپ اپنی بچیوں کو ان کے ذرا سے نکلتے قد دیکھ کر بیاہنے کا نہیں بلکہ اچھی تعلیم دِلوانے کا ضرور سوچیں گے۔
کسی بھی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ میں نے دورانِ تعلیم اپنی کتابوں سے یہی سیکھا ہے کہ منصوبہ بندی صرف ایک طرز کی ہی نہیں کی جاتی بلکہ کسی ایک مقصد کے حصول کے لیے کئی طرح کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، یعنی کسی وجہ سے منصوبہ نمبر ایک ناکام ہو گیا تو منصوبہ نمبر 2 پر عمل کیا جائے گا اور اگر کسی کمی بیشی، بیرونی عوامل، بجٹ اور دوسرے بہت سے عوامل کی وجہ سے منصوبہ نمبر دو بھی ناکام ہو گیا تو منصوبہ نمبر تین پر عمل کیا جائے گا۔ یہ منصوبے ایک زنجیر کی مانند ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں لیکن ان تمام کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کے منصوبے یوں ہی نہیں بنائے جاتے، اس کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم ہوتی ہے جو اس کے تمام خدوخال پر غور کرتی ہے۔ پرانے اور نئے تجربات کو سامنے رکھا جاتا ہے اور پھر نہایت غور و خوض اور بھرپور شماریاتی تجزیے کے بعد اسے لاگو کیا جاتا ہے۔
ایسے منصوبے محض ترقی کے پروجیکٹس میں ہی استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ بہت سے دیگر پروجیکٹس بھی اسی منصوبہ بندی کے بعد اپنی مدت مکمل کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بہت سی قوتیں اپنے ممالک میں اپنی ترقی کی راہ کو ہموار کرنے کے لیے چھوٹے ممالک میں ایسی منصوبہ بندی کرتی ہیں کہ جس سے وہ ممالک مسائل میں گھرے اور ان بڑے ممالک کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہیں لیکن پاکستان کے ساتھ مسئلہ کچھ ٹیڑھی کھیر کی مانند ہے۔ یہاں بات محض غلامی کی ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان میں روس اور مغربی طاقتوں کے درمیان اس رسّہ کشی کی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی باشندوں کی ہمیشہ کے لیے مدغم ہو گئی، جس سے پاکستان کا معاشرہ اور معاشیات بری طرح اثرانداز ہوئی۔
مٹی کی خوشبو سے قدرتی طور پر ناآشنائی ایسے لوگوں میں ملک سے محبت کو کیا الفت کا وہ رشتے بھی استوار نہ کرپائی جس کی یہ مٹی حق دار تھی۔ پاکستان افغانستان کی جنگ سہتے سہتے اپنے دامن کو ہی جلا بیٹھا۔ طالبان کا نام پاکستان کے لیے ناسور بن گیا۔ بات اگر ناموں تک ہی برقرار رہتی تو شاید ہضم کی جا سکتی تھی لیکن یہ دہشت گردی اور اذیت کے کارناموں سے سجا وہ باب بن گیا جو نہ جانے کب بند ہو۔ ایسے ہی طالبان کی گولی کا نشانہ ملالہ بنی دنیا بھر کی نظریں طالبان کی جانب نفرت سے اٹھیں۔ اس کے دو دن بعد ہی شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے سے چالیس کے قریب انسانی جانیں ضایع ہو گئیں۔
بان کی مون نے دو سطریں بھی لکھنا گوارا نہ کیں۔ میڈونا نے ایک لے بھی ان شہیدوں کے لیے ضایع نہ کی۔ ہلیری کلنٹن نے کچھ نہ کہا، سول سوسائٹی کا رخ کسی اور ہی جانب تھا، سب کی نظریں کسی اور ٹارگٹ پر مرکوز تھیں۔ اس ٹارگٹ کے ادھر اور ادھر کیا کچھ ہو رہا ہے، کسی کو نظر نہ آیا۔ نیوز چینل پر سطریں سی چلیں اور بس یہ ہے کہانی انسانی جانوں کی۔ چاہے وہ معصوم ملالہ ہو یا شمالی وزیرستان کی انارکلی۔ بچے سب کے پیارے ہوتے ہیں، گورے ہوں یا کالے، ان کے لیے دل سے محبت ابھرتی ہے۔
ہم عادی ہوجانے والی قوم ہیں۔ بری عادتوں میں جلد ہی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کرپشن کی لت ایسے لگی کہ پینسٹھ برسوں میں اس میں کمی نہیں آئی، خیر سے بڑھتی ہی گئی۔ غیر ملکیوں نے ملک میں ڈیرے ڈالے۔ کیا بنگالی، کیا افغانی اور کیا بھارتی سب پڑائو ڈالتے گئے، غیر ملکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس، مائیکل جان اور ڈیوڈ کی صورتوں میں ہمارے اردگرد محلوں میں گھومتے پھرتے رہے۔ ہم بے پروا اپنی دھن میں مگن چلتے رہے۔ امریکا طالبان سے ناراض ہوا اور اسامہ بن لادن سے ایسے کٹی کی کہ اس کی تلاش میں چپکے سے بغیر اجازت ہماری دھرتی پر اتر کر کسی کو داغا اور کسی کو تاکا۔ بہرحال ڈرون حملے اذیتوں اور تشدد کے سفر میں نہایت ماڈرن ٹیکنیک کے طور پر اس قوم پر نازل ہوئے اور ہنوز جاری ہیں۔ امریکی قوم اور دنیا بھر میں مہذب اقوام کے کچھ طبقوں کے دلوں میں بھی ان ڈرون حملوں کے خلاف غم و غصّہ پایا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں ان حملوں کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ انسانی خون اپنی زبان بولتا ہے وہ خاموش نہیں رہتا، کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں سامنے آ ہی جاتا ہے، بڑے لوگ ان کی زبان کو دہشت گردی کی آڑ میں بند کرنا چاہتے ہیں لیکن بھلا ہوا بھی کوئی مٹھی میں قید کر سکا ہے۔ نومبر آ گیا ہے، امریکا میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ ہم تو کم عقل والے چھوٹے قد کے لوگ ہیں، بڑے بڑے منصوبے ہماری عقل میں کب آتے ہیں۔
نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے