بیگم نصرت بھٹو ایک مظلوم ماں

جس کے اعصاب کو ضیاء الحق کے مظالم نہیں ہلاسکے وہ اپنے پیارے بچوں کی جدائی پر اپنے حواس کھو بیٹھی .


Shaista Zaidi October 31, 2012

بیگم نصرت بھٹو کی پہلی برسی بھی ہوگئی۔ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی ان کی اولاد، ان کے کارکنوں اور ان کی پارٹی کے جیالوں کو اچانک یاد آیا کہ وہ بہت بڑی خاتون تھیں، انھیں نشانِ پاکستان سے بھی نوازا گیا، دس دن کا سوگ بھی منایا گیا، گارڈ آف آنر بھی پیش ہوئے، مادر جمہوریت کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔

بیگم بھٹو نے پاکستان کی تاریخ میں ایک آہنی اعصاب والے مجاہد کا کردار ادا کیا، جس زمانے میں بھٹو صاحب پھانسی کی کوٹھری میں تھے اور وہ اور ان کی بیٹی نظر بند تھیں اس دور میں انھوں نے اپنے حوصلے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ بھٹو صاحب کے بعد انھوں نے اس تاریک ترین اور ظالم ترین دور میں جب کہ بڑے بڑے ہیرو گھروں میں بیٹھ گئے تھے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پنجاب پولیس نے لاٹھیوں سے لہولہان کردیا۔ اس موقع پر لی گئی ان کی خون آلود تصویر ہماری تاریخ کا قابل فخر صفحہ ہے۔ اسی زمانے میں اپنے دونوں بیٹوں کی جلاوطنی بھی جھیل گئیں۔ یہاں تک کہ اسی جلاوطنی کے زمانے میں ان کا چھوٹا بیٹا ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا۔ لیکن بیگم بھٹو نے حوصلہ نہیں ہارا۔ دوسرا بیٹا اپنے گھر کے دروازے پر اپنی ہی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا جبکہ اس کی بہن ملک کی وزیراعظم تھی۔

لوگ بتاتے ہیں کہ آخری مرتبہ انھیںِ عوام نے اس وقت دیکھا جب مرتضیٰ کے سوئم میں وہ ایک تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں۔ اس زمانے میں وہ غنویٰ بھٹو کے ساتھ ہی رہتی تھیں اور اس سانحے کے بعد بھی وہ وہیں رہیں۔ ان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ وہ اپنے شہید بیٹے کے بیوی بچوں کے پاس ہی رہنا پسند کرتی تھیں۔ اس کے بعد وہ وزیراعظم ہائوس اور پھر وہاں سے دبئی پہنچادی گئیں۔ یہ واقعات 1996 کے ہیں اور ان کا انتقال 2011 میں ہوا۔ پورے پندرہ سال کے روز و شب اس فعال اور تاریخ ساز خاتون نے کہاں اور کیسے گزارے؟ آج جو ان کی قربانیوں کی بدولت حکومتی ایوانوں میں عیش کررہے ہیں اس کی کوئی رپورٹ نہیں دیتے۔ نہ اس زمانے کی کوئی تصویر کہیں ملتی ہے۔ کسی عقیدتمند، کسی جیالے کا ان سے ملنے کا جی نہ چاہا۔ اس زمانے میں نہ ہی ان کی کسی اولاد کا بیان آیا کہ وہ کس حال میں ہیں۔

ہاں میں نے ایک اخبار میں ان کی ایک اولاد کا کالم پڑھا جس کو پڑھ کر میں اپنے آنسو نہ روک سکی۔ یہ فاطمہ بھٹو کی تحریر تھی۔ ان کی لاڈلی بڑی پوتی۔ ان کے اس بیٹے کی نشانی جو اس دنیا سے جاچکا تھا۔ فاطمہ نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں اپنی دادی کی محبتوں کا ذکر کیا تھا۔ اور پھر یہ لکھا تھا کہ کئی سال سے اسے اور اس کے چھوٹے بھائی ذوالفقار کو دادی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک دفعہ اخبار میں فاطمہ کی ایک اپیل بھی آئی تھی۔ اس نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب سے درخواست کی تھی کہ اسے اور اس کے بھائی کو اپنی دادی سے ملنے کا انتظام کرایا جائے۔ چند دن بعد ہی بیگم صاحبہ کے انتقال کی خبر آگئی۔

ہم نے پیپلز پارٹی کے بعض لوگوں سے پوچھا کہ اس صورت حال کی کیا وجہ ہے۔ بتایا گیا کہ بیگم صاحبہ ذہنی مریضہ ہوچکی ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کہ کہاں تک یہ بات ٹھیک ہے۔ اگر وہ ذہنی مریضہ بھی تھیں تو کیا مریضوں سے یہی سلوک ہوتا ہے کہ مریض کو اس کے پہریداروں (جو Attendant کہلاتے ہیں) کی نگرانی میں قید تنہائی میں ڈال دیا جائے اور جیتی جاگتی دنیا سے ہر رابطہ منقطع کردیا جائے۔

اگر کسی پورے طور پر جسمانی اور ذہنی لحاظ سے صحتمد دادی سے اس طرح اس کے مرحوم بیٹے کی نشانیوں کو چھین لیا جائے تو وہ دیواروں سے سر پھوڑنے لگے گی۔ اور آج جو ان کی رنگین تصویریں چھاپ رہے ہیں، ان کے آخری پندرہ سال کی ان کے پاس کوئی تصویر نہیں ۔ آج جو ان کی محبت اور عقیدت میں سوگوار ہیں ان کا ان پندرہ سال میں ان سے کبھی ملنے کا دل نہیں چاہا؟ اگر کوئی پاگل بھی ہوجائے تو کیا اسے اس کے چاہنے والے کبھی دیکھنے نہیں جاتے؟

وہ بہادر خاتون ضیاء الحق کے مظالم جس کے اعصاب کو نہیں ہلاسکے وہ اپنے پیارے بچوں کی جدائی پر اپنے حواس کھو بیٹھی۔ میں نے کئی لوگوں سے یہ بھی کہا کہ فاطمہ کو اپنی دادی سے ملوائو تو سہی۔ جواب یہ تھا کہ وہ کسی کو نہیں پہچانتیں۔ اور میں یہ کہتی تھی وہ کسی کو نہ پہچانیں مجھے یقین ہے فاطمہ کو پہچان لیں گی، وہ ایک ماں ہیں۔

ان کی برسی پر بڑی دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔ لیکن میں اس مظلوم ماں کا سوگ منا رہی ہوں جس کی میت بھی اس کے گھر نہیں آئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں