تھر معصوم بچوں کی موت کی وادی
تھر کے حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اب کسی کمیٹی کی نہیں بلکہ فوری طور پرعملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ سال تھر میں قحط سالی اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد نئے سال کے ابتداء میں ایک مرتبہ پھر ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا اور رواں سال کے ابتدائی 6 روز کے دوران 15 کمسن بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ ہلاکتیں روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں۔ جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن افسوس حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بھی حکومتی توجہ اس جانب نہیں۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بلند و بانگ دعوے کرکے ان علاقوں سے ووٹ لینے والے بھی ان معصوم بچوں کی ہلاکتوں سے قطعی پریشان نظر نہیں آتے۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی تھر میں ہلاکتوں پر حالات کا جائزہ لینے کے لئے حکومت سندھ کی جانب سے 2 رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے۔ لیکن حالات اس قدر سنگین ہوتے جارہے ہیں کہ اب کسی کمیٹی کی نہیں بلکہ فوری طور پرعملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی، ادویات، خوراک اور وسیع پیمانے پر طبی ٹیمیں بھیجی جائیں اور یہ سلسلہ مستقل بنیاد پر کیا جائے۔ تھرپارکر اور قرب و جوار میں واقع علاقوں میں قائم اسپتالوں کو فوری طور پر ادویات فراہم کی جائیں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کے لیے 1 ہزار سے 4 ہزار روپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر 2 سے 4 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچے صحت مرکز پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقل بنیادوں پر صحت مراکز کے طرز پر طبی کیمپ لگائے جائیں۔ متاثرہ علاقوں میں ایمبولینس سروس کو فعال کیا جائے جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں دستیاب ہو۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ لوگ اسپتالوں تک نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ صحت کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ لیکن کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ لوگ اسپتالوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟ دراصل غربت کے مارے ان لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایمبولینس نہ ہونے کی صورت میں ٹیکسی پر سفر کرسکیں۔ کیوںکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ایمبولنس کے فقدان کی وجہ سے لوگ حالتِ مجبوری ایمرجنسی میں ٹیکسی پر ہی سفر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں میں شعبہِ صحت تباہ حالی کا شکار ہے اور حکومتی لاپرواہی اسے مزید تباہی سے دوچار کررہی ہے۔ اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے۔ جہاں ڈاکٹروں کی 25 اسامیاں ہیں وہاں ایک ڈاکٹر کام کررہا ہے۔ اب یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر 24 گھنٹے ڈیوٹی نہیں دے سکتا بس اِسی وجہ سے جب بھی مریضوں کو ایمرجنسی میں اسپتال لایا جاتا ہے تو اکثر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا اور طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات اچانک نہیں شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ ہاں اس میں شدت اچانک آجاتی ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی جانب سے کوئی خاطر خواہ عملی کام نہیں کیا جارہا ہے۔ تمام حکومتی اداروں، فلاحی اداروں اور تمام صاحبِ حیثیت افراد سے اپیل ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور خدارا! ان معصوم بچوں کی زندگیوں کو بچائیں۔
[poll id="882"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بلند و بانگ دعوے کرکے ان علاقوں سے ووٹ لینے والے بھی ان معصوم بچوں کی ہلاکتوں سے قطعی پریشان نظر نہیں آتے۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی تھر میں ہلاکتوں پر حالات کا جائزہ لینے کے لئے حکومت سندھ کی جانب سے 2 رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے۔ لیکن حالات اس قدر سنگین ہوتے جارہے ہیں کہ اب کسی کمیٹی کی نہیں بلکہ فوری طور پرعملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی، ادویات، خوراک اور وسیع پیمانے پر طبی ٹیمیں بھیجی جائیں اور یہ سلسلہ مستقل بنیاد پر کیا جائے۔ تھرپارکر اور قرب و جوار میں واقع علاقوں میں قائم اسپتالوں کو فوری طور پر ادویات فراہم کی جائیں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کے لیے 1 ہزار سے 4 ہزار روپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر 2 سے 4 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچے صحت مرکز پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقل بنیادوں پر صحت مراکز کے طرز پر طبی کیمپ لگائے جائیں۔ متاثرہ علاقوں میں ایمبولینس سروس کو فعال کیا جائے جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں دستیاب ہو۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ لوگ اسپتالوں تک نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ صحت کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ لیکن کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ لوگ اسپتالوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟ دراصل غربت کے مارے ان لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایمبولینس نہ ہونے کی صورت میں ٹیکسی پر سفر کرسکیں۔ کیوںکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ایمبولنس کے فقدان کی وجہ سے لوگ حالتِ مجبوری ایمرجنسی میں ٹیکسی پر ہی سفر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں میں شعبہِ صحت تباہ حالی کا شکار ہے اور حکومتی لاپرواہی اسے مزید تباہی سے دوچار کررہی ہے۔ اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے۔ جہاں ڈاکٹروں کی 25 اسامیاں ہیں وہاں ایک ڈاکٹر کام کررہا ہے۔ اب یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر 24 گھنٹے ڈیوٹی نہیں دے سکتا بس اِسی وجہ سے جب بھی مریضوں کو ایمرجنسی میں اسپتال لایا جاتا ہے تو اکثر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا اور طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات اچانک نہیں شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ ہاں اس میں شدت اچانک آجاتی ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی جانب سے کوئی خاطر خواہ عملی کام نہیں کیا جارہا ہے۔ تمام حکومتی اداروں، فلاحی اداروں اور تمام صاحبِ حیثیت افراد سے اپیل ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور خدارا! ان معصوم بچوں کی زندگیوں کو بچائیں۔
[poll id="882"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔