صفر لفظ کی کہانی
بیس، پچیس، سو یا دو سو لفظوں کے بجائے صفر لفظ کی کہانی لکھی جائے تاکہ اِن پر بھی جو وقت برباد ہوتا ہے وہ بچالیا جائے۔
KARACHI:
وہ بھی کیا وقت تھا کہ جب اردو کے ایسے بھاری بھرکم ناول لکھے جاتے تھے۔ اگر دو اشخاص میں سے کوئی ایک کسی صاحب ذوق کے ہمراہ اُس کی بیٹھک یا کتاب خانے میں بیٹھا گفتگو کررہا ہو تو مجال ہے کہ صاحبِ خانہ کسی بات پر اختلاف کی ہمت کرسکے۔ کیونکہ اُس کی نظریں صاحب کے دھان پان سے جسم سے زیادہ میز اور کمرے میں سجی اُن بھاری بھاری کتابوں سے خوف کھاتی تھیں جو کسی اختلاف کی صورت میں سرکے دو ٹکڑے نہ بھی کرسکیں مگر کم از کم سر ضرور پھاڑ سکتی تھیں۔
بعض کمزور مریل قسم کے لوگ مطالعے کا ذوق اپنے اندر رکھتے نہیں تھے بلکہ پیدا کرتے تھے، یوں نہ صرف اُن کے پیدا ہونے کا جواز بھی رہتا تھا اور اپنے مرنجان مرنج وزن کے باعث ایسی کوئی بھاری کتاب سے ہوا کے دوش پر اُڑنے کا ڈر بھی نہیں رہتا تھا۔
جبکہ دوسری جانب میاں جان کی کتابوں کے عشق سے نالاں بعض خواتین اِس کو بلا دھڑک سوت کا درجہ بھی دے دیتی تھیں۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی کہ میاں جانی نے تو اتنی ہمارے ساتھ زندگی بسر نہیں کی جتنی ان افسانوں کے ساتھ گذر رہی ہے۔ جس کے باعث اپنا وجود اس گھر میں ایک بھولی بسری داستان کی طرح ہوتا جارہا ہے۔ لہذا کتابوں سے رقابت کا یہ جذبہ اُس وقت تو مزید بڑھ جاتا جب بستر میں کسی افسانے پر نظریں جمائے میاں جانی کو دیکھتیں تو اپنے کتابی چہرے کو کبھی اس انہماک سے نہ پڑھے جانے کا غم سوا ہوجاتا اور اگر کبھی پڑھتے پڑھتے نیند آجانے کی صورت میں اُس کتاب کو ان کے سینے پر پڑے دیکھتیں تو خود اپنے سینے پہ سانپ لوٹنے لگتے اور کسی اچھا دھاری ناگن کی طرح اس کتاب کی تصویر آنکھوں میں بسالی جاتی۔
اس کتاب سوت سے دشمنی یوں نکالی جاتی کہ اگر سامنے کریانے والے ظہور چاچا کی دکان سے کچھ منگانا ہوتا جو ہر وقت باٹ نہ ہونے کا رونا روتے دکھائی دیتے تو فوراَ منے کے ہاتھ میں اپنے درکار وزن کے حساب سے کوئی کتاب پکڑا دی جاتی کہ جا اس کے وزن کی چینی، دال یا چاول تُلوا کر لے آ، اور یوں ظہور چاچا کے ہاتھ میں کتا ب جانے سے رگ رگ میں وہی سکون اُترتا جو فلموں میں ایک لڑکی اپنے محبوب کی محبوبہ کو کسی ولن کے پاس چھوڑ کے آنے پر محسوس کرتی تھی۔ پھر کچھ خواتین تو اس بدلے کی آگ میں اتنی اندھی ہوجاتیں کہ ادھر موقع میسر آیا اُدھر کبھی میاں جان کے ہاتھوں اور سینے کی زینت بنی رہنے والی کتاب کسی ردی والے کے ٹھیلے پر نظر آتی اور اس کتاب کے بدلے میں ملنے والی کھجوروں سے کتاب کی اس طرح رخصتی پہ یوں میٹھا کھایا جاتا جیسے کتاب نہیں اس گھر سے کسی سوت کو باہر نکال پھینکا ہو۔
لیکن یہ حال تمام خواتین کے حوالے سے نہیں کہا جاسکتا تھا کچھ ایسی بھی تھیں جو میاں جانی کے کتابوں سے اس عشق پر شُکرادا کرتی نظر آتی تھیں کیونکہ جب تک میاں جانی کتابوں کے عشق میں نہیں پڑے تھے یعنی کتابوں سے زیادہ زوجہ کے کتابی چہرے کے عشق میں گرفتار تھے تو کتابوں کے ایڈیشن کی طرح ہر سال ان کے بچوں کی تعداد میں ایک کا اضافہ ہورہا تھا۔ پھر میاں جانی پر کتابوں کے شوق کا دروازہ کُھلا اور جیسے جیسے کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا میاں جانی کی دلچسپی ان کے وجود سے ازخود کم ہوتی گئی اور اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ کبھی پھول سا رہا اہلیہ کا بدن اور کبھی کتاب سا رہا وہ کتابی چہرہ بارہ بچوں کے بعد ویسے ہی کتاب کے بجائے کوئی چلتا پھرتا کتب خانہ دکھائی دینے لگا تھا۔
جبکہ دوسری جانب کتابیں پڑھنے کے شوق میں مبتلا مردوں کا موقف یہ تھا کہ جناب ایک تو کتابیں جہاں ذہن اور سوچ کو جلا بخشتی ہیں وہیں دوسری جانب ان کی رفاقت میں وقت اچھا گذرتا ہے اور یہ چیز کم از کم بیوی کے ساتھ ہرگز ممکن نہیں اور اگر کبھی کچھ نہ پڑھنے کا دل چاہے تو جب چاہو جہاں چاہو بند کرکے رکھ دو۔ اُف تک نہیں کرتیں اور سب سے بڑی خوبی جو قطعی نظر انداز نہیں کی جاسکتی وہ یہ کہ پسند نہ آنے کی صورت میں پڑھ کر کسی دوست کو تحفتاَ بھی دی جاسکتی ہے یا بارٹر سسٹم کے اصول کے تحت ایک کتاب دے کر دوسری لی جا سکتی ہے۔
لیکن جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی اور فوڈ کے بجائے فاسٹ فوڈ کے استعمال کی روایت نے زور پکڑا تو اس فاسٹ فوڈ کی طرح کے فاسٹ رائٹرز بھی دستیاب ہونے لگے۔ جنہوں نے تحریر کو بھی فاسٹ فوڈ کا درجہ دے دیا یعنی ایک کتاب کے تصور کو ایک صفحے میں سمیٹنے کی کوششیں شروع کردیں اور طویل داستانوں کے بجائے مخصوص لفظوں کی تعداد کا تصور پیش کیا۔ مختصر کہانیوں کے تصور کو فروغ دینے والا تحریر نگاروں کا یہ طبقہ اس طرح کی کہانیوں کو وقت کی ضرورت بتاتا ہے، کہ تیز رفتاری اور مصروفیات زندگی کے باعث آج لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی کہاں کہ وہ کوئی طویل داستان یا افسانے کو پڑھنے کے لئے وقت نکالیں اور وقت کی یہی عدم دستیابی اس خیال کی وجہ بنی کہ تحریر کی ایک ایسی شکل متعارف کرائی جائے کہ لوگ جتنی دیر میں اپنی چائے کا کپ یا ہاتھ میں دبا برگر ختم کریں اتنی دیر میں کہانی بھی ختم ہوجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح ان محدود لفظوں کی کہانیوں کے باعث کم از کم لوگوں میں کہانیاں پڑھنے کا جذبہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
اب یہ دلیل ان کے اپنے تئیں خواہ کتنا ہی وزن کیوں نہ رکھتی ہو یہ بات طے ہے کہ یہ بھاری دلیل دینے والے خود اور اُن کی تحریر نگاری کا فن بڑا ہلکا ہے۔ اپنے خیال یا تحریر کو بہترین ثابت کرنے کے لئے یہ بات نہایت مضحکہ خیز ہے کہ طویل داستانیں یا افسانے پڑھنے والوں کے پاس وقت کی کمی کے باعث اس طرح کی کہانیوں کے لکھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ گنتی کے لفظوں کو کہانی کا نام دینے والے اس طبقے کو اگر لوگوں کی مصروفیت اور وقت کا اتنا ہی خیال ہے تو کم از کم یہ ایک احسان اور کریں کہ بیس، پچیس، سو یا دو سو لفظوں کے بجائے صفر لفظ کی کہانی لکھنے کی روایت ڈالیں تا کہ ان سو دو سو لفظوں پر بھی جو وقت برباد ہوتا ہے وہ بھی بچالیا جائے۔
ویسے اس قسم کی کہانیوں کو سراہنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں لیکن افسانہ نگاری کی اگر یہ صنف اسی طرح پروان چڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس قسم کی کہانیوں کو پڑھنے کےعادی قارئین کا کسی دیگر کتاب کے مطالعے کے وقت اُن کے ذوقِ مطالعہ کا ٹائر لفظوں کی ایک مخصوص گنتی پر پہنچنے کے بعد از خود پنکچر ہوجایا کرے گا۔ بطور مزاح ہی سہی ذرا ایک لمحے کو تصور کریں کہ کیسا لگے گا اس نشے کے عادی لوگوں سے کوئی ملاقات کا خواہشمند ہوگا تو یقیناً گفتگو کچھ یوں ہوگی،
گنتی کی کہانی کے رسیا عدنان صاحب کا جواب یہ ہوگا،
آپ کہانی لکھیں مگر اس کو گنتی کے لفظوں میں قید نہ کریں۔ کوئی بھی تحریر خواہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ایک مکمل خیال رکھتی ہے تو پھر پڑھنے اور ذوق رکھنے والے کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گی کیونکہ اس طرح کے لکھنے والوں اور اُن کی کہانیوں کو میں بھی پڑھ چکا ہوں جن میں سے بعض کہانیاں ایسی بھی تھیں کہ جہاں دل سے داد دینے کو دل کرتا ہے۔ وہیں ایک تشنگی کا یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک ایسا خیال جس کو ایک طویل افسانے کی شکل دی جاسکتی تھی جدت متعارف کرانے کے چکر میں اُس خیال کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
کیونکہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ طویل افسانے پڑھنے کا لوگوں کے پاس وقت نہیں حالانکہ آج بھی ایسے لوگوں کا ایک بڑا وسیع حلقہ موجود ہے جو طویل داستانوں یا افسانوں کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ سنجیدہ افسانہ نگاروں کو چاہئیے کہ ایک بار پھر سے طویل افسانے لکھنے کی جانب خصوصی توجہ دیں اگر اردو ادب میں افسانوں کو ایسے ہی گنتی کے لفظوں میں محدود کیا جاتا رہا تو ماضی میں لکھی گئی طویل داستانوں اور افسانوں کا وجود ماسوائے لائبریریوں میں رکھی ایک یادگار کے سوا اور کچھ نہیں رہے گا۔
[poll id="884"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
وہ بھی کیا وقت تھا کہ جب اردو کے ایسے بھاری بھرکم ناول لکھے جاتے تھے۔ اگر دو اشخاص میں سے کوئی ایک کسی صاحب ذوق کے ہمراہ اُس کی بیٹھک یا کتاب خانے میں بیٹھا گفتگو کررہا ہو تو مجال ہے کہ صاحبِ خانہ کسی بات پر اختلاف کی ہمت کرسکے۔ کیونکہ اُس کی نظریں صاحب کے دھان پان سے جسم سے زیادہ میز اور کمرے میں سجی اُن بھاری بھاری کتابوں سے خوف کھاتی تھیں جو کسی اختلاف کی صورت میں سرکے دو ٹکڑے نہ بھی کرسکیں مگر کم از کم سر ضرور پھاڑ سکتی تھیں۔
بعض کمزور مریل قسم کے لوگ مطالعے کا ذوق اپنے اندر رکھتے نہیں تھے بلکہ پیدا کرتے تھے، یوں نہ صرف اُن کے پیدا ہونے کا جواز بھی رہتا تھا اور اپنے مرنجان مرنج وزن کے باعث ایسی کوئی بھاری کتاب سے ہوا کے دوش پر اُڑنے کا ڈر بھی نہیں رہتا تھا۔
جبکہ دوسری جانب میاں جان کی کتابوں کے عشق سے نالاں بعض خواتین اِس کو بلا دھڑک سوت کا درجہ بھی دے دیتی تھیں۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی کہ میاں جانی نے تو اتنی ہمارے ساتھ زندگی بسر نہیں کی جتنی ان افسانوں کے ساتھ گذر رہی ہے۔ جس کے باعث اپنا وجود اس گھر میں ایک بھولی بسری داستان کی طرح ہوتا جارہا ہے۔ لہذا کتابوں سے رقابت کا یہ جذبہ اُس وقت تو مزید بڑھ جاتا جب بستر میں کسی افسانے پر نظریں جمائے میاں جانی کو دیکھتیں تو اپنے کتابی چہرے کو کبھی اس انہماک سے نہ پڑھے جانے کا غم سوا ہوجاتا اور اگر کبھی پڑھتے پڑھتے نیند آجانے کی صورت میں اُس کتاب کو ان کے سینے پر پڑے دیکھتیں تو خود اپنے سینے پہ سانپ لوٹنے لگتے اور کسی اچھا دھاری ناگن کی طرح اس کتاب کی تصویر آنکھوں میں بسالی جاتی۔
اس کتاب سوت سے دشمنی یوں نکالی جاتی کہ اگر سامنے کریانے والے ظہور چاچا کی دکان سے کچھ منگانا ہوتا جو ہر وقت باٹ نہ ہونے کا رونا روتے دکھائی دیتے تو فوراَ منے کے ہاتھ میں اپنے درکار وزن کے حساب سے کوئی کتاب پکڑا دی جاتی کہ جا اس کے وزن کی چینی، دال یا چاول تُلوا کر لے آ، اور یوں ظہور چاچا کے ہاتھ میں کتا ب جانے سے رگ رگ میں وہی سکون اُترتا جو فلموں میں ایک لڑکی اپنے محبوب کی محبوبہ کو کسی ولن کے پاس چھوڑ کے آنے پر محسوس کرتی تھی۔ پھر کچھ خواتین تو اس بدلے کی آگ میں اتنی اندھی ہوجاتیں کہ ادھر موقع میسر آیا اُدھر کبھی میاں جان کے ہاتھوں اور سینے کی زینت بنی رہنے والی کتاب کسی ردی والے کے ٹھیلے پر نظر آتی اور اس کتاب کے بدلے میں ملنے والی کھجوروں سے کتاب کی اس طرح رخصتی پہ یوں میٹھا کھایا جاتا جیسے کتاب نہیں اس گھر سے کسی سوت کو باہر نکال پھینکا ہو۔
لیکن یہ حال تمام خواتین کے حوالے سے نہیں کہا جاسکتا تھا کچھ ایسی بھی تھیں جو میاں جانی کے کتابوں سے اس عشق پر شُکرادا کرتی نظر آتی تھیں کیونکہ جب تک میاں جانی کتابوں کے عشق میں نہیں پڑے تھے یعنی کتابوں سے زیادہ زوجہ کے کتابی چہرے کے عشق میں گرفتار تھے تو کتابوں کے ایڈیشن کی طرح ہر سال ان کے بچوں کی تعداد میں ایک کا اضافہ ہورہا تھا۔ پھر میاں جانی پر کتابوں کے شوق کا دروازہ کُھلا اور جیسے جیسے کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا میاں جانی کی دلچسپی ان کے وجود سے ازخود کم ہوتی گئی اور اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ کبھی پھول سا رہا اہلیہ کا بدن اور کبھی کتاب سا رہا وہ کتابی چہرہ بارہ بچوں کے بعد ویسے ہی کتاب کے بجائے کوئی چلتا پھرتا کتب خانہ دکھائی دینے لگا تھا۔
جبکہ دوسری جانب کتابیں پڑھنے کے شوق میں مبتلا مردوں کا موقف یہ تھا کہ جناب ایک تو کتابیں جہاں ذہن اور سوچ کو جلا بخشتی ہیں وہیں دوسری جانب ان کی رفاقت میں وقت اچھا گذرتا ہے اور یہ چیز کم از کم بیوی کے ساتھ ہرگز ممکن نہیں اور اگر کبھی کچھ نہ پڑھنے کا دل چاہے تو جب چاہو جہاں چاہو بند کرکے رکھ دو۔ اُف تک نہیں کرتیں اور سب سے بڑی خوبی جو قطعی نظر انداز نہیں کی جاسکتی وہ یہ کہ پسند نہ آنے کی صورت میں پڑھ کر کسی دوست کو تحفتاَ بھی دی جاسکتی ہے یا بارٹر سسٹم کے اصول کے تحت ایک کتاب دے کر دوسری لی جا سکتی ہے۔
لیکن جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی اور فوڈ کے بجائے فاسٹ فوڈ کے استعمال کی روایت نے زور پکڑا تو اس فاسٹ فوڈ کی طرح کے فاسٹ رائٹرز بھی دستیاب ہونے لگے۔ جنہوں نے تحریر کو بھی فاسٹ فوڈ کا درجہ دے دیا یعنی ایک کتاب کے تصور کو ایک صفحے میں سمیٹنے کی کوششیں شروع کردیں اور طویل داستانوں کے بجائے مخصوص لفظوں کی تعداد کا تصور پیش کیا۔ مختصر کہانیوں کے تصور کو فروغ دینے والا تحریر نگاروں کا یہ طبقہ اس طرح کی کہانیوں کو وقت کی ضرورت بتاتا ہے، کہ تیز رفتاری اور مصروفیات زندگی کے باعث آج لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی کہاں کہ وہ کوئی طویل داستان یا افسانے کو پڑھنے کے لئے وقت نکالیں اور وقت کی یہی عدم دستیابی اس خیال کی وجہ بنی کہ تحریر کی ایک ایسی شکل متعارف کرائی جائے کہ لوگ جتنی دیر میں اپنی چائے کا کپ یا ہاتھ میں دبا برگر ختم کریں اتنی دیر میں کہانی بھی ختم ہوجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح ان محدود لفظوں کی کہانیوں کے باعث کم از کم لوگوں میں کہانیاں پڑھنے کا جذبہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
اب یہ دلیل ان کے اپنے تئیں خواہ کتنا ہی وزن کیوں نہ رکھتی ہو یہ بات طے ہے کہ یہ بھاری دلیل دینے والے خود اور اُن کی تحریر نگاری کا فن بڑا ہلکا ہے۔ اپنے خیال یا تحریر کو بہترین ثابت کرنے کے لئے یہ بات نہایت مضحکہ خیز ہے کہ طویل داستانیں یا افسانے پڑھنے والوں کے پاس وقت کی کمی کے باعث اس طرح کی کہانیوں کے لکھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ گنتی کے لفظوں کو کہانی کا نام دینے والے اس طبقے کو اگر لوگوں کی مصروفیت اور وقت کا اتنا ہی خیال ہے تو کم از کم یہ ایک احسان اور کریں کہ بیس، پچیس، سو یا دو سو لفظوں کے بجائے صفر لفظ کی کہانی لکھنے کی روایت ڈالیں تا کہ ان سو دو سو لفظوں پر بھی جو وقت برباد ہوتا ہے وہ بھی بچالیا جائے۔
ویسے اس قسم کی کہانیوں کو سراہنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں لیکن افسانہ نگاری کی اگر یہ صنف اسی طرح پروان چڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس قسم کی کہانیوں کو پڑھنے کےعادی قارئین کا کسی دیگر کتاب کے مطالعے کے وقت اُن کے ذوقِ مطالعہ کا ٹائر لفظوں کی ایک مخصوص گنتی پر پہنچنے کے بعد از خود پنکچر ہوجایا کرے گا۔ بطور مزاح ہی سہی ذرا ایک لمحے کو تصور کریں کہ کیسا لگے گا اس نشے کے عادی لوگوں سے کوئی ملاقات کا خواہشمند ہوگا تو یقیناً گفتگو کچھ یوں ہوگی،
''عدنان یار بڑے دن ہوگئے ساتھ کوئی محفل جمائے ہوئے، کسی دن مل بیٹھنے کا پروگرام طے کرو۔''
گنتی کی کہانی کے رسیا عدنان صاحب کا جواب یہ ہوگا،
''یار مصروفییت ہی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مت پوچھ ''سو لفظوں کی کہانی'' کے لئے سو سیکنڈ نکالنے کے علاوہ اور کچھ آسان نہیں لگتا۔ مگر تیرے لئے تو میری جان بھی حاضر ہے اتوار کو ملتے ہیں۔ مگر ہاں! 10 منٹ سے زیادہ نہیں دے سکوں گا اور ہاں ایک چیز، گفتگو پانچ سو لفظوں سے اوپر نہ نکلے''۔
آپ کہانی لکھیں مگر اس کو گنتی کے لفظوں میں قید نہ کریں۔ کوئی بھی تحریر خواہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ایک مکمل خیال رکھتی ہے تو پھر پڑھنے اور ذوق رکھنے والے کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گی کیونکہ اس طرح کے لکھنے والوں اور اُن کی کہانیوں کو میں بھی پڑھ چکا ہوں جن میں سے بعض کہانیاں ایسی بھی تھیں کہ جہاں دل سے داد دینے کو دل کرتا ہے۔ وہیں ایک تشنگی کا یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک ایسا خیال جس کو ایک طویل افسانے کی شکل دی جاسکتی تھی جدت متعارف کرانے کے چکر میں اُس خیال کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
کیونکہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ طویل افسانے پڑھنے کا لوگوں کے پاس وقت نہیں حالانکہ آج بھی ایسے لوگوں کا ایک بڑا وسیع حلقہ موجود ہے جو طویل داستانوں یا افسانوں کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ سنجیدہ افسانہ نگاروں کو چاہئیے کہ ایک بار پھر سے طویل افسانے لکھنے کی جانب خصوصی توجہ دیں اگر اردو ادب میں افسانوں کو ایسے ہی گنتی کے لفظوں میں محدود کیا جاتا رہا تو ماضی میں لکھی گئی طویل داستانوں اور افسانوں کا وجود ماسوائے لائبریریوں میں رکھی ایک یادگار کے سوا اور کچھ نہیں رہے گا۔
[poll id="884"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔