پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھےگا سرتاج عزیز

افغانستان میں امن عمل کے لیے باہر سے مسلط کردہ حل نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا، مشیر خارجہ


ویب ڈیسک January 11, 2016
افغانستان میں امن عمل کے لیے باہر سے مسلط کردہ حل نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا، مشیر خارجہ، فوٹو؛ فائل

RAWALPINDI: مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن عمل افغانوں کے اپنے طور پر شروع کردہ اور اسی کی سرپرستی میں ہونا چاہیے کیونکہ باہر سے مسلط کردہ حل نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا جب کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا خواہاں ہے اور اس کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھے گا۔


اسلام آباد میں افغان امن عمل کے بارے میں چار فریقی رابطہ کار کمیٹی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اس کمیٹی کا پہلا کام مصالحتی عمل کی مجموعی سمت کا تعین کرنا ہے جب کہ کمیٹی کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لیے سازگار فضا قائم کرنے کے پیش نظر اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اجلا س میں گروپ کے خوش اسلوبی سے کام کرنے کے حوالے سے بنیاد فراہم کرنے کے لیے ایک موثر لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان سے اپنے برادرانہ او ر ہمسائیگی کے تعلقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم نے افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے جب کہ مصالحتی عمل کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہے کیوں کہ اعتماد سازی کے اقدامات طالبان کی مذاکراتی عمل میں شمولیت کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کی پانچویں وزارتی کانفرنس سے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں بڑی مددملی ہے۔

مشیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین تینوں قریبی ہمسائے ہیں جن کے خطے میں امن اور ترقی کے فروغ کے حوالے سے مشترک مفادات ہیں جب کہ افغانستان میں امن عمل افغانوں کے اپنے طور پر شروع کردہ اور اسی کی سرپرستی میں ہونا چاہیے کیونکہ باہر سے مسلط کردہ حل نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن اوراستحکام کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان چین اور امریکا کا کردار بنیادی طور پر امن عمل میں سہولت فراہم کرنا ہے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ اور علاقائی سطح پر قریبی تعاون پیشگی شرط ہے جب کہ پاکستان وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں حکومت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ تمام علاقائی ملکوں کے لیے اعتماد کی فضاء قائم کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں کی خود مختاری اورعلاقائی سالمیت کا احترام اور ان کی داخلی معاملات میں عدم مداخلت ہماری پالیسی کے بنیادی عوامل ہیں۔

مشیر خارجہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس سے بین العلاقائی تجارت، صنعت اورسرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں صحت، تعلیم اوربنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبوں میں متعدد دوطرفہ منصوبے شروع کیے ہیں، وزیراعظم کی اسکالرشپ اسکیم کے تحت تقریباً 2500 افغان طلباء پاکستانی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

واضح رہے پاکستان، چین، افغانستان اور امریکا کے چار فریقی مذاکرات کا تیسرا دور آج سے اسلام آباد میں شروع ہوا جس میں ''افغانستان میں امن کی خواہش اور ہمسایہ ملکوں کا کردار'' زیر بحث رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔