افغان حکومت اور طالبان فوری مذاکرات شروع کریں چارفریقی مذاکرات کا اعلامیہ جاری
افغانستان کی سالمیت اور پائیدار امن کے لیے مذاکرات ضروری ہے، مشترکہ اعلامیہ
لاہور:
افغان مفاہمتی عمل پر چار ملکی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان فوری مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جاری افغانستان مفاہمتی عمل پر چار فریقی (پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا) اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں افغانستان سے متعلق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ہونے والے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جب کہ اجلاس میں افغانستان میں امن ومفاہمت کے مواقعوں کا واضع جائزہ لیا گیا اور افغانستان میں اتحاد اور امن کے لیے طالبان کو مذاکرات میں شریک کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ شرکا نے افغانستان کی سالمیت کے لیے افغان حکومت اورطالبان میں مذاکرات ضروری قرار دیتے ہوئے افغان حکومت ،طالبان نمائندوں میں فوری براہ راست مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور دیا۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن پورے خطے میں قیام امن کی اولین شرط ہے لہٰذا افغانستان میں جاری تنازع کو فوری طور پر ختم کیا جائے جس کے لیے افغانستان میں پائیدار امن اورخوشحالی کے لیے باہمی کوششیں ضروری ہیں جب کہ افغان حکومت اور طالبان میں امن عمل افغانستان کی خود مختاری، سالمیت کیلیے ہے۔ شرکا نے امن عمل کو تیز کرنے کے لیے اجلاس باقاعدگی سے کرنے پر اتفاق کیا اور اس سلسلے میں 4 فریقی اجلاس کا تیسرا دور 18 جنوری کو کابل میں ہوگا۔
دوسری جانب چار فریقی رابطہ کار کمیٹی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اس کمیٹی کا پہلا کام مصالحتی عمل کی مجموعی سمت کا تعین کرنا ہے جب کہ کمیٹی کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لیے سازگار فضا قائم کرنے کے پیش نظر اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اجلا س میں گروپ کے خوش اسلوبی سے کام کرنے کے حوالے سے بنیاد فراہم کرنے کے لیے ایک موثر لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان سے اپنے برادرانہ او ر ہمسائیگی کے تعلقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم نے افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے جب کہ مصالحتی عمل کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہے کیوں کہ اعتماد سازی کے اقدامات طالبان کی مذاکراتی عمل میں شمولیت کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کی پانچویں وزارتی کانفرنس سے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں بڑی مددملی ہے۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین تینوں قریبی ہمسائے ہیں جن کے خطے میں امن اور ترقی کے فروغ کے حوالے سے مشترک مفادات ہیں جب کہ افغانستان میں امن عمل افغانوں کے اپنے طور پر شروع کردہ اور اسی کی سرپرستی میں ہونا چاہیے کیونکہ باہر سے مسلط کردہ حل نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن اوراستحکام کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان چین اور امریکا کا کردار بنیادی طور پر امن عمل میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ اور علاقائی سطح پر قریبی تعاون پیشگی شرط ہے جب کہ پاکستان وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں حکومت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ تمام علاقائی ملکوں کے لیے اعتماد کی فضاء قائم کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں کی خود مختاری اورعلاقائی سالمیت کا احترام اور ان کی داخلی معاملات میں عدم مداخلت ہماری پالیسی کے بنیادی عوامل ہیں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس سے بین العلاقائی تجارت، صنعت اورسرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں صحت، تعلیم اوربنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبوں میں متعدد دوطرفہ منصوبے شروع کیے ہیں، وزیراعظم کی اسکالرشپ اسکیم کے تحت تقریباً 2500 افغان طلباء پاکستانی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
افغان مفاہمتی عمل پر چار ملکی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان فوری مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جاری افغانستان مفاہمتی عمل پر چار فریقی (پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا) اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں افغانستان سے متعلق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ہونے والے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جب کہ اجلاس میں افغانستان میں امن ومفاہمت کے مواقعوں کا واضع جائزہ لیا گیا اور افغانستان میں اتحاد اور امن کے لیے طالبان کو مذاکرات میں شریک کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ شرکا نے افغانستان کی سالمیت کے لیے افغان حکومت اورطالبان میں مذاکرات ضروری قرار دیتے ہوئے افغان حکومت ،طالبان نمائندوں میں فوری براہ راست مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور دیا۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن پورے خطے میں قیام امن کی اولین شرط ہے لہٰذا افغانستان میں جاری تنازع کو فوری طور پر ختم کیا جائے جس کے لیے افغانستان میں پائیدار امن اورخوشحالی کے لیے باہمی کوششیں ضروری ہیں جب کہ افغان حکومت اور طالبان میں امن عمل افغانستان کی خود مختاری، سالمیت کیلیے ہے۔ شرکا نے امن عمل کو تیز کرنے کے لیے اجلاس باقاعدگی سے کرنے پر اتفاق کیا اور اس سلسلے میں 4 فریقی اجلاس کا تیسرا دور 18 جنوری کو کابل میں ہوگا۔
دوسری جانب چار فریقی رابطہ کار کمیٹی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اس کمیٹی کا پہلا کام مصالحتی عمل کی مجموعی سمت کا تعین کرنا ہے جب کہ کمیٹی کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لیے سازگار فضا قائم کرنے کے پیش نظر اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اجلا س میں گروپ کے خوش اسلوبی سے کام کرنے کے حوالے سے بنیاد فراہم کرنے کے لیے ایک موثر لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان سے اپنے برادرانہ او ر ہمسائیگی کے تعلقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم نے افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے جب کہ مصالحتی عمل کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہے کیوں کہ اعتماد سازی کے اقدامات طالبان کی مذاکراتی عمل میں شمولیت کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کی پانچویں وزارتی کانفرنس سے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں بڑی مددملی ہے۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین تینوں قریبی ہمسائے ہیں جن کے خطے میں امن اور ترقی کے فروغ کے حوالے سے مشترک مفادات ہیں جب کہ افغانستان میں امن عمل افغانوں کے اپنے طور پر شروع کردہ اور اسی کی سرپرستی میں ہونا چاہیے کیونکہ باہر سے مسلط کردہ حل نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن اوراستحکام کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان چین اور امریکا کا کردار بنیادی طور پر امن عمل میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ اور علاقائی سطح پر قریبی تعاون پیشگی شرط ہے جب کہ پاکستان وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں حکومت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ تمام علاقائی ملکوں کے لیے اعتماد کی فضاء قائم کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں کی خود مختاری اورعلاقائی سالمیت کا احترام اور ان کی داخلی معاملات میں عدم مداخلت ہماری پالیسی کے بنیادی عوامل ہیں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس سے بین العلاقائی تجارت، صنعت اورسرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں صحت، تعلیم اوربنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبوں میں متعدد دوطرفہ منصوبے شروع کیے ہیں، وزیراعظم کی اسکالرشپ اسکیم کے تحت تقریباً 2500 افغان طلباء پاکستانی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔