پاک بھارت کا مشترکہ دشمن کون
حملہ کرنے والے یہ دہشت گرد کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ ان کے مقاصد کیا تھے؟
پاک بھارت تعلقات کی نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی لاہور پدھار ے تو ہر پاکستانی و ہندوستانی کی طرح مجھے یہ خواب محسوس ہو رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا ... کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے لیکن پاک بھارت قائدین کے درمیان براہ راست رابطے کو ابھی دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارت کی سرزمین پر دہشت گردانہ حملہ ہو گیا۔ پٹھانکوٹ حملے کے ذمے دار دہشت گرد اور ان کے سرپرست یقیناً نہیں چاہتے کہ پاک بھارت تعلقات میں حالیہ گرمجوشی تادیر قائم رہے۔
حملہ کرنے والے یہ دہشت گرد کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ ان کے مقاصد کیا تھے؟ ان سب سوالوں سے قطعی نظر اس حملے کے حوالے سے میڈیا میں خاصے تحفظات پائے جاتے ہیں کہ یہ 'ڈرامہ' بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے خود رچایالیکن بھارتی میڈیا نے اس حملے کے تانے بانے پاکستان کے ساتھ ملائے ۔ حقیقت میں بھارتی میڈیا وہ اونٹ ہے، جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے، بھارتی میڈیا کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھارت میں ہونے والے ہر ناخوشگوار واقعہ کا تعلق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے جوڑ دے ۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کا ڈرامہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور یہ کوئی پہلا ڈرامہ نہیں تھا۔ گزشتہ چند برسوں کا ہی جائزہ لیں تو بھارت کے اس طرح کے بہت سے ڈرامے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مثلاً ممبئی حملوں کا ڈرامہ اب بے نقاب ہو چکا ہے ۔
بھارت اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کو کسی بھی سطح پر ثابت نہ کر پایا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے ڈرامے کا اب کس کو معلوم نہیں؟ بھارت کی جانب سے ایک مبینہ پاکستانی کشتی تباہ کرنے کا ڈرامہ تو ابھی حال کی ہی بات ہے۔ پھر بھارت نے ایک کبوتر پکڑ کر اُسے آئی ایس آئی کا کبوتر قرار دے دیا اور الزام لگایا کہ ''پاکستانی فوج کبوتر کے ذریعے بھارت میں جاسوسی کر رہی تھی۔''
اس ٹھوس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پیش رفت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آر ایس ایس اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس بات پر متفق نہیں ہوتیں۔ مودی پاکستان کے دورہ پر اچانک آ تو گئے لیکن بی جے پی قیادت کی اکثریت اس پر خوش نہیں تھی۔
اب نریندر مودی لاہور آئے ہیں تو انڈین ائیر بیس پر حملہ ہو گیا۔ یہ کون کر رہا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ عقل و دانش رکھنے والی قوتوں کا کام ہے کہ وہ تلاش کریں، ان دشمنوں کو جو نہیں چاہتے کہ دونوں ملک مل بیٹھیں۔ حالانکہ دونوں ممالک کے عوام دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے حالات نارمل رہیں۔ مجھے کئی بار انڈیا جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے لوگوں سے جب ملتا ہوں تو کہیں سے مجھے یہ تاثر نہیں ملتا کہ ہم دشمن اقوام ہیں۔ میرے خیال میں بھارتی ملنسار ہیں اور ان میںانتہا پسندوںکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک خوش رہیں، پاکستان میں بھی بعض قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آ جائیں۔
لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کو اب ان باتوں سے آگے آ جانا چاہیے کہ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی غیر ملکی ایجنسی یا بیرونی قوت کی معاونت سے ہو رہا ہے کیونکہ آج کل ہندوستان جس قسم کے سیاسی ہنگاموں اور داخلی و خارجی کشمکش کا شکار ہے وہ نہ صرف یہ کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کے لیے بلکہ تمام جنوبی ایشیا کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ بھارت میں کشمیر، خالصتان، تامل ناڈو، ناگا لینڈ، آسام، جیسی تحریکیں چل رہی ہیں۔
بھارت کو ان تحریکوں کے حوالے سے اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ آزادی کے متلاشی لوگ اپنے تن کو قربان کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ کارگل، سیاچن، دہلی حملے، بمبئی حملے، انڈیا کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ وہ ان سب مسئلوں کو حل کس طرح کر سکتا ہے۔ ورنہ بھارتی جمہوری حکومتوں پر سوال اُٹھتے رہیں گے اور سوال یہ نہیں کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں پاکستان ملوث ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستان میں ایسی وارداتیں گاہے بگاہے کیوں ہو رہی ہیں کیونکہ یہ دنیا کا خطرناک ترین خطہ ہے، یہاں دو پڑوسی ایٹمی اسلحہ سے لیس ایک دوسرے سے سینگ اڑائے کھڑے ہیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالے تصادم پر آمادہ ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ اس حملے کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے قائدین، نریندر مودی اور محمد نواز شریف کے درمیان عدم اعتماد پیدا کیا جائے اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جائے اور علاقائی تعاون کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک میں ایسے گروپ موجود ہیں جو کبھی بھی صلح نہیں چاہتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کو ڈھونڈنا چاہیے جو امن نہیں چاہتے اور چاہتے ہیں کہ جلد از جلد جنگ ہو اور ان کے ناپاک عزائم کامیاب ہوں۔ اسی سلسلے میں اب امکان ہے کہ (خدانخواستہ) پاکستان میں بھی اس طرح کا حملہ ہو، اس لیے دونوں ملکوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب تک مشترکہ دشمنوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔ بقول شاعر
دوست بن کر جو ساتھ رہتا ہو
ایسے دشمن کو کون سمجھے گا