نابغہ روزگار اسلم اظہر
83 سالہ اسلم اظہر نے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے گھرانے میں 1932 لاہور میں آنکھ کھولی۔
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
لیجیے اختتام ماہ دسمبر ممتاز براڈ کاسٹر، مایہ ناز میڈیا پرسن اور بابائے پی ٹی وی اسلم اظہر بھی اپنے بے شمار چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑکر اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ کبھی پُر نہ ہوگا۔ ان کی وفات پر رنج و ملال کے اظہارکا سلسلہ جاری ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ان کے انتقال کو پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
83 سالہ اسلم اظہر نے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے گھرانے میں 1932 لاہور میں آنکھ کھولی۔ وہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے 1950 کی دہائی میں کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے اور وطن واپس آنے کے بعد ایک ملٹی نیشنل آئل کمپنی میں ملازم ہوگئے، لیکن کارپوریٹ شعبے میں ان کے قیام کا عرصہ بہت مختصر تھا کیونکہ یہ کلچر ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔
چنانچہ 1960 کی دہائی میں انھوں نے شہر قائد کراچی کا رخ کیا اور دستاویزی فلموں، ایڈورٹائزنگ اور ریڈیو براڈ کاسٹنگ سے وابستہ ہوگئے۔ صداکاری کے علاوہ اداکاری کے جراثیم بھی ان میں کثرت سے موجود تھے جس کی بنا پر وہ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی کی بنیاد ڈالنے والے اراکین کی صف میں شامل ہوگئے۔ اسی تھیٹر گروپ میں ان کی ملاقات نسرین سے ہوگئی جو بعد میں ہمیشہ کے لیے ان کی جیون ساتھی بن گئیں اور تادم آخر ان کے ساتھ رہیں۔ یہ تھیٹر گروپ اپنے ڈرامے ایم اے جناح روڈ پر ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے بالمقابل واقع مشہورومعروف تھیوسوفیکل ہال میں اسٹیج کیا کرتا تھا۔
قدرت نے اسلم اظہر کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجانے والی کہاوت ان پر حرف بہ حرف صادق آتی تھی۔ قلمکاری، اداکاری اور صداکاری کے جوہر انھوں نے خوب ہی دکھائے اور ہر شعبے میں اپنی منفرد صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ اس اعتبار سے اگر انھیں رول ماڈل کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ بے مثل اداکار ہی نہیں بلکہ بڑے کمال کے انگلش نیوز ریڈر بھی تھے۔ ہم نے اپنے براڈ کاسٹنگ کے کیریئر میں بہت سے لوگوں کو انگریزی بولتے ہوئے دیکھا ہے مگر اسلم اظہر والی بات ہمیں کسی اور میں نظر نہیں آئی۔
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس کے ہم عینی شاہد ہیں۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر، اسلام آباد میں تعینات تھے اور اسلم اظہر پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ریڈیو پاکستان) کے چیئرمین کے منصب پر فائز تھے۔ پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز، اسلام آباد میں ایک خصوصی میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہمیں بھی بلایا گیا تھا۔ پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر سرجان بیرنگٹن اس موقعے پر خطاب کرنے والے مہمان خصوصی تھے۔
خطاب کا موضوع تھا ''افغانستان کی صورتحال اور پاکستان''۔ ابتدائی کلمات اسلم اظہر نے ادا کیے جس میں انھوں نے مہمان خصوصی کا تعارف کرانے کے علاوہ موضوع پر بھی روشنی ڈالی۔ اس کے بعد مہمان خصوصی کی باری آئی تو انھیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ میزبان نے انھیں بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ نہ تو وہ اتنی خوبصورت زبان بول سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں موضوع پر اتنی گرفت حاصل ہے۔ اسلم اظہر نے نہ صرف سب پر سحر طاری کردیا تھا بلکہ دریا کوکوزے میں بند کردیا تھا۔ ہم سب ان کی اس تعریف و تحسین پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔
حکومت وقت نے 1964 میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز کا فیصلہ کیا جس کے لیے لاہور میں ایک پائلٹ اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہ انتہائی اہم اور کٹھن ذمے داری اسلم اظہر کو سونپی گئی جنھوں نے صرف تین ماہ کی بے حد قلیل مدت میں اس کام کو پورا کر دکھایا۔ بلاشبہ یہ کارنامہ ان کے سوائے اور کوئی بھی اس حسن و خوبی سے انجام نہیں دے سکتا تھا۔ لاہور اسٹیشن کی کامیابی کے ساتھ شروعات کے بعد حکومت وقت نے ڈھاکہ، راولپنڈی اور کراچی میں پی ٹی وی کے اسٹیشن قائم کیے اور اس کے نتیجے میں اسلم اظہر ترقی پا کر پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔ واقعی یہ منصب صرف ان ہی کے شایان شان تھا۔
ڈرامے سے اسلم اظہر کو شروع ہی سے بڑا گہرا لگاؤ تھا۔ یہ شوق و ذوق ان میں اس زمانے میں فروغ پایا جب وہ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں فزکس کے طالب علم تھے۔ آگے چل کر یہ ذوق مزید پروان چڑھا اور پھر رفتہ رفتہ مشغلہ بنا اور بالآخر پیشہ ہی بن گیا۔ اسلم اظہر بذات خود ہی انتہائی باصلاحیت فن کار نہیں تھے بلکہ بلا کے جوہر شناس اور جوہر قابل کی تلاش و خراش کرنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بہت مختصر سے عرصے میں انھوں نے اہل قلم اور فنکاری کی ایک بہترین ٹیم پی ٹی وی میں تیار کرلی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی وی کو ایک ایسا مثالی ادارہ بنادیا کہ جس کے پروگرام نہ صرف وطن عزیز میں بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی مقبولیت کے غیر معمولی ریکارڈ قائم کرتے چلے گئے اور دور درشن والے بھی ان پر رشک کرنے لگے۔
تخلیقی صلاحیتیں اسلم اظہر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، جنھیں بروئے کار لانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کا دور پی ٹی وی کا سنہری دور مانا جاتا ہے جس کا ہر پروگرام آج کے جدید دور میں بھی اتنے ہی ذوق و شوق سے دیکھا جاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کے عام ناظرین کی پسند کا خیال رکھنے کے علاوہ مخصوص ذوق کے حامل ٹی وی ناظرین کے لیے بھی ''کسوٹی'' جیسے بے مثال اور لازوال پروگرام متعارف کرانے کا سہرا بھی اسلم اظہر ہی کے سر رہے گا۔ ''ففٹی ففٹی'' جیسا مقبول ترین پروگرام پیش کرکے دکھانا بھی ان ہی کی سرپرستی اور رہنمائی کا مرہون منت ہے۔ پی ٹی وی کے زبردست ڈرامے اس کے علاوہ ہیں جن کے محض تذکرے اور نام گنوانے کا بھی یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ عوام آج بھی ان سدا بہار ڈراموں کے دیوانے ہیں۔
اسلم اظہر کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ اس دور میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا وطن عزیز میں کوئی وجود نہیں تھا اور پی ٹی وی کے پروگرام لائیو نشر کیے جاتے تھے جوکہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
آج کے دور میں جب ہمیں ریکارڈنگ کی سہولت میسر ہے لائیو پروگرام پیش کرنے کی مشکلات اور دشواریوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ اسلم اظہر انتہائی وسیع المطالعہ شخص تھے اور انگریزی اور اردو پر انھیں یکساں عبور حاصل تھا۔ بڑے بڑے ادیب اور شاعر نہ صرف ان کے بہت قریب تھے بلکہ ذاتی طور پر ان کے چاہنے والے اور مداح بھی تھے۔ ترقی پسند سوچ اور روشن خیالی ان کے خمیر میں رچی بسی ہوئی تھی۔ جس کی قیمت انھیں جنرل ضیا الحق کے دور حکمرانی میں ادا کرنی پڑی، لیکن انھوں نے اپنے اصولوں پر کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی جس کی سزا کے طور پر انھیں پاپڑ بھی بیلنے پڑے۔
وہ ایک عظیم براڈکاسٹر اداکار اور نہایت اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل منتظم ہی نہیں بلکہ بلند پایہ انسان بھی تھے۔ سادگی، انکساری اور وضع داری ان پر ختم تھی اس کا ذاتی تجربہ ہمیں ان سے پہلی ملاقات میں ہی ہوگیا تھا جب ہم ایک مشترکہ دوست کے اصرار پر ان سے ملنے کے لیے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔
اس وقت وہ پی ٹی وی اور پی بی سی دونوں کے چیئرمین تھے اور منصب کے لحاظ سے ہم ان کے ایک ماتحت تھے، مگر ہمیں اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب ہم نے انھیں وقت مقررہ پر سراپا انتظار پایا۔ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور تمام پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)۔
لیجیے اختتام ماہ دسمبر ممتاز براڈ کاسٹر، مایہ ناز میڈیا پرسن اور بابائے پی ٹی وی اسلم اظہر بھی اپنے بے شمار چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑکر اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ کبھی پُر نہ ہوگا۔ ان کی وفات پر رنج و ملال کے اظہارکا سلسلہ جاری ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ان کے انتقال کو پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
83 سالہ اسلم اظہر نے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے گھرانے میں 1932 لاہور میں آنکھ کھولی۔ وہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے 1950 کی دہائی میں کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے اور وطن واپس آنے کے بعد ایک ملٹی نیشنل آئل کمپنی میں ملازم ہوگئے، لیکن کارپوریٹ شعبے میں ان کے قیام کا عرصہ بہت مختصر تھا کیونکہ یہ کلچر ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔
چنانچہ 1960 کی دہائی میں انھوں نے شہر قائد کراچی کا رخ کیا اور دستاویزی فلموں، ایڈورٹائزنگ اور ریڈیو براڈ کاسٹنگ سے وابستہ ہوگئے۔ صداکاری کے علاوہ اداکاری کے جراثیم بھی ان میں کثرت سے موجود تھے جس کی بنا پر وہ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی کی بنیاد ڈالنے والے اراکین کی صف میں شامل ہوگئے۔ اسی تھیٹر گروپ میں ان کی ملاقات نسرین سے ہوگئی جو بعد میں ہمیشہ کے لیے ان کی جیون ساتھی بن گئیں اور تادم آخر ان کے ساتھ رہیں۔ یہ تھیٹر گروپ اپنے ڈرامے ایم اے جناح روڈ پر ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے بالمقابل واقع مشہورومعروف تھیوسوفیکل ہال میں اسٹیج کیا کرتا تھا۔
قدرت نے اسلم اظہر کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجانے والی کہاوت ان پر حرف بہ حرف صادق آتی تھی۔ قلمکاری، اداکاری اور صداکاری کے جوہر انھوں نے خوب ہی دکھائے اور ہر شعبے میں اپنی منفرد صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ اس اعتبار سے اگر انھیں رول ماڈل کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ بے مثل اداکار ہی نہیں بلکہ بڑے کمال کے انگلش نیوز ریڈر بھی تھے۔ ہم نے اپنے براڈ کاسٹنگ کے کیریئر میں بہت سے لوگوں کو انگریزی بولتے ہوئے دیکھا ہے مگر اسلم اظہر والی بات ہمیں کسی اور میں نظر نہیں آئی۔
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس کے ہم عینی شاہد ہیں۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر، اسلام آباد میں تعینات تھے اور اسلم اظہر پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ریڈیو پاکستان) کے چیئرمین کے منصب پر فائز تھے۔ پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز، اسلام آباد میں ایک خصوصی میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہمیں بھی بلایا گیا تھا۔ پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر سرجان بیرنگٹن اس موقعے پر خطاب کرنے والے مہمان خصوصی تھے۔
خطاب کا موضوع تھا ''افغانستان کی صورتحال اور پاکستان''۔ ابتدائی کلمات اسلم اظہر نے ادا کیے جس میں انھوں نے مہمان خصوصی کا تعارف کرانے کے علاوہ موضوع پر بھی روشنی ڈالی۔ اس کے بعد مہمان خصوصی کی باری آئی تو انھیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ میزبان نے انھیں بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ نہ تو وہ اتنی خوبصورت زبان بول سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں موضوع پر اتنی گرفت حاصل ہے۔ اسلم اظہر نے نہ صرف سب پر سحر طاری کردیا تھا بلکہ دریا کوکوزے میں بند کردیا تھا۔ ہم سب ان کی اس تعریف و تحسین پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔
حکومت وقت نے 1964 میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز کا فیصلہ کیا جس کے لیے لاہور میں ایک پائلٹ اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہ انتہائی اہم اور کٹھن ذمے داری اسلم اظہر کو سونپی گئی جنھوں نے صرف تین ماہ کی بے حد قلیل مدت میں اس کام کو پورا کر دکھایا۔ بلاشبہ یہ کارنامہ ان کے سوائے اور کوئی بھی اس حسن و خوبی سے انجام نہیں دے سکتا تھا۔ لاہور اسٹیشن کی کامیابی کے ساتھ شروعات کے بعد حکومت وقت نے ڈھاکہ، راولپنڈی اور کراچی میں پی ٹی وی کے اسٹیشن قائم کیے اور اس کے نتیجے میں اسلم اظہر ترقی پا کر پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔ واقعی یہ منصب صرف ان ہی کے شایان شان تھا۔
ڈرامے سے اسلم اظہر کو شروع ہی سے بڑا گہرا لگاؤ تھا۔ یہ شوق و ذوق ان میں اس زمانے میں فروغ پایا جب وہ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں فزکس کے طالب علم تھے۔ آگے چل کر یہ ذوق مزید پروان چڑھا اور پھر رفتہ رفتہ مشغلہ بنا اور بالآخر پیشہ ہی بن گیا۔ اسلم اظہر بذات خود ہی انتہائی باصلاحیت فن کار نہیں تھے بلکہ بلا کے جوہر شناس اور جوہر قابل کی تلاش و خراش کرنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بہت مختصر سے عرصے میں انھوں نے اہل قلم اور فنکاری کی ایک بہترین ٹیم پی ٹی وی میں تیار کرلی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی وی کو ایک ایسا مثالی ادارہ بنادیا کہ جس کے پروگرام نہ صرف وطن عزیز میں بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی مقبولیت کے غیر معمولی ریکارڈ قائم کرتے چلے گئے اور دور درشن والے بھی ان پر رشک کرنے لگے۔
تخلیقی صلاحیتیں اسلم اظہر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، جنھیں بروئے کار لانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کا دور پی ٹی وی کا سنہری دور مانا جاتا ہے جس کا ہر پروگرام آج کے جدید دور میں بھی اتنے ہی ذوق و شوق سے دیکھا جاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کے عام ناظرین کی پسند کا خیال رکھنے کے علاوہ مخصوص ذوق کے حامل ٹی وی ناظرین کے لیے بھی ''کسوٹی'' جیسے بے مثال اور لازوال پروگرام متعارف کرانے کا سہرا بھی اسلم اظہر ہی کے سر رہے گا۔ ''ففٹی ففٹی'' جیسا مقبول ترین پروگرام پیش کرکے دکھانا بھی ان ہی کی سرپرستی اور رہنمائی کا مرہون منت ہے۔ پی ٹی وی کے زبردست ڈرامے اس کے علاوہ ہیں جن کے محض تذکرے اور نام گنوانے کا بھی یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ عوام آج بھی ان سدا بہار ڈراموں کے دیوانے ہیں۔
اسلم اظہر کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ اس دور میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا وطن عزیز میں کوئی وجود نہیں تھا اور پی ٹی وی کے پروگرام لائیو نشر کیے جاتے تھے جوکہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
آج کے دور میں جب ہمیں ریکارڈنگ کی سہولت میسر ہے لائیو پروگرام پیش کرنے کی مشکلات اور دشواریوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ اسلم اظہر انتہائی وسیع المطالعہ شخص تھے اور انگریزی اور اردو پر انھیں یکساں عبور حاصل تھا۔ بڑے بڑے ادیب اور شاعر نہ صرف ان کے بہت قریب تھے بلکہ ذاتی طور پر ان کے چاہنے والے اور مداح بھی تھے۔ ترقی پسند سوچ اور روشن خیالی ان کے خمیر میں رچی بسی ہوئی تھی۔ جس کی قیمت انھیں جنرل ضیا الحق کے دور حکمرانی میں ادا کرنی پڑی، لیکن انھوں نے اپنے اصولوں پر کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی جس کی سزا کے طور پر انھیں پاپڑ بھی بیلنے پڑے۔
وہ ایک عظیم براڈکاسٹر اداکار اور نہایت اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل منتظم ہی نہیں بلکہ بلند پایہ انسان بھی تھے۔ سادگی، انکساری اور وضع داری ان پر ختم تھی اس کا ذاتی تجربہ ہمیں ان سے پہلی ملاقات میں ہی ہوگیا تھا جب ہم ایک مشترکہ دوست کے اصرار پر ان سے ملنے کے لیے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔
اس وقت وہ پی ٹی وی اور پی بی سی دونوں کے چیئرمین تھے اور منصب کے لحاظ سے ہم ان کے ایک ماتحت تھے، مگر ہمیں اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب ہم نے انھیں وقت مقررہ پر سراپا انتظار پایا۔ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور تمام پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)۔