رامے صاحب کی یاد میں

یکم جنوری کو حنیف رامے صاحب کی برسی آئی اور ہر سال کی طرح اس سال بھی خاموشی سے گزر گئی۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

یکم جنوری کو حنیف رامے صاحب کی برسی آئی اور ہر سال کی طرح اس سال بھی خاموشی سے گزر گئی۔ میرے سامنے رامے صاحب کا وزیٹنگ کارڈ پڑا ہے۔ یہ کئی برسوں سے میرے پاس محفوظ ہے۔ مجھے یاد ہے ، جب انھوں نے اپنی آخری کتاب 'موت نہیں، زندگی' کا نسخہ مجھے عنایت کیا تو یہ کارڈ اس کے ساتھ لگا ہوا تھا۔

یہ کارڈ میرے پاس محفوظ نہ رہ پاتا، لیکن اس روز یوں ہوا کہ رامے صاحب کو جیسے کچھ یاد آیا اور انھوں نے کتاب میرے ہاتھ سے لی، اسے کھولا اور وزیٹنگ کارڈ پر اپنے ہاتھ سے اپنا فون نمبر لکھا اور کتاب مجھے واپس کر دی۔ ان کے کارڈ پر پرنٹ نمبر تبدیل ہو گئے تھے، یا ان دنوں خراب تھے، یہ اب یاد نہیں۔ لیکن پچھلے دس سال کے دوران جب کبھی یہ کارڈ ادھر ادھر ہونے لگا، اس پر ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا یہ نمبر دیکھ کر مجھے وہ لمحے یاد آ گئے، جب وہ یہ نمبر لکھ رہے تھے۔ رامے صاحب اب جس جہاں میں بستے ہیں، وہاں ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اس نمبر پر بھی رابطہ ممکن نہیں ۔ یہ سوچتا ہوں تو دل اداس ہو جاتا ہے۔

رامے صاحب کی زندگی کی داسستان بڑی دل گداز ہے، جس میں ان کے لیے سب سے توانا سہارا ان کی کمزور ماں تھی۔ وہ کہا کرتے تھے، میری سیاست کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا، جب میں اپنی کمزور ماں کی حمایت میں اپنے طاقتور باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ میں بمشکل بارہ سال کا تھا۔ ایک روز کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ میرے باپ نے میری ماں پر ہاتھ اٹھایا۔ یہ نئی بات نہیں تھی۔ لیکن اس روز نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی ان ہی کی لاٹھی اٹھائی اور ماں اور ان کے درمیان ڈٹ کے کھڑا ہو گیا اور پوری قوت سے چیخ کر بولا، اب میری ماں پر ہاتھ اٹھا کے دیکھیں۔ عجیب بات ہے، میری اس للکار کا ایسا اثر ہوا کہ میرے باپ کا غصہ ایک دم سے ٹھنڈا پڑ گیا۔

وہ دن اور ان کی زندگی کا آخری دن، انھوں نے میری ماں پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔' رامے صاحب رکے، گہری سانس لی اور کہنے لگے، اصغر، یہ اسی دن کی بات ہے کہ میرے اندر اس سوال نے جنم لیا، میں کس کے ساتھ ہوں، طاقتور کے ساتھ یا کمزور کے ساتھ۔ کچھ عرصے بعد اس سوال نے میرے اس اعلان کی شکل اختیار کر لی کہ 'میں چوہدری نہیں ہوں، میں رامے ہوں۔' رامے، رامے صاحب کی ماں کی گوت تھی۔ یہ ارائیں قوم کی کمزور سی گوت ہے۔ ماں کے نام سے پہچانا جانا ہمارے معاشرے میں عام تو نہیں، لیکن کم یاب بھی نہیں۔ ابن ِ مریم سے ابن ِ تیمیہ تک بے شمار لوگ اپنی ماؤں کے حوالے سے پہچانے گئے۔ رامے صاحب کے بھائی بند 'چوہدری' کہلاتے تھے، لیکن وہ کہتے تھے، میں اپنی ماں کی طرف ہوں، میں رامے ہوں۔

لاہور سمن آباد موڑ پر کبھی ایک شکستہ سی بلڈنگ ہوتی تھی، جس میں ان کے بیٹے کا دفتر تھا۔ اسی میں ایک چھوٹا سا اسٹور نما کمرہ رامے صاحب کا دفتر بھی تھا اور اسٹوڈیو بھی۔کمرے میں داخل ہوتے پہلا خیال یہی آتا تھا کہ یہ کوئی باقاعدہ کمرہ نہیں۔ دروازے کے ساتھ ہی پرانا سا صوفہ پڑا ہوتا تھا۔ ایک طرف لکڑی کی میز کرسی رکھی تھی۔ ادھر ادھر انگریزی اردو کتابیں، رنگا رنگ پینٹنگز، خطاطی کے نادر نمونے، کلرفل پنسلیں اور برش بکھرے ہوئے۔ اور ان کے بیچ میں ہی کہیں وہ چھوٹی سی، پرانی سی میز بھی تھی، جسکے متعلق رامے صاحب کہا کرتے، 'جب میرے چھوٹے بھائی حفیظ کی شادی ہو گئی تو ماں نے چاہا کہ وہ اپنا الگ گھر بسا لیں اور مشترکہ گھر میں جو برا بھلا سامان سال ہا سال سے جمع ہو گیا ہے، وہ ہم دونوں بھائیوں میں تقسیم ہو جائے۔ میں نے ماں سے کہا، مناسب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں حفیظ کو دے دی جائیں۔

ماں نے ایک لحظہ کے لیے کچھ سوچا اور کہا، اچھا تو پھر تم ان میں سے کوئی ایک چیز ہی رکھ لو۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ صبر کرنے سے شکر کرنا بہتر ہے۔ میں نے شکریے کے ساتھ یہ چھوٹی سی میز اپنے پاس رکھ لی۔ پچھلے چالیس سال سے اگر میں نے کسی چیز کو سنبھال کر رکھا ہے تو یہ 2 بائی 3 کی ڈیڑھ فٹ اونچی میز ہے۔ اس عرصے میں میری پینٹنگ کا ہر رنگ اسی میز سے اٹھایا گیا ہے اور اس پر رکھے ایک ایک رنگ کے ایک ایک شیڈ میں مجھے ماں کے مہربان وجود کی آب و تاب گھلی محسوس ہوتی ہے۔

گرمیوں کی وہ دوپہر بھی مجھے یاد ہے۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ معاً ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رامے صاحب کی آواز ابھری، آج دوپہر کا کھانا تم نے ہمارے ساتھ کھانا ہے۔ ابراہیم صاحب زبردست بریانی بنوا کے لائے ہیں۔ ابراہیم، رامے صاحب کے بیٹے تھے۔ رامے صاحب کی مگر عادت تھی کہ پیار سے کبھی کبھی اپنے سے چھوٹوں کے نام کے ساتھ بھی 'صاحب' کا لاحقہ لگا دیتے تھے۔ بریانی واقعی بڑی زبردست تھی۔ رامے صاحب ان لوگوں میں شامل تھے، جنھوں نے اول اول بھٹو صاحب کو اپنی پارٹی بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کے ہفت روزہ 'نصرت' نے پیپلز پارٹی کی نظریاتی جنگ مردانہ وار لڑی تھی۔


بطور وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب، رامے صاحب نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مقبول عام جماعت بنانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ جن دنوں وہ پنجاب کے وزیر خزانہ تھے، ان کا یہ جملہ زبان زد خاص و عام ہو گیا تھا کہ 'میں واقعی بڑا غریب وزیر خزانہ ہوں، لیکن پنجاب کے غریبوں کے لیے میری جیبیں نوٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔' لیکن پھر یہی رامے صاحب پیپلز پارٹی میں راندہ درگاہ قرار پا گئے اور وہ پنجاب مسلم لیگ میں، جو ان دنوں چوہدری ظہور الٰہی کے زیر ِسرپرستی کام کر رہی تھی، پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ بریانی کے بعد قہوے کا دور شروع ہو ا۔ سر، کب آپ بھٹو صاحب سے واقعی مایوس ہو گئے؟ میں رامے صاحب سے وہ سوال پوچھ ہی لیا، جس سے وہ بچتے تھے۔

ان کا چہرہ یکدم جیسے بجھ سا گیا۔ پھر بولے، ویسے تو میں نے بھٹو صاحب کے دور میں شاہی قلعے کی قید بھی کاٹی ہے اور میں نے کبھی اس کی تفصیلات بیان نہیں کیں اور نہ کروں گا۔ لیکن میرے لیے زندگی کا اذیت ناک لمحہ وہ تھا، جب میں نے بھٹو صاحب کو فون کیا اور کہا کہ بھٹو صاحب، میں نے آپکا بہت ساتھ دیا ہے، میں آپکا نظریاتی ساتھی ہوں، پھر آپ نے کیوں یہ سب کچھ میرے ساتھ کیا۔' یہ ان دنوں کی بات ہے، جب بھٹو صاحب مجھے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا چکے تھے اور میں پارٹی میں تو تھا مگر زیر عتاب تھا۔

بھٹو صاحب نے مجھے جو جواب دیا، وہ سن کے میں ہکا بکا رہ گیا۔ کہنے لگے، حنیف ، اگر تم نے میرا ساتھ دیا ہے تو تمہیں اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا، فائدہ ہی ہوا ہے۔' اس کے بعد میں ان سے کچھ کہہ ہی نہیں سکا۔ اس روز مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ نظریہ تو بھٹو صاحب کی نظر میں کوئی چیز ہی نہیں تھا۔' یہ کہہ کے رامے صاحب کافی دیر تک خاموش رہے۔

رامے صاحب سے میری آخری ملاقات حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کے سیمینار میں ہوئی۔ وہ صدر ِمجلس تھے۔ سہیل وڑائچ اور میں بطور ِمقرر مدعو تھے۔ رامے صاحب بڑی شفقت سے ملے۔ اپنی تقریر میں بار بار میرا تذکرہ کیا۔ واپسی پر میرا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں اُتر نے لگے تو کہا، کمر کی تکلیف پھر سے شروع ہو گئی ہے۔

طبیعت ذرا بہتر ہو گئی تو اگلے چند روز میں امریکا جا وں گا۔ واپسی پر بیٹھیں گے اور (ان کی) یادداشتوں پر ازسرنو کام کریں گے۔' میں نے کہا، ان شااللہ سر۔ میری طرف دیکھا، اور ان کے چہرے پر وہی ان کی دلآویز مسکراہٹ ابھری۔ کہنے لگے، ہاں، ان شااللہ۔' ہم نیچے اترے تو ان کی گاڑی تیار کھڑی تھی۔ وہ گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ انجن اسٹارٹ ہوا۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ کیا معلوم تھا کہ رامے صاحب کو اس طرح مسکراتے ہوئے آخری بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی گاڑی آگے بڑھی اور گیٹ سے باہر نکل کر غائب ہو گئی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ شاعر نے کہا تھا،

کس جگہ جاتے ہیں اے دل اس جہاں کے رات دن
کس جہاں میں بس رہے ہیں اس جہاں کے رات دن
اب کہاں ہیں ہستیاں جو تھیں ہمارے درمیاں
کیا ان ہی کے ساتھ ہوں گے پھر یہاں کے رات دن
Load Next Story