کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان
البتہ ہر حکومت میں کرپشن کے خاتمے کے دعوے ضرورکیے جاتے ہیں۔
پاکستان متعدد سنگین مسائل کا شکار ہے۔ان میں دہشتگردی، امن وامان کی خراب صورتحال، معیشت کی زبوں حالی، توانائی کا بحران، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔ لیکن اس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان کا ایک اہم مسئلہ کرپشن بھی ہے۔کرپشن یا بدعنوانی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔اس کی جڑیں ماضی میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے کرپشن کے خلاف سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔
البتہ ہر حکومت میں کرپشن کے خاتمے کے دعوے ضرورکیے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں کرپشن کو زبردست فروغ حاصل ہوا اور وہ کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرنے سے بھی محروم رہی۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2008 میں عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی زرداری حکومت کو 6700 ارب روپے کا قرضہ ورثے میں ملا تھا، جب کہ زرداری حکومت نے جو 8100 ارب روپے کا قرض لیا تھا وہ کرپشن کی نذر ہوگیا، کیونکہ 8100 ارب روپے کے قرض کو کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور اس قرض سے ملک کے کتنے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے اور ان کا درست آڈٹ کیا گیا یا نہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی حل طلب ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی حکومت میں شہروں اور دیہات میں ترقیاتی کاموں کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ اب صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوگئی ہے اور اب بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے اور پارٹی کے جن رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں ان میں سے بیشتر ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔
بعض رہنماؤں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرلیا ہے جس کی وجہ سے سندھ حکومت اضطراب کا شکار ہے۔ اور ان معاملات کو چھپانے کے لیے کراچی آپریشن کو متنازع بنانے اور رینجرز کے اختیارات کے مسئلے پر لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت سے یہ سوال کریں کہ 8100 ارب روپے کا قرض کہاں گیا۔
مئی 2013 میں جب مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو وزیراعظم محمد نوازشریف نے کرپشن کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ بلاشبہ آج جب غیر جانبدار مبصر پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور اور مسلم لیگ ن کے موجودہ دور حکومت کا موازنہ کرتے ہیں تو اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ محمد نوازشریف کی موجودہ حکومت نے کرپشن کے سمندر کے آگے بند باندھا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی ادارے معیشت کی بہتری اورکرپشن میں کمی کے سلسلے سے ایک سے زائد باراپنی مثبت رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔
حکومتی حلقوں سے کرپشن کے خلاف ایک اور ذمے دار اور توانا آواز سامنے آئی ہے اور یہ آواز ہے صدر مملکت ممنون حسین کی۔ گزشتہ دنوں صدر مملکت ممنون حسین نے ایوان صدر میں قومی روزناموں کے ایڈیٹروں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کرپشن نے ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹا ہے۔ بدعنوانی ابھی ختم نہیں البتہ کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔کرپشن کے الزامات بہت ہیں ۔ صدر مملکت نے بتایا کہ ایک وفاقی وزیر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ انھیں علم نہیں کہ کون ان کے بینک اکاؤنٹ میں 4 کروڑ سے زیادہ کی رقم جمع کرادیتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کرپشن، دہشتگردی اور دوسرے قبیح جرائم پر اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو کسی کو اس کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے میڈیا پر زور دیا کہ بدعنوانی ختم کرنے کے لیے میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔ بلاشبہ صدر مملکت کے خیالات قابل ستائش ہیں۔ راقم الحروف اسلام آباد میں ایوان صدر اورکراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں صدر مملکت سے متعدد ملاقاتیں کرچکا ہے۔ میں نے ہر بار یہ محسوس کیا کہ صدر پاکستان حساس دل کے مالک ہیں اور ملکی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔
وہ ملک سے حقیقی معنوں میں کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ کرپشن ختم ہو اور ملکی معیشت تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر صدر مملکت ممنون حسین نے کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ہے ۔ اب معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اس جہاد میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان میں ہر شخص کرپشن سے نالاں ہے اور یقینا صدر ممنون حسین کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر طبقے پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
سیاست دان، سرکاری افسران، علمائے کرام، جج حضرات، تعلیم صحت غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں کرپشن کے منحوس سائے نظر نہ آتے ہوں۔ میں یہ درخواست بھی کروں گا کہ کرپشن کے خلاف شعور اجاگرکرنے کے لیے واضح ایکشن پلان دیا جائے تاکہ قوم کے نوجوان اس ایکشن پلان کو آگے لے کر بڑھیں اور اس ناسور کے خلاف شعور بیدار کریں۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز یوں تو کسی بھی شعبے سے کیا جاسکتا ہے مگر میں خاص طور پر ترقیاتی اداروں کے خلاف اس کا رخ کرنے کی استدعا ہے ۔ اگر اس سلسلے میں دیانتداری سے کام ہو تو شاید یہاں سیاستدانوں سے بھی زیادہ کرپشن بیوروکریٹس میں نظر آئے گی۔
اب اس طبقے کا بھی بے رحمانہ احتساب ہونا چاہیے جو عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ان کرپشن عناصر کا بھی احتساب کیا جانا چاہیے۔ جو ٹھیکوں میں ہیراپھیری سے اپنی دنیا کو جنت بنالیتے ہیں اور عمارتیں گرنے سے جاں بحق ہونے والوں سے ان کی دنیا چھین لیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان عناصر کا بھی احتساب کیا جائے جو ہم پاکستانیوں کا مال کھا کر بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنانے میں مصروف ہیں اور ان کا بھی احتساب کیا جائے جو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن وصول کرتے رہے ہیں۔ صدر ممنون حسین نے کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کرکے ایک بنیاد رکھ دی ہے اب یہ قوم کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔