ننھی بسمہ کو مت بھولیں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معصوم بچی بسمہ کی موت کا ذمے دار کون ہے
واقعہ پرانا ہے، مگر انسانی جان کے ضیاع کا معاملہ ہے اس لیے موضوع اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے گونجتے رہیں گے۔
واقعہ کے مطابق شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے ، بازار سے گھر کی طرف روانہ تھا ، دور سے جوگی چوک ( گبول پارک ) پر ٹی وی چینلز کی متعدد گاڑیاں وہاں کھڑی دکھائی دیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد بھی جمع تھا، میرے ہمراہ میرا چھ سالہ لڑکا عزیر احمد بھی تھا ، یہ غیر متوقع منظر دیکھ کر میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ، اور دل میں وسوسے پیدا ہوئے ، اللہ خیر کرے ! یہ بھیڑ کیوں ؟ سوچتے سوچتے میں بھیڑ میں داخل ہوچکا تھا ،
ساتھ والی گلی میں میرا گھر تھا ، میں یہ جاننے کی جستجو میں تھا کہ ماجرا کیا ہے ؟ اسی اثناء میں کیمرا اور مائیک میرے سامنے تھا ، اس واقعے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ میں خود حیران ہوں یہاںمعاملہ کیا ہے ۔ میں نے کہا ۔ پھر برابر والے صاحب بتانے لگے کہ فیصل اپنی بیمار بیٹی کو علاج کے واسطے سول اسپتال لے کر گیا وہاں بلاول بھٹو کی آمد تھی اس لیے سیکیورٹی نقطہ نظر سے اسے اسپتال کے اندر جانے نہیں دیا گیا اور بچی مر گئی ۔
میں نے سوچا جمہوری باد شاہت کے پروٹوکول نے ایک اور معصوم سی جان لے لی ۔دل و دماغ میںہتھوڑے برسنا شروع ہوگئے ، اپنے جذبات کو قابو کرتے ہوئے غم و الم کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ، ٹی وی کے سامنے لیٹ گیا کیوں کہ بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی ، مختلف ٹی وی چینلز پر معلومات حاصل کرتا رہا ، بلوچی ٹی وی چینل ( وش ) پر رک گیا ، جس کے ہوسٹ انعام بلوچ اس درد ناک واقعے پر تبصرہ کر رہے تھے ، وہ درد دل رکھنے والوں خاص طور پر معصوم بسمہ کے والدین کی ترجمانی کررہے تھے اور شاہانہ پروٹوکول کے نتائج پر گفتگو کر رہے تھے ، یہ لائیو پروگرام تھا ، اس درد انگیز گفتگو کے دوران ایک کالر کا فون آیا جو ایک بلوچ اور لیاری کا تھا جس کو اس بات کا رنج تھا کہ اس کے لیڈر بلاول بھٹو کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ؟
ہوسٹ نے کہا کہ اگر خدا نخواستہ فیصل کی جگہ آپ ہوتے اور بسمہ کی جگہ تمہاری بیٹی ہوتی تو کیا کرتے اور تمہارے احساسات کیا ہوتے ؟ یہ بے حسی علاقے کے رہنماؤں میں بھی دیکھی گئی جب صوبائی سینئر وزیر برائے تعلیم نثار کھوڑو نے میڈیا کو یہ بیان دیا کہ ( بلاول بھٹوزرداری ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے ) ، اسی طرح پی پی پی کی ایک اور رہنما جو انسانی حقوق کی علمبردار بھی ہیں اور جس کا گھر بسمہ کے گھر سے قریب ہے نے کہا کہ ( وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے بچی کی موت نہیں ہوئی ، اس پولیس اہلکار کی انکوائری ہوگی جس نے بیمار بچی کو اسپتال جانے سے روکا ، اس ڈاکٹر سے انکوائری ہوگی ۔
جس نے کہا کہ بچی دس منٹ پہلے لاتے تو بچ جاتی ، کسی کو دس ماہ کی بچی موت کو سیاسی نہیں بنا نا چاہیے ) کیا کہنے ان جمہوری رہنماؤں کا ؟ اب تو عوام کو اپنی اوقات کا احساس ہونا چا ہیے ۔ ان کی جان کا حکمرانوں کو کوئی احساس نہیں ، شاہانہ پروٹوکول حکمرانوں کا استحقاق ہے اور پروٹوکول کے باعث کسی کی ہلاکت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ، یقینا ایک سوال پیدا ہوتا کہ اس تحقیقات کا کیا ہوا، بسمہ کے والدین ان کے والد سے کیے گئے وعدے وفا ہوئے کہ نہیں۔ایک نے اطلاع دی کہ بسمہ کے والد کو فوری جاب مل جانے کی امید ہے۔
اصل واقعہ یہ تھا کہ کراچی کے سول اسپتال میں مریضوں کو زندگی دینے والے شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کے افتتاح کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری کے شاہانہ پروٹوکول کے باعث کلاکوٹ ، گبول پارک ، لیاری کے رہائشی فیصل بلوچ کی دس ماہ کی ننھی بسمہ باپ کے ہاتھوں دم توڑ گئی ۔ بدھ23 دسمبر 2015ء کو فیصل بلوچ شدید بخار میں مبتلا اپنی ۰۱ ماہ کی بچی بسمہ کو موٹر سائیکل پر لیے لیاری سے سول اسپتال کے لیے تیزی سے روانہ ہوا تاکہ اسے فوری طبی امداد دی جاسکے ۔
لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ سول اسپتال کراچی کے اطراف کو بلاول بھٹو زرداری پر و ٹوکول کے سبب عام شہریوں کے لیے بند کردیا گیا ہے ، اسپتال میں مریضوں کا داخلہ اور وی وی آئی پیز موومنٹ کے باعث اطراف کی سڑکیں ٹریفک کے لیے بند ہیں ، فیصل بلوچ نے موٹر سائیکل چھوڑ کر بچی کو گود میں اٹھایا اور دیوانہ وار دوڑتا ہوا سول اسپتال کا رخ کیا ، وہاں موجود پروٹوکول حکام سے فریاد کرتا رہا کہ اس کی بچی تیز بخار میں سسک رہی ہے ، اس کی حالت غیر ہے ۔
اسے اسپتال کے ایمر جنسی میں داخل ہونے دیا جائے تا ہم سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کی ایک نہ سنی جب کہ دوسری جانب اسپتال کے اندر انتظامی افسران پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر اعلیٰ سندھ کو پروٹوکول دینے اورخود وہاں موجود بلاول بھٹوزرداری اور حکومت سندھ کے حکام ٹراما سینٹر کے متعلق بریفنگ لینے میں مصروف رہے ۔
اے درد دل رکھنے والے انسانو! یقیناً اس منظر سے آپ تڑپ اٹھے ہونگے کہ ایک طرف اسپتال کے اندر شہریوں کی جان بچانے کے لیے ٹراما سینٹر میں دی جانے والی سہولیات پر بریفنگ دی جارہی تھی تو دوسری طرف سول اسپتال کے گیٹ پر دس ماہ کی بچی بسمہ کی سانسیں اکھڑنا شروع ہوگئیں تھیں ، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئے جارہی تھی ۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے لگایا گیا وی وی آئی پیز پروٹوکول تو ختم نہیں ہوا البتہ بچی نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا ۔ فیصل بلوچ کو بہ مشکل جب ایمر جنسی میں جانے کی اجازت ملی تو وہاں موجود ڈاکٹر ز نے بچی کا طبی معائنہ کرکے اس کی موت کی تصدیق کردی ۔
جس کے بعد بچی کے والد کا صبر بھی جواب دے گیا ، دہائیاں دیتے ہوئے بسمہ کے والد فیصل بلوچ کا کہنا تھا کہ شدید بخار میں مبتلا اپنی بچی کو وہ ایک گھنٹہ تک اسپتال کے ایمرجنسی گیٹ کے باہر لے کر کھڑا رہا لیکن کسی نے اس کی فریاد نہیں سنی ، پروٹوکول اہلکاروں کی منت سماجت کی تاہم کسی نے اندر جانے نہیں دیا جس کے سبب بچی ہاتھوں میں ہی دم توڑ گئی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معصوم بچی بسمہ کی موت کا ذمے دار کون ہے؟۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ موت کی ذمے دار سندھ حکومت ہے ، بچی کی ہلاکت ناقابل معافی ہے ، شہریوں سے ظالمانہ سلوک بند کیا جائے ،وی وی آئی پیز کی نقل و حرکت کے نام پر شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنا آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے ، اس لیے سپریم کورٹ معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ہر قسم کے پروٹوکول پر فوری پابندی لگائے ۔تاکہ کوئی قیمتی انسانی جان اس کی بھینٹ نہ چڑھے۔ننھی بسمہ کو یاد رکھیں۔
واقعہ کے مطابق شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے ، بازار سے گھر کی طرف روانہ تھا ، دور سے جوگی چوک ( گبول پارک ) پر ٹی وی چینلز کی متعدد گاڑیاں وہاں کھڑی دکھائی دیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد بھی جمع تھا، میرے ہمراہ میرا چھ سالہ لڑکا عزیر احمد بھی تھا ، یہ غیر متوقع منظر دیکھ کر میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ، اور دل میں وسوسے پیدا ہوئے ، اللہ خیر کرے ! یہ بھیڑ کیوں ؟ سوچتے سوچتے میں بھیڑ میں داخل ہوچکا تھا ،
ساتھ والی گلی میں میرا گھر تھا ، میں یہ جاننے کی جستجو میں تھا کہ ماجرا کیا ہے ؟ اسی اثناء میں کیمرا اور مائیک میرے سامنے تھا ، اس واقعے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ میں خود حیران ہوں یہاںمعاملہ کیا ہے ۔ میں نے کہا ۔ پھر برابر والے صاحب بتانے لگے کہ فیصل اپنی بیمار بیٹی کو علاج کے واسطے سول اسپتال لے کر گیا وہاں بلاول بھٹو کی آمد تھی اس لیے سیکیورٹی نقطہ نظر سے اسے اسپتال کے اندر جانے نہیں دیا گیا اور بچی مر گئی ۔
میں نے سوچا جمہوری باد شاہت کے پروٹوکول نے ایک اور معصوم سی جان لے لی ۔دل و دماغ میںہتھوڑے برسنا شروع ہوگئے ، اپنے جذبات کو قابو کرتے ہوئے غم و الم کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ، ٹی وی کے سامنے لیٹ گیا کیوں کہ بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی ، مختلف ٹی وی چینلز پر معلومات حاصل کرتا رہا ، بلوچی ٹی وی چینل ( وش ) پر رک گیا ، جس کے ہوسٹ انعام بلوچ اس درد ناک واقعے پر تبصرہ کر رہے تھے ، وہ درد دل رکھنے والوں خاص طور پر معصوم بسمہ کے والدین کی ترجمانی کررہے تھے اور شاہانہ پروٹوکول کے نتائج پر گفتگو کر رہے تھے ، یہ لائیو پروگرام تھا ، اس درد انگیز گفتگو کے دوران ایک کالر کا فون آیا جو ایک بلوچ اور لیاری کا تھا جس کو اس بات کا رنج تھا کہ اس کے لیڈر بلاول بھٹو کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ؟
ہوسٹ نے کہا کہ اگر خدا نخواستہ فیصل کی جگہ آپ ہوتے اور بسمہ کی جگہ تمہاری بیٹی ہوتی تو کیا کرتے اور تمہارے احساسات کیا ہوتے ؟ یہ بے حسی علاقے کے رہنماؤں میں بھی دیکھی گئی جب صوبائی سینئر وزیر برائے تعلیم نثار کھوڑو نے میڈیا کو یہ بیان دیا کہ ( بلاول بھٹوزرداری ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے ) ، اسی طرح پی پی پی کی ایک اور رہنما جو انسانی حقوق کی علمبردار بھی ہیں اور جس کا گھر بسمہ کے گھر سے قریب ہے نے کہا کہ ( وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے بچی کی موت نہیں ہوئی ، اس پولیس اہلکار کی انکوائری ہوگی جس نے بیمار بچی کو اسپتال جانے سے روکا ، اس ڈاکٹر سے انکوائری ہوگی ۔
جس نے کہا کہ بچی دس منٹ پہلے لاتے تو بچ جاتی ، کسی کو دس ماہ کی بچی موت کو سیاسی نہیں بنا نا چاہیے ) کیا کہنے ان جمہوری رہنماؤں کا ؟ اب تو عوام کو اپنی اوقات کا احساس ہونا چا ہیے ۔ ان کی جان کا حکمرانوں کو کوئی احساس نہیں ، شاہانہ پروٹوکول حکمرانوں کا استحقاق ہے اور پروٹوکول کے باعث کسی کی ہلاکت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ، یقینا ایک سوال پیدا ہوتا کہ اس تحقیقات کا کیا ہوا، بسمہ کے والدین ان کے والد سے کیے گئے وعدے وفا ہوئے کہ نہیں۔ایک نے اطلاع دی کہ بسمہ کے والد کو فوری جاب مل جانے کی امید ہے۔
اصل واقعہ یہ تھا کہ کراچی کے سول اسپتال میں مریضوں کو زندگی دینے والے شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کے افتتاح کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری کے شاہانہ پروٹوکول کے باعث کلاکوٹ ، گبول پارک ، لیاری کے رہائشی فیصل بلوچ کی دس ماہ کی ننھی بسمہ باپ کے ہاتھوں دم توڑ گئی ۔ بدھ23 دسمبر 2015ء کو فیصل بلوچ شدید بخار میں مبتلا اپنی ۰۱ ماہ کی بچی بسمہ کو موٹر سائیکل پر لیے لیاری سے سول اسپتال کے لیے تیزی سے روانہ ہوا تاکہ اسے فوری طبی امداد دی جاسکے ۔
لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ سول اسپتال کراچی کے اطراف کو بلاول بھٹو زرداری پر و ٹوکول کے سبب عام شہریوں کے لیے بند کردیا گیا ہے ، اسپتال میں مریضوں کا داخلہ اور وی وی آئی پیز موومنٹ کے باعث اطراف کی سڑکیں ٹریفک کے لیے بند ہیں ، فیصل بلوچ نے موٹر سائیکل چھوڑ کر بچی کو گود میں اٹھایا اور دیوانہ وار دوڑتا ہوا سول اسپتال کا رخ کیا ، وہاں موجود پروٹوکول حکام سے فریاد کرتا رہا کہ اس کی بچی تیز بخار میں سسک رہی ہے ، اس کی حالت غیر ہے ۔
اسے اسپتال کے ایمر جنسی میں داخل ہونے دیا جائے تا ہم سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کی ایک نہ سنی جب کہ دوسری جانب اسپتال کے اندر انتظامی افسران پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر اعلیٰ سندھ کو پروٹوکول دینے اورخود وہاں موجود بلاول بھٹوزرداری اور حکومت سندھ کے حکام ٹراما سینٹر کے متعلق بریفنگ لینے میں مصروف رہے ۔
اے درد دل رکھنے والے انسانو! یقیناً اس منظر سے آپ تڑپ اٹھے ہونگے کہ ایک طرف اسپتال کے اندر شہریوں کی جان بچانے کے لیے ٹراما سینٹر میں دی جانے والی سہولیات پر بریفنگ دی جارہی تھی تو دوسری طرف سول اسپتال کے گیٹ پر دس ماہ کی بچی بسمہ کی سانسیں اکھڑنا شروع ہوگئیں تھیں ، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئے جارہی تھی ۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے لگایا گیا وی وی آئی پیز پروٹوکول تو ختم نہیں ہوا البتہ بچی نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا ۔ فیصل بلوچ کو بہ مشکل جب ایمر جنسی میں جانے کی اجازت ملی تو وہاں موجود ڈاکٹر ز نے بچی کا طبی معائنہ کرکے اس کی موت کی تصدیق کردی ۔
جس کے بعد بچی کے والد کا صبر بھی جواب دے گیا ، دہائیاں دیتے ہوئے بسمہ کے والد فیصل بلوچ کا کہنا تھا کہ شدید بخار میں مبتلا اپنی بچی کو وہ ایک گھنٹہ تک اسپتال کے ایمرجنسی گیٹ کے باہر لے کر کھڑا رہا لیکن کسی نے اس کی فریاد نہیں سنی ، پروٹوکول اہلکاروں کی منت سماجت کی تاہم کسی نے اندر جانے نہیں دیا جس کے سبب بچی ہاتھوں میں ہی دم توڑ گئی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معصوم بچی بسمہ کی موت کا ذمے دار کون ہے؟۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ موت کی ذمے دار سندھ حکومت ہے ، بچی کی ہلاکت ناقابل معافی ہے ، شہریوں سے ظالمانہ سلوک بند کیا جائے ،وی وی آئی پیز کی نقل و حرکت کے نام پر شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنا آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے ، اس لیے سپریم کورٹ معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ہر قسم کے پروٹوکول پر فوری پابندی لگائے ۔تاکہ کوئی قیمتی انسانی جان اس کی بھینٹ نہ چڑھے۔ننھی بسمہ کو یاد رکھیں۔