اضافی بوجھ کا شور پی آئی اے میں خاموشی سے1000افراد بھرتی

وفاقی حکومت نےملازمتیں ایسے وقت میں دیں جب وہ آئی ایم ایف سے قومی ایئرلائن کوآئندہ جون تک فروخت کرنےکا وعدہ کرچکی ہے


Shahbaz Rana January 12, 2016
اضافی بھرتیوں سے پی آئی اے کا خسارہ 254.7 ارب روپے تک پہنچ گیا، وزیر خزانہ ادارے کی نجکاری پر اپوزیشن کو منانے میں ناکام ہوگئے فوٹو: فائل

ایک ایسے وقت میں جب قومی ایئرلائن میں اضافی بوجھ کا شور مچ رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ادارہ نقصان میں جارہا ہے، وفاقی حکومت نے پی آئی اے میں خاموشی سے مزید 1000 افراد بھرتی کرلیے ہیں۔

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے پی آئی اے نجکاری کو دی گئی ایک بریفنگ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف گزشتہ سال میں ن لیگ کی حکومت نے پی آئی اے میں 400 افراد کو بھرتی کیا ۔ پی آئی اے کی انتظامیہ اور نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ گذشتہ سال ادارے کے خسارے میں 27.8 بلین روپے کا اضافہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت اپنے بیانات میں گذشتہ حکومتوں پر پی آئی اے میں اضافی بھرتیاں کرنے اور ادارے کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔

اضافی بھرتیوں سے پی آئی اے کا خسارہ 254.7 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار ادارے کی نجکاری پر اپوزیشن کو منانے میں ناکام ہوگئے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وفاقی حکومت نے پی آئی اے میںبھرتیاں ایسے وقت میں کی ہیںجب وہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قومی ایئرلائن کو آئندہ جون تک فروخت کرنے کا وعدہ کرچکی ہے۔

پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے اپنے آخری تین سال میں ادارے میں 1435 افراد کو بھرتی کیا تاہم پیپلزپارٹی نے کبھی بھی اپنے ووٹروں کو ملازمتیں دینے کے عمل کو چھپایا نہیں۔ دونوں ادوار کو دیکھا جائے تو پی آئی اے کے ملازمین کی مجموعی تعداد 2008 میں 18 ہزار 36 تھی جو 2015 تک 14 ہزار 847 رہ گئی۔ اگر ن لیگ کی حکومت مذکورہ ایک ہزار افرادکو بھرتی نہ کرتی تو یہ تعداد 14 ہزار سے بھی نیچے آسکتی تھی۔

پیر کو بھی وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں جن میں تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی مسلم لیگ و دیگر شامل ہیں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن حزب اختلاف کی ان جماعتوں نے معاملے سے مکمل اختلاف کیا۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ سول ایوی ایشن کی جانب سے مختلف ایئرلائنز کو لینڈنگ رائٹس دینے سے پی آئی اے کے مارکیٹ شیئرمیں بھی کمی آرہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔