قصہ سندھ اسمبلی میں بیوٹی سیلون کا
سیاستدانوں کےہارسنگھارپراعتراض نہیں لیکن ایوان میں بیٹھ کرکبھی توانکی بھلائی بھی سوچیں جنکےووٹوں سےوہ اسمبلی پہنچتےہیں
RAWALPINDI:
[poll id="885"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
سجنا سنورنا ہر کسی کا حق ہے۔ یہ بات جائز بھی ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن جب عین ناک کے نیچے معصوم بچے بھوک اور افلاس کے ہاتھوں ہرروز موت کی وادی میں اتر رہے ہوں، جب حکومتی نااہلی اور کرپشن عوام کو دن میں تارے دکھا رہی ہو، عالم یہ ہو کہ صوبائی دارالحکومت کے گٹروں کے ڈھکن لگوانے کیلئے 'عالمگیر' مہم شروع ہوجائے اور عوامی نمائندے تب بھی نہ جاگیں، ایسے میں سندھ کے اراکین اسمبلی کیلئے بیوٹی سیلون بنانے کی بات کرنا اور وہ بھی اسمبلی کی عمارت میں، ناجائز بھی ہے اور ناحق بھی۔
اراکین اسمبلی کیلئے بیوٹی سیلون بنانے کا اچھوتا خیال کس کو آیا اور کون اسکا مخالف ہے یہ تو فضول بحث ہے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنی دانش اور اپنی آئینی ذمہ داری کے حوالے سے کس پستی کی جانب گامزن ہیں۔ آخر وہ کیا رکاوٹ ہے جو ایوانوں میں بیٹھے نام نہاد نمائندوں کو اس ادراک سے بے خبر رکھے ہوئے ہے کہ عوام اب باشعور ہورہے ہیں، انکو چالیس پینتالیس سال پرانی کارکردگی کا جھانسا دیکر موجودہ خامیوں اور کوتاہیوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا نہ ہی جمہوریت کے خطرے میں ہونے کا راگ زیادہ دن تک الاپا جاسکتا ہے۔
آپ سائیں سرکار کی پچھلے سات سالوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو خال خال ہی کوئی بہتری صوبے میں نظر آئیگی البتہ تھر میں لگے لاشوں کے ڈھیر پر سندھ فیسٹول ہوتا دکھائی ضرور دیگا۔ اسپتالوں میں ادویات اور مناسب سہولیات کی کمی اور ٹراما سینٹر کے افتتاح کی نظر ہوتی بسمہ دکھائی دیگی۔ اندرون سندھ کے لوگوں کی مفلسی اور بنیادی ضروریات زندگی کی نایابی اور سندھ اسمبلی کی پُر شکوہ عمارت نظر آئیگی۔
پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اپنی جڑیں عوام میں ہونےکا دعویٰ کرتی ہے اور بلاشبہ یہ پاکستان کی واحد پارٹی ہے جسکا ووٹ بینک ہر صوبے میں تھا لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد سے یہ جماعت مسلسل تنزلی کا شکار ہے لیکن پھر بھی لیڈرشپ غلطی پر غلطی کئے جارہی ہے۔ پہلے مفاہمت کی سیاست نے نظریاتی کارکن کو بدظن کردیا اور اب ڈاکٹر عاصم کے انکشافات اور انکو جھٹلانے کی کوشش اس پارٹی کی ساکھ کو مزید خراب کررہی ہے۔ ایسے میں حکومتی عہدیداروں کا رویہ اور انکے اقدامات عوام سے رابطے کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ایک مشرق تو دوسرا مغرب میں دیکھ رہا ہے۔ رینجرز تنازعہ نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کردی کہ پی پی پی صوبے میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص امن وامان کے قیام کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس تشکیل دینا باعث حیرانگی ہرگز نہیں ہے لیکن یہ اپوزیشن حکومت کو کتنا جھنجوڑ پائیگی اسکا انحصار خود گرینڈ الائنس میں شامل جماعتوں کی سنجیدگی پر ہے ورنہ تو یہاں کئی اتحاد بنے اور صرف ایک وزارت کی قیمت پر ٹوٹے ہیں ۔
دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت آئی لوگوں کی زندگی آسان بنا گئی کہ جمہور کی تکالیف کو جمہوریت ہی نے بہتر طور سے سمجھا لیکن پاکستان میں جمہوریت وہ بانسری بن گئی ہے جس پر اپنی اپنی مرضی کی دھنیں بجائی جارہی ہیں۔ انقلاب فرانس کی کارکن میڈم رولینڈ نے کہا تھا کہ اے آزادی! تیرے نام پر کیسے کیسے جرائم کئے جاتے ہیں۔ آپ اس فقرے میں آزادی کو جمہوریت سے بدل دیجئے باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
سیاست دانوں کے ہار سنگھار پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ اپنے حسن کرشمہ ساز کو جتنا مرضی دوآتشہ کرتے رہیں لیکن ایوان میں بیٹھ کر کبھی تو ان کی بھلائی بھی سوچیں جن کے چہرے مرجھا گئے ہیں اور جنکی آنکھوں سے بے بسی جھلکتی ہے۔
[poll id="885"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔