افغانستان میں قیام امن اور فریقین کی ذمے داریاں

افغانستان میں بدامنی سے اس سارے خطے کو مسائل کا سامنا ہے اور پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہو رہا


Editorial January 13, 2016
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنی فوجیں یہاں سے واپس لے جائیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب افغانستان میں امن قائم ہو جائے، فوٹو : پی آئی ڈی

افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے گزشتہ روز اسلام آباد میں چارملکی رابطہ گروپ کا اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں افغانستان' چین' پاکستان اور امریکا کے حکام نے شرکت کی۔ افغانستان کی نمایندگی اس کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی جب کہ پاکستان کی طرف سے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری شریک ہوئے۔

امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان اور پاکستان رچرڈ اولسن اور چین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ڈینگ زی جون نے اپنے اپنے وفد کی قیادت کی۔ اس چار ملکی رابطہ گروپ نے افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے درمیان فوری طور پر براہ راست مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا۔ مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں چاروں ممالک نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور سائیڈ لائن پر ہونے والے اجلاس میں بیان کردہ اہداف پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ کیا۔

9 دسمبر کو ہونیوالے سہ فریقی اور چار فریقی اجلاسوں کی بنیاد پر اجلاس کے شرکا نے افغانوں کی قیادت اور ملکیت میں ہونے والے امن اور مفاہمتی عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ اجلاس کے دوران چارفریقی رابطہ گروپ کے امور کارکے لیے طریقہ کار کی منظوری دی گئی اور اتفاق کیا گیا کہ گروپ کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے جائیں گے۔ چارفریقی گروپ اٹھارہ جنوری کو کابل میں اپنے آیندہ اجلاس کے دوران اس حوالے سے روڈ میپ پرتبادلہ خیال کرے گا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اس گروپ کا پہلا کام مصالحتی عمل کی مجموعی سمت کا تعین کرنا ہے۔ہم نے افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے جب کہ مصالحتی عمل کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہے کیوں کہ اعتماد سازی کے اقدامات طالبان کی مذاکراتی عمل میں شمولیت کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

افغان امن عمل افغانوں کا اپنے طور پر شروع کردہ اور اسی کی سرپرستی میں ہونا چاہیے کیونکہ باہر سے مسلط کردہ حل قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ پائیدار ہوگا۔ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن اوراستحکام کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان چین اور امریکا کا کردار بنیادی طور پر امن عمل میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ اور علاقائی سطح پر قریبی تعاون پیشگی شرط ہے جب کہ پاکستان ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہونا چاہیے اور اس مقصد کے حصول کے لیے افغان حکومت اور اس سے برسرپیکار طالبان گروپوں کے درمیان مفاہمتی عمل شروع ہونا چاہیے۔ پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن بوجہ یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ یہ کوشش کیوں کامیاب نہیں ہوئی 'اس کا پتہ افغانستان کی حکومت کو بھی ہے اور طالبان بھی بخوبی جانتے ہیں۔

امریکا اور چین کے حکام کو بھی صورت حال کا خاصی حد تک ادراک ہے۔ بہرحال یہ امر خوش آیند ہے کہ اب افغانستان میں امن کے قیام میں عوامی جمہوریہ چین بھی سرگرم کردار ادا کر رہا ہے جب کہ امریکا بھی اپنی پالیسی میں کسی حد تک تبدیلی عمل میں لایا ہے۔ افغانستان میں بدامنی سے اس سارے خطے کو مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہو رہا جب کہ وسط ایشیائی ریاستیں بھی کسی حد تک متاثرین میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ عوامی جمہوریہ چین بھی افغانستان کی صورت حال سے متاثر ہو رہا ہے۔ چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ کی سرحدیں پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ صوبہ بھی خاصے عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس لیے چین بھی یہی چاہتا ہے کہ افغانستان میں کسی طرح امن قائم ہو جائے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال کا براہ راست تعلق امریکا سے ہے۔

امریکا کی فوجیں یہاں موجود ہیں۔ اس کے اتحادیوں کی بھی فوجیں یہاں موجود ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنی فوجیں یہاں سے واپس لے جائیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب افغانستان میں امن قائم ہو جائے۔اب یہ ساری قوتیں افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کر رہی ہیں لیکن سب سے زیادہ ذمے داری افغانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو کسی قابل قبول حل تک لائیں۔

وہ افغان جو موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہیں 'انھیں بھی اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنی چاہیے اور وہ افغان جو موجودہ حکومت اور اتحادی فوجوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں انھیں بھی اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔تبھی افغانستان میں قیام امن کی راہیں کھل سکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں