شام فضائی بمباری مسئلہ کا حل نہیں
مشرق وسطیٰ کا بحران شام میں خونریزی کی نئی انتہا کو پہنچ گیا ہے اور غزہ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے
مشرق وسطیٰ کا بحران شام میں خونریزی کی نئی انتہا کو پہنچ گیا ہے، غزہ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، اب غیر ملکی فوجوں کی فضائیہ کے حملوں سے اسکول اور معصوم بچے اور اساتذہ بھی محفوظ نہیں، ہلاکتوں سے شامی شہریوں کو اذیت ناک حالات کا مزید سامنا ہے۔ پیر کو روسی جنگی طیاروں نے ایک اسکول پر بمباری کردی جس میں اسکول کے12بچوں سمیت 15 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوگئے، بمباری شام کے صوبہ حلب کے قصبہ انجارا کے ایک اسکول پرکی گئی، مرنے والوں میں ایک خاتون ٹیچر سمیت3 افراد بھی شامل ہیں۔ زخمی ہونے والے تمام بچے اور اساتذہ ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔
دریں اثناء حلب شہر میں باغیوں کے راکٹ حملے میں مزید 3 بچے جاںبحق ہوگئے ۔ بمباری میں اسکول کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی۔ شام میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں بمباری کی گئی، اس کے زیادہ تر حصے پرشامی باغیوں کا قبضہ ہے اور اس پر قبضے کے لیے حکومتی افواج اور باغیوں میں جھڑپیں جاری ہیں۔
ادھر فرانسیسی صدر فرانکوئی ہولاند سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شامی اپوزیش کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے سربراہ سابق وزیراعظم ریاض حاجب نے کہا ہے شدیدبمباری میں کسی قسم کے مذاکرات بے معنی ہوں گے، ہم بات چیت کے لیے سنجیدہ ہیں مگر شامی شہریوں پر فضائی حملے ہورہے ہیں، فرانسیسی صدر نے بمباری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کا محاصرہ کرکے لوگوں کو بھوکوں مارنے کی پالیسی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کے جواب میں روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی بمباری کا ہدف داعش کے لڑاکا گروپ ہیں۔بہر کیف شام کی صورتحال دردانگیز ہے کیونکہ سیکڑوں عام شہری اس لڑائی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
دریں اثناء روسی صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ روس باقی دنیا کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنا چاہتا ہے مگرمغرب پر الزام لگاتے ہوئے اس نے کہا کہ امریکا جس تنازع کا حصہ بنتا ہے وہاں صورتحال سنگین ہوجاتی ہے۔تاہم داعش کے خاتمے کی جنگ میں بیگناہ شامی بچوں کی ہلاکت کا کوئی جواز نہیں۔عالمی برادری اولین فرصت میں شام میں ہلاکتوں کے سدباب پر توجہ دے ، فضائی بمباری مسئلہ کا حل نہیں۔
دریں اثناء حلب شہر میں باغیوں کے راکٹ حملے میں مزید 3 بچے جاںبحق ہوگئے ۔ بمباری میں اسکول کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی۔ شام میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں بمباری کی گئی، اس کے زیادہ تر حصے پرشامی باغیوں کا قبضہ ہے اور اس پر قبضے کے لیے حکومتی افواج اور باغیوں میں جھڑپیں جاری ہیں۔
ادھر فرانسیسی صدر فرانکوئی ہولاند سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شامی اپوزیش کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے سربراہ سابق وزیراعظم ریاض حاجب نے کہا ہے شدیدبمباری میں کسی قسم کے مذاکرات بے معنی ہوں گے، ہم بات چیت کے لیے سنجیدہ ہیں مگر شامی شہریوں پر فضائی حملے ہورہے ہیں، فرانسیسی صدر نے بمباری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کا محاصرہ کرکے لوگوں کو بھوکوں مارنے کی پالیسی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کے جواب میں روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی بمباری کا ہدف داعش کے لڑاکا گروپ ہیں۔بہر کیف شام کی صورتحال دردانگیز ہے کیونکہ سیکڑوں عام شہری اس لڑائی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
دریں اثناء روسی صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ روس باقی دنیا کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنا چاہتا ہے مگرمغرب پر الزام لگاتے ہوئے اس نے کہا کہ امریکا جس تنازع کا حصہ بنتا ہے وہاں صورتحال سنگین ہوجاتی ہے۔تاہم داعش کے خاتمے کی جنگ میں بیگناہ شامی بچوں کی ہلاکت کا کوئی جواز نہیں۔عالمی برادری اولین فرصت میں شام میں ہلاکتوں کے سدباب پر توجہ دے ، فضائی بمباری مسئلہ کا حل نہیں۔