سیرت رسولؐ کی روشنی میں دفاع پاکستان

قیام پاکستان کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اس تاثر کو غلط اور مفروضہ بتاتے ہیں


Rafiuzzaman Zuberi January 13, 2016

اﷲ کے رسول ؐ کی سیرت بیان کرنا بہت بڑی سعادت ہے، خوش قسمت ہیں ڈاکٹر ہارون الرشید جن کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ انھوں نے ایک نئے زاویے سے سرکار دوعالمؐ کی سیرت بیان کی ہے۔

ان کی کتاب کا عنوان ہے ''سیرت رسولؐ کی روشنی میں دفاع پاکستان'' اس کتاب میں انھوں نے حضورؐ کی حیات مبارکہ کے تمام واقعات تاریخ وار لکھے ہیں، ان کا تجزیہ کیا ہے اور تاریخ عالم پر ان کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کا ذکر کیا ہے، انھوں نے اسلام کے دور اولین سے زمانہ حال تک کی پوری تاریخ بیان کر دی ہے، تاریخ کی اس روشنی میں انھوں نے برصغیر میں اسلام کی آمد، اس کے حوالے سے پاکستان کے وجود میں آنے کے اسباب اور محرکات، آزادیٔ وطن اور اس کے بعد کے واقعات کا احاطہ بھی کیا، پاکستان کو درپیش خطرات، ان کا مقابلہ کرنے کی تدابیر، دفاعِ وطن کے تقاضے اور انھیں پورا کرنے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے، مختلف دفاعی اداروں اور ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا ہے۔

قیام پاکستان کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اس تاثر کو غلط اور مفروضہ بتاتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام کا آغاز 93 ہجری یعنی 712 عیسوی میں ہوا، وہ لکھتے ہیں ''اس خطے میں اسلام کا پودا اس روز پروان چڑھا جب فخر موجودات، مقصود کائنات، منبع فیضات، ارفع الدرجات، چشم علم و حکمت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارکہ سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا، شق القمر کا واقعہ تو سرزمین عرب پر رونما ہوا لیکن چاند کے یہ دو ٹکڑے ہندوستان کے علاقے ''کرالا'' کے بادشاہ چرامن پرومل نے بھی دیکھے، چرامن پرومل اپنے وفد کے ساتھ سرزمین حجاز پہنچا اور اس نے اسلام قبول کیا۔ اس کا مسلم نام تاج الدین کی صورت سامنے آیا۔''

برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی تحریک کی ابتدا علامہ اقبال کی مسلم لیگ کے الٰہ آباد سیشن میں اس کی تجویز سے ہوئی اور پھر 23 مارچ 1940ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری سے اس کے لیے جد وجہد کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر ہارون الرشید کہتے ہیں کہ پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''مکہ سے مدینہ ہجرت کا مقصد رب العالمین کے نام پر ایک الگ مملکت کا قیام تھا جہاں مسلمان ایک رب کی عبادت کر سکیں۔

1366 سال بعد دوسری بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی صورت میں رونما ہوئی جس کا مقصد بھی رب العالمین کے نام پر ایک الگ مملکت کا قیام تھا، جہاں مسلمان اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔ اسلام کے نام پر مدینہ اور پاکستان کے قیام میں مماثلت ہے، مدینہ طیبہ اور پاکستان میں حسن معانی کا رشتہ ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام یقینا ریاست مدینہ کے قیام کے مشابہ ہے، پاکستان کا دفاع ہمیں اسی طرح مقدم ہے، جس طرح مسلمانوں نے مدینہ کا دفاع کیا تھا۔ پاکستان کے دفاع کے لیے بھی بدر، خندق، حدیبیہ اور فتح مکہ جیسے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔''

پاکستان کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''اسلامی جمہوریہ پاکستان عصر حاضر میں اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے مسلسل جد وجہد کی ضرورت ہے، دفاع پاکستان کے لیے امت کے سپہ سالاراعظم محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمارے لیے مینارۂ نور ہیں، پاکستان کا وجود خاتم النبیینؐ کی بشارت کا ثمر ہے اور اب اس کی تعمیر ودفاع کے لیے جد وجہدکرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی سنت نبویؐ ہے۔''

اپنی کتاب کے باب ''رسول اﷲ ؐ بحیثیت سپہ سالار'' میں ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''عصر حاضر میں جنگ، جہاد اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہی قوم میدان کارزار میں کود سکتی ہے جو اس فن سے واقف ہو اور اس کے مرد و زن سپہ گری کے ہر داؤ پیچ میں پوری طرح تربیت یافتہ ہوں۔ مکہ سے ہجرت کے بعد اہل اسلام نے جو تنظیم قائم کی اس میں عسکری قوت کو سنگ میل کی حیثیت حاصل تھی۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ ''میدان جنگ میں حالات کے مطابق لڑائی کی حکمت عملی کے علاوہ رسول اﷲؐ نے دفاعی تدابیر پر بھی عمل کیا۔ آپؐ نے علاقے میں مسلسل اور مستقل گشت کا نظام مرتب کیا۔

اہل مکہ کے تجارتی قافلے مختلف موسموں میں شمال اور جنوب کی طرف جاتے تھے۔ شام کو جانے والے تجارتی کارواں جس شاہراہ سے نکلتے تھے وہ مدینہ کے قریب سے گزرتی تھی اس لیے آپؐ نے احتیاط کے ساتھ اس کی ناکہ بندی کر کے اہل قریش کو ہمہ وقت متوجہ رکھا۔ اس شاہراہ کے ارد گرد آپؐ خود بھی فوجی دستے لے کر نکلتے تھے اور بہت سے سرابا بھی تجارتی قافلوں اور ان کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے لیے بھیجتے رہتے تھے، جاسوسی کے اس نظام نے دفاع کو بہت مستحکم کیا۔

لشکر اسلام کے کمانڈر کی حیثیت سے رسول اﷲؐ فوج کی تیاری جس طریق پر کرتے تھے، میدان جنگ کا انتخاب، مجاہدین کی صفوں کی ترتیب، جنگ سے قبل اور دوران جنگ ہدایات، مجاہدین کی سرگرمیوں میں برابرکی شرکت اور جنگ میں دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کا جذبہ آپؐ کی حربی صلاحیت اور عسکری مہارت کو واضح کرتا ہے۔ غزوات و سرابا میں آپؐ کی کمانڈر پوسٹ عصر حاضر کے جرنیلوں کے لیے ایک مثال ہے۔

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ''سپہ سالار اعظم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے جنگی اصولوں سے ہم آج بھی اپنی عسکری طاقت مضبوط کر سکتے ہیں۔ یہ اصول اگر مسلمانوں کے تمام جرنیل جذبہ جہاد سے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں تو انشاء اﷲ اپنے سے کئی گنا زیادہ فوج کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی، شرط اول ایمان ہے۔ ایمان اور یقین کے بل پر ہم دنیا کی کسی بھی بڑی طاقت سے ٹکر لے سکتے ہیں۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ ''عصر حاضر میں اس بات کا بھی خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ دشمن کس قسم کے اسلحے کی تربیت حاصل کر رہا ہے پھر اسی قسم کا اسلحہ حاصل کیا جائے، دشمن کے حملوں اور اسلحے کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید طریقوں سے واقفیت ضروری ہے چنانچہ راکٹوں، میزائلوں، توپوں، ٹینکوں سے آگے اب اینٹی سیٹلائٹ اور الیکٹرونک وار کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے الفا پارٹیکل، گاما ریز اور لیزر شعاعوں کی مدد سے بننے والے ہتھیار بھی ایسے دور مار اسلحہ ہیں جو دشمن کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہ سب بہترین مروجہ عسکری قوت مہیا رکھنے کے لیے ربانی ارشاد اور تاکید نبویؐ کی تعمیل میں شمار ہوتے ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔