ہمارا ہر سپہ سالار سر بلند رہے گا

آیندہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ نہیں ہو گی اور وجہ یہ کہ پاکستان اب انتہائی طاقت ور ہو چکا ہے


Abdul Qadir Hassan January 13, 2016
[email protected]

TEHRAN: ہمارے ناپختہ اور وقتی ضرورت کے تحت بدلنے والی روایات والے اس ملک میں ہر مسئلے پر ایک عارضی سی کیفیت طاری رہتی ہے۔ مثلاً آرمی کے سربراہ کا عہدہ مدت سے چلا آ رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس کے قانونی معاملات طے شدہ ہیں اور ہر جرنیل کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس عہدے پر پہنچا ہے یہاں کوئی پہلے بھی تھا جو کسی مقررہ طے شدہ قاعدے اور روایت کے تحت چلا گیا اور اس کی جگہ اسے مل گئی چنانچہ یہ بھی کسی دن اپنے پیشرو کی طرح یہ عہدہ خالی کر دے گا۔

اس میں کوئی الجھن اور تنازعہ نہیں ہے ایک پرانا طے شدہ معمول ہے جو اس خطے میں انگریزوں کے دور سے چلا آ رہا ہے اور جس پر مسلسل عمل ہو رہا ہے لیکن ان دنوں پھر بھی بری فوج کے سربراہ جرنیل کی رخصتی زیر بحث ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ایسے مقبول عام مکمل دیانت دار اور اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے جرنیل کو ابھی مزید اس عہدے پر باقی رہنا چاہیے جب کہ اپنی فوج کے جرنیلوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر اعتماد کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ جو روایت اور قانون و قاعدہ ہے۔

اس کے مطابق ہی عمل کیا جائے اور کسی دوسرے جرنیل کو اس منصب پر ترقی دے دینی چاہیے کیا ہمارے پاس فوج کی سربراہی کے اہل صرف ایک ہی جرنیل ہے اگر ایسا ہے تو پھر پوری فوج کے بارے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ہم ایک ایسی منظم متحد اور انتہائی تربیت یافتہ فوج والے ملک اور قوم ہیں جس کی اہلیت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کا ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر ملک ہے۔ اس کے دشمن بلکہ جانی دشمن بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اب پاکستان کو فتح نہیں کیا جا سکتا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو باقی رہے گی۔

دنیا کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جو اپنا تاریخی نام ساتھ رکھتے ہیں۔ مثلاً ایران عراق وغیرہ۔ یہاں حکومت کسی کی ہو اور ملک میں کوئی سا نظام حکومت بھی رائج ہو یہ ممالک اپنے اسی قدیمی نام سے ہی پہچانے جاتے ہیں جو نام مدتوں سے چلا آ رہا ہے لیکن پاکستان کو اپنا نام ملے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ یہ ہمارے سامنے کا ایک نیا ملک ہے جو سرزمین ہند پر نمودار ہوا اور اس نے پاکستان نام اختیار کیا۔

تاریخ نے یہ نام اس ملک کے حوالے نہیں کیا کچھ پہلے کی تاریخ میں تو پاکستان کا نام ہی نہیں ملتا اس لیے تاریخ نے ایک نیا نام اس ملک کو دیا اور پھر اس نئے نام کو اپنے رجسٹروں میں ہمیشہ کے لیے درج کر دیا اور یوں اس پر پاکستان کی مہر لگا دی۔ تاریخ نے برسہا برس بعد اپنی صف میں کسی نئے ملک کو شامل کیا اور دنیا کی تاریخ میں ایک شاندار اضافہ کیا۔ پاکستان محض ایک ملک ہی نہیں انسانی تاریخ میں اضافہ بھی ہے۔ یہی پاکستان جو دنیا کے کروڑوں انسانوں کے سامنے وجود میں آیا اور جن کو اس کی ساری کہانی یاد ہی نہیں دیکھی ہوئی بھی ہے آج وہ قدیم و جدید دنیا کا ایک طاقت ور ملک ہے۔

یہ تاریخ کا ایک کرشمہ ہے کہ کوئی نوزائیدہ ملک اتنی جلدی ایک طاقت ور ملک کے طور پر نمودار ہوا ہو۔ پاکستان کی اپنے ایک پڑوسی ملک بھارت کے خلاف کئی جنگیں بھی ہوئیں مگر اب دنیا کے ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آیندہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ نہیں ہو گی اور وجہ یہ کہ پاکستان اب انتہائی طاقت ور ہو چکا ہے کہ اس کے ساتھ جنگ کرنا اپنی تباہی مول لینا ہے۔

تعجب ہے کہ نصف صدی سے کچھ ہی زیادہ عمر کا یہ ملک اتنا طاقت ور بن گیا کہ ناقابل تسخیر مان لیا گیا۔ دنیا کے اس خطے پر گہری نظر رکھنے والے ایک دانشور نے لکھا ہے کہ اب پاک و ہند پر گفتگو کرنے کے لیے جنگ کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اب دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ممکن نہیں رہی کوئی بھی تباہ و برباد نہیں ہونا چاہتا۔

طاقت کے اصل معنی جنگ کے حوالے سے فوج کی طاقت کے ہوتے ہیں اس لیے ان دنوں پاکستان میں فوج کے موجودہ سربراہ کی ریٹائرمنٹ اور نئے جرنیل کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن ایک بات ضرور ذہن میں رہے کہ کوئی بھی پاکستانی اس بات پر پریشان نہیں کہ نیا جرنیل کہاں سے آئے گا ہماری فوج بہادر سپاہیوں کی طرح بلند ذہن جرنیلوں سے بھی خالی نہیں ہے اور قانون قاعدے اور پرانی روایت کے مطابق اپنی ہی فوج سے کوئی سپہ سالار اس زبردست فوج کی قیادت کے لیے سامنے آ جائے گا اور جو بھی ہو گا وہ انشاء اللہ اپنے پیشرو سے کم نہیں ہو گا۔ ہماری فوج محض لیفٹ رائٹ کرنے والی فوج نہیں ہے یہ ایک نظریاتی فوج ہے۔

جس کا ذکر ہمیں اپنی کتاب اور ہدایت کے مرکز کلام پاک میں ملتا ہے جس میں مجاہدین کو اجر عظیم کا مستحق قرار دیا گیا ہے بلکہ شہداء کی اتنی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں کہ ہر مسلمان اپنی اس آنے والے زندگی کے لیے جلد ہی مر جانا چاہتا ہے۔ کلام پاک میں شہیدوں کو تو مردہ نہیں زندہ کہا گیا ہے جو ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں مگر ہمیں دکھائی نہیں دیتے اور وہ ایک ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

غالباً ہمارے ایک تاریخی سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کا قول ہے کہ ہم جنگ نہیں کرتے جہاد کرتے ہیں یعنی مسلمان فوج روایتی جنگ نہیں لڑتی وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے جنگ کرتی ہے جسے ہم جنگ نہیں جہاد کہتے ہیں اور ایک مسلمان سپاہی اسی جہاد کا سپاہی ہے۔ ایسی فوج کا سپہ سالار جو بھی ہو گا وہ اپنی فوج سمیت خدا و رسول کے لیے جنگ نہیں جہاد کرے گا جس کے بارے میں کلام پاک میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ تم سر بلند رہو گے اگر تم مومن رہے یعنی ایمان کی دولت تمہارے اندر موجود رہی تو پھر سر بلندی تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے اور ہمارا نیا سپہ سالار اس سر بلندی کے پرچم کو بلند کرے گا اور انشاء اللہ سر بلند ہی رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں